کئی دن سے سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھوں شدید
پریشانی اور کرب کے عالم میں مبتلا ہوں اور ساتھ ہی ایک عجیب سی بے چینی
میرے خون میں سراہیت کرتی جارہی ہے کہ میں تو بجلی کا بل بھی وقت پر بھرتا
ہوں پھر مجھے کس گناہ کی سزا دی جارہی ہے اس وقت حیدرآباد ریجن میں شدید
گرمی اور حبس کا عالم ہے کچھ روز سے درجہ حرارت 45 سے49تک جا پہنچا ہے۔ اس
عالم میں گھر سے باہر جانا کسی مشکل مرحلے سے کم نہیں مگر گز بسر کے لئے
گھر سے باہر تو جانا پڑتا ہی ہے اور پھر جب گھر لوٹو تو معلوم ہوتاہے کہ آج
پھر ٹرانسفارمر پھٹ چکا ہے تو خون مزید اور گرم ہوجاتا ہے اور غصہ سا آنے
لگ جاتا ہے جس سے بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کا اٹیک ہوسکتا ہے ۔ مگر ملک
میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے مگر میں بات حیدرآباد کی کروں گا
جہاں پر حیسکو کی نا اہلی کھل کر سامنے آچکی ہے ۔ ایک ڈویثرن جس کو دو
گاڑیاں اور 12 لوگ دے دیئے گئے ہیں اور 5 یونٹس اس کے حوالے کردیئے ہیں کہ
اب یہاں پرجو بھی مسئلے ہوں یہی مختصر ٹیم نمٹے گی ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے
کہ ایک جگہ ایک علاقے میں ٹرانسفارمر نصب کرنے میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا
ٹائم درکار ہوتا ہے ۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک علاقے میں اتنا وقت لگے
گا تو دوسرے محلے کے اندرمزید عوامی بے چینی بڑھ جائے گی کہ اس گرمی کے
اندر کس طرح بیٹھا جائے ۔ اب اگر اس صورتحال میں حیسکو سے معلوم کیا جائے
کہ ٹرانسفارمر کیوں پھٹ رہے ہیں تو وہ فرماتے ہیں کہ شدید گرمی ہے اور لوڈ
زیادہ ہے جو ٹرانسفارمر برداشت نہیں کرپاتا ہے اور پھٹ جاتا ہے اورزیادہ تر
لوڈ چوری کی بجلی کا ہے جوکہ ٹرانسفارمرز کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اب جناب
بجلی کی چوری روکنا کس کا کام ہے ایک عام آدمی تو یہ کام کر نہیں سکتا
کیونکہ اس عام آدمی کو چوری بھی تو انہیں حیسکو اہل کاروں نے سکھائی ہے اور
کچھ دوسرے عناصر ان کے ساتھ مل چکے ہیں ۔ اس وقت حیدرآباد میں بے تحاشہ
چوری کے ائیر کنڈیشنز چلوائے جارہے ہیں کچھ کنڈے پر ہیں تو کچھ منتھلی کے
اوپر چلوائے جارہے ہیں جن کی منتھلی ایک شخص فی گھر 1500سے2000کے درمیان
وصول کرتا ہے جس سے ایک عام شہری باآسانی ٹھنڈی مشین کے مزے لے لیتا ہے ۔
مگر اس وقت حیدرآباد میں مزید بڑھ چکی ہے حسین آباد بند سے لیکر 12 نمبر
بند تک رہائشوں علاقوں سے بجلی چوری کرکے ان غیر قانونی آباد گار رہائشوں
کو دی جارہی ہے جن سے فی گھر 1000 سے 2000 کے درمیان وصول کیے جارہے ہیں ۔
اب خود اندازہ لگائیں کہ یہ لوگ کون ہیں کیا واپڈا ملازمین کے بغیر یہ کالا
دھندا کیا جاسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ایک اندازے کے مطابق ایسے مخصوص لوگوں کی
L.S اور دیگر اہم لوگوں سے دوستیاں ہیں جن کی سرپرستی میں یہ کالا دھندا
جاری ہے اور پھر کہتے ہیں کہ ٹرانسفارمر پر لوڈ زیادہ ہے اب خود اندازہ
لگائیں کہ ایک سادہ آدمی جو صبح سے شام تک کمائے اور بجلی کے بلوں میں اوور
بلنگ بل بھر بھر کر اپنی کمائی خرچ کردے اور پھر بھی اگر بجلی نہ ملے تو
سادہ شخص پر کیا گزرے گی اس وقت حیدرآباد کی سادہ عوام شدید پریشانی اور
ذہنی دباؤ میں مبتلا ہے آئے روز مختلف علاقوں میں ٹرانسفارمرز پھٹ رہے ہیں
کمپلین کے باوجود ٹیم 7 سے 12 گھنٹے کے بعد آتی ہے اور اگر ٹرانسفارمر پھٹ
بھی جائے تو 2 سے4 دن کے بعد لگایا جاتا ہے ۔ پھر ٹرانسفارمر فٹ کرنے کے 2
گھنٹے پکے ہیں اس طرح لوڈ شیڈنگ والی بجلی بھی چلی جاتی ہے ۔ اب نہ UPSچارج
ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوسرے وسائل آسانی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اس
صورتحال میں توانائی بحران پر قابو ایک ہی صورت میں پایاجاسکتا ہے کہ کوئلے
کی مدد سے بجلی بنائی جاسکتی ہے اور سسٹم کو مزید اپ گریڈ کیا جاسکتا ہے تو
صارفین کی سہولت کے لئے بجلی کے ٹرانسفارمر جوکہ آئے دن پھٹ جاتے ہیں اس سے
علاقے میں کئی کئی روز بجلی منقطع رہتی ہے جس سے عوام میں شدید بے چینی اور
غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے اور لوگ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر بھی مجبور ہوجاتے
ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اس ٹرانسفامر سسٹم کو بھی مزید بہتر بنایا جائے اور
نئے ٹرانسفارمر فوری لگائے جائیں اور جو لوگ غیر قانونی بجلی استعمال کررہے
ہیں ان پر حکومت سخت ایکشن لے کر بجلی کے کنکشن اور میٹر فراہم کئے جائیں
تاکہ کسی مسئلے کے حل کی جانب بڑھ سکیں۔ دوسری اہم وجہ چوری ہے جس کی ذمہ
دار خود واپڈا ہے جس کے کئی ملازمین اس کالے دھندے میں ملوث ہے وہ خود اپنے
ملازمین کا سد باب کرے اور انہیں سزا دے ۔ میرے ذرائع کے مطابق ایک معمولی
ایمپلائی کے پاس بھی جس کی تنخواہ 30 سے 50 ہزار کے درمیان ہے وہ بھی الٹو
یا کلٹس کار رکھتا ہے تو برائے مہربانی ان سے یہ معلوم بھی کرلے کہ اس قسم
کی مہنگائی گاڑی ان کے پاس کہاں سے آئی ہے ۔موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومت
سے میری گزارش ہے کہ آپ عوامی نمائندے ہیں تو برائے مہربانی عوام کو بھی
عوام کا جائز حق دیں اور بجلی دینا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس قسم کی
بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو فلفور از سر نو تعمیر کرکے عوام کو ریلیف فراہم
کیا جائے اور بجلی کی چوری کو روکنے کے لئے دیگر اداروں کی مددلی جائے اور
اپنے اندر چھپے کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے
جوکہ ادارے کے لئے ناسور بنتا جارہا ہے اور عام آدمی اس سے شدید متاثر ہوتا
جارہا ہے ۔ آخر میں یہی کہناچاہو گا کہ جو غیر قانونی بجلی کنکشن یا کنڈا
مافیا ہے تو اسکے خلاف کاروائی کرنا بھی حیسکو اور حکومت کی اولین ترجیح ہے
ایسا نہیں کہ بجلی چوروں کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی ۔ کاروائیوں تو ہوتی
ہے مگر چار کنڈے بھی کاٹے جاتے ہیں اور پھر مزید 6 سے 7 ان کے جانے پر واپس
لگوابھی دیئے جاتے ہیں۔
آخر میں یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارا ایمان کہاں دفن ہوگیا ہے اورہمارے
ضمیر کہاں مر گئے ہیں کہ ہم غلط سے غلط کام میں شرم محسوس نہیں کررہے ہیں
ادارے تو ادارے سے ہی مگر عام آدمی بھی اپنے آپ کی اصلاح خود کرئے اس سے
پہلے کہ نسلیں مزید برباد ہوجائے ۔
|