قرآن پاک میں ہے بے شک ہم نے اپنے رسولوں کوواضح دلائل کے
ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ
انصاف کے ساتھ قیام کریں -
ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے لوگوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے ایک اور
فرمان نبوی ﷺ ہے جب وہ عدل کرے گا تو اس کے لیے اجر ہے اجر کو قران مجید
میں کھول کر بیان فرما دیا گیا ہے اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
(المائدہ )۔ عدالت، میزان اور دلیل وہ تکون ہے جس پر پر امن معاشرہ ترتیب
پاتا ہے۔
کالم نویس ڈاکٹر اے ار خان صاحب نے ہائی کورٹ کے ججوں کو مشورہ دیتے ہوئے
لکھا تھا جج مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے سامنے پانی کا گلاس ضرور رکھے۔
جونہی سماعت شروع ہو، ایک گھونٹ منہ میں پینے کی غرض سے نہیں، اپنی زبان
روکے رکھنے کی غرض سے، تاکہ فریقین کا موقف سن سکے
امریتا پریتم نے تو یہاں تک کہا کہ ترازو کے ایک پلڑے میں ہمیشہ پتھر ہوتے
ہیں۔شائد اسی کا نام سچائی یا انصاف ہے پتھروں میں جذبات نہیں ہوتے اسی لیے
کمزور نہیں پڑتے۔ منصف کے لیے لازمی ہے اس کا دل اور آنکھ پتھر کے ہوں
کیونکہ انصاف ایک بڑی امانت اور اعلی اخلاقی ذمہ داری اور بھاری بوجھ ہوتا
ہے۔ منصف کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ انصاف کا معیار مقرر کرتا ہے جو
معاشرتی ترقی یا تنزلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ججوں کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔
پاکستان میں سماعت کے دوران بولنے والے ججوں میں سب سے زیادہ نام جسٹس ثاقب
نثار نے کمایا۔مگر یہ نام کمانے والے پہلے جج نہیں تھے ان سے قبل چوہدری
محمد افتخار، نسیم حسن شاہ، ایم ار کیانی یہ بدعت پوری کر چکے تھے۔ جسٹس
سجاد علی شاہ، مولوی منیر، شیخ انوارعدالتوں میں بہت کم بولتے تھے مگر ان
کے فیصلے چیخ و پکار کرتے ہوئے کمرہ عدا؛ت سے برامد ہوا کرتے تھے۔
آج کل سیاسی حلقوں میں ایک حکائت کا بہت چرچا ہے۔ حکایت یوں ہے کہ مسلمانوں
کے ایک خلیفہ نے جنگل میں ایک کمہار کے گدھوں کے نظم و ترتیب پر حیرت کا
اظہار کیا تو کمہار نے قریب ہو کر خلیفہ کو بتایاکہ جو گدھا نظم توڑے اسے
ڈنڈے سے مارتا ہوں وہ واپس قطار میں آ جاتا ہے۔کسی گدھے کی کیا مجال جو
میرے بنائے ہو نظم کی خلاف ورزی کرے۔خلیفہ کمہار کی ڈسپلن قائم کرنے کی
صلاحیت کے باعث اپنے ساتھ لے آیا اور اسے منصف کی کرسی پر بٹھا دیا۔ پہلا
مقدمہ چوری کا پیش ہوا۔ جج نے مجرم کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ جلاد نے وزیر
کی طرف دیکھا۔ وزیر نے اشارے سے اسے رک جانے کا کہا اور اٹھ کر جج کے پاس
گیا اور اس کے کان میں کہا یہ اپنا آدمی ہے، جج نے دوسرا حکم وزیر کی زبان
کاٹنے کا دیا۔جج کے حکم پر مجرم کا ہاتھ اور وزیر کی زبان کاٹ دی گئی۔ اس
کے بعد ملک میں ایسا امن ہوا کہ پورا ملک ہی سدھر گیا۔ہمارے ایک وزیر با
تدبیر نے ٹی وی پر بیٹھ کر فرمایا ہے کہ پانچ ہزار لوگوں کو لٹکا دیا جائے
تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کہا جاتا ہے چین میں مقدمات کا سرعت
سے فیصلہ ہوتا ہے اور انھیں گولی سے اڑا کر اطمینان حاصل کر لیا جاتا ہے۔
کوریا سے بھی ایسے ہی صریع انصاف کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ عراق کے
معزول صدر صدام حسین اختلاف رائے رکھنے والوں کو اپنے پستول سے میٹنگ کی
میز پر ہی انصاف مہیا کر دیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے اس قسم کا انصاف
پاکستان میں عوام کو قابل قبول نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام تو اس انصاف کو بھی ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں
کرتے۔ جس میں جج کا کردار بھی انصاف پر مبنی نہ ہو۔ کیونکہ پاکستانیوں کو
جمعہ کے خطبوں میں بتایا جاتا ہے جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو توانصاف سے
فیصلہ کیا کرو۔ خدا تمھیں خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک خدا سنتا اور دیکھتا ہے
(النساء)
امام ابو حنیفہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے چیف جسٹس کا عہدہ اس
لیے ٹھکرا دیا تھا کہ ان کے پیش نظر یہ فرمان نبوی ﷺ تھا جو صیح فیصلہ نہیں
کرے گا اس کا مقام جہنم ہے ۔ جس معاشرے میں جج یا منصف حکمران کے ہاتھ کی
چھڑی اور زور آور کی جیب کی گھڑی بن جائے وہاں عدالت کی عزت باقی رہتی ہے
نہ جج کی۔
کیا پاکستانی عدالتوں کے ججوں کا کردار واقعی ایسا ہے کہ خدا ان کو محبوب
رکھتا ہے۔ اور پاکستان کے سپریم کورٹ کی عمارت پر نصب میزان وہی ہے جو
آسمان سے اتاری گئی تھی؟ یہاں تو جسٹس ثاقب نثار کے دور میں عدلیہ اپنے
ہتھوڑے کے زور پر اپنی توقیر پر بضد رہی۔سرکاری ملازمیں کو بتایا جاتا کہ
وہ حکومت کے نہیں ریاست کے ملازمیں ہیں۔مگر اپنے بارے میں ان کی رائے مختلف
رہی۔اس دور میں سولی چڑھ جانے کے بعد بریت کے فیصلے بھی سامنے آتے رہے
ہیں۔وقت کی حکومت کے وزیر داخلہ کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا جاتاا
مگر کسی ادارے کے افسرکو جج سے ملنے کی سہولت دستیاب رہی۔دوسری طرف پاکستان
کی سب سے اعلی ٰ عدالت میں چیف جسٹس کی موجودگی میں ایک شہری جج کے رو برو
کھڑے ہو کر ان پررشوت ستانی کا الزام لگاتا ہے۔ نہ عدالت کی چھت پھٹتی ہے
نہ جج حیرت سے کرسیوں سے اچھلتے ہیں۔ البتہ سیکورٹی کے ذریعے اسے کمرہ
عدالت سے ضرور نکال باہر کیا جاتا ہے۔اس دور میں سیاسی مقدمات میں دہرا
معیار اپنا کر عوام کو حیرت زدہ کیا گیا۔ آئین کو پاما کرنے والوں اور
شہریوں کے قاتلوں سے مخاطب ہونے سے پہلے لہجوں میں میٹھا رس گھولا
جاتا۔البتہ اپنے وسائل سے دوسرے شہریوں کی خدمت کرنے والوں کو طعنہ زنی کا
شکار بنایا گیا۔امیر اور غریب کے لیے انصاف کے پیمانے علیحدہ علیحدہ کر دیے
گئے۔ اورخود کو اعلانیہ سیاسی طور پر متنازعہ بناکربقول فیض عدل کا حشر
اٹھا دیا گیا۔
ہماری ستر سالہ تاریخ میں بے شمار ججوں میں سے صرف چند لوگوں ہی کی مثال مل
سکتی ہے جنھوں نے عدلیہ کو بدنام کیا اور اپنی ذات کو رسوا، ورنہ سیاسی،
معاشی اور سماجی عدم مساوات کو ہماری عدلیہ ہی برابر رکھے ہوئے ہے۔ عدل کے
لفظ کے لیے عبرانی میں صداقت کا لفظ ہے۔ ہماری عدالتوں کے جج صداقت کی حد
تک عدل کرتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ نظام عدل میں پراسیکیوشن اہم کردار
ادا کرتی ہے۔ اور ہمارے پراسیکیوشن کے اداروں کا کردار نیب کے کردار سے
زیادہ مختلف نہیں ہے۔
پراسیکیوشن کے کردار کو جانچنے کے لیے مختلف سیاسی مقدمات میں بنائی جانے
والی جے ائی ٹی اور ان کے مرتب کردہ والیوم کو ذہن میں لایئے۔۔ ایسی مثالیں
بھی موجود ہیں کہ ایسی دستاویزات جو ٹرالیوں پر لاد کر عدالت میں لائی گئی
مگر عملی طور لندن میں ترازوکے اس پلڑے کو اٹھانے میں ناکام رہی جس میں صرف
ایک قانونی شق رکھی ہوئی تھی۔
اس کے باوجود جج اپنے علم کے بل بوتے پر حقیقت جان لیتاہے۔ اللہ کی یہ
نصیحت ہر جج کو ازبر ہوتی ہے جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل
کے ساتھ کرو ۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ ججوں کے فیصلے انصاف
کے ساتھ ساتھ اپنا ذاتی مستقبل سنوارتے نظر آتے ہیں اور سابقہ چیف جسٹس
ثاقب نثار کا نام بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ جو اپنی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد
اہل خانہ سمیت لندن جا بسے ہیں۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں جناب ثاقب نثار صاحب ایسے جج کے طور پر یادگار
رہیں گے جنھوں نے عدالتی ہتھوڑے کے ذریعے اپنا تاریخی مقام منتخب کیا-
|