کل نفس ذائقہ الموت۔ لیجیے رحمت علی رازی صاحب بھی راہی
ملک عدم ہوئے۔ ان کے ارتحال پرملال کی خبر سے قلب وذہن کو ایک زبردست دھچکا
لگا۔سینئر صحافی ، کالم نویس رحمت علی رازی فیصل آباد سے ایک شادی میں شرکت
کے بعد لاہور واپس رہے تھے تو انہیں راستے میں ہی دل کا دورہ پڑا جو جان
لیوا ثابت ہوا۔ رحمت علی رازی بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے
صحافتی کیرئیر کا آغاز 1974 میں کیا۔رحمت علی رازی تحقیقاتی صحافت اور کالم
نویسی کے میدان میں شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے 1987 سے 1996 کے دوران
تحقیقاتی رپورٹنگ میں 7اے پی این ایس ایوارڈز حاصل کر کے صحافت کی تاریخ
میں ایک سنہرا باب رقم کیا۔رحمت علی رازی کو 23 مارچ 2000 میں ‘‘صدراتی
تمغہ برائے حسن کارکردگی ’’سے بھی نوازا گیا۔ ان کی شخصیت شفاف صحافت، بے
داغ کردار اور صحافیانہ بصیرت کی ترجمان ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہ روزنامہ 92
نیوز سے وابستہ ہوگئے تھے۔ ان کے لاہور میں 2 ذاتی اخبارات بھی تھے جو
روزنامہ عزم اور روزنامہ طاقت کے نام سے شائع ہوتے ہیں۔
جنابِ رحمت علی رازی صاحب نے تحریکِ پاکستان کو مہمیز دینے والے تاریخ ساز
شہر بہاولپور میں جنم لیا۔ انہوں نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز 1974ء میں
روزنامہ’’وفاق‘‘ سے بحیثیت سٹاف رپورٹر کے اور 1982 تک اسی سے منسلک رہے۔
بہ ایں ہمہ 1978ء میں وہ ’’پنجاب یونین آف جرنلسٹس ‘‘کی ’’مجلس عاملہ‘‘ کے
بلا مقابلہ رکن منتخب ہوئے تو 1979 میں اس کے جوائنٹ سیکرٹری چن لئے گئے
اورپھر1981ء میں ’’پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘‘ کی ’’مجلس عاملہ‘‘ کے
رکن منتخب ہوگئے۔ 1988ء میں ’’ آئی ایس پی آر‘‘ کی جانب سے ’’دفاعی نامہ
نگار‘‘ کی تربیت حاصل کی۔ 1989 میں پاکستان آرمی کی مشقِ اعظم’’ضربِ مومن‘‘
میں شمولیت اختیار کر کے فوج کے مختلف یونٹوں کے ساتھ رہے اور اس جنگی مشق
کی بہترین رپورٹنگ پر انہیں اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے ’’تعریفی
سند‘‘ عطا کی گئی۔ ازاں بعد روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ساتھ بطور ’’فیچر
رائٹر‘‘ اور انٹرویو نگار منسلک ہوگئے اور 1984ء سے مارچ 1994ء تک ’’سینئر
سٹاف رپورٹر‘‘ کے طور پر کام کیا۔ مارچ 1994ء میں ہی روزنامہ ’’جنگ لاہور‘‘
کے ساتھ ’’خصوصی نامہ نگار‘‘ کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے اور ان کی قابلیت
اور غیر معمولی کارکردگی کی بنا پر 1997ء میں انہیں ایڈیٹر گریڈ میں ترقی
دے کر’’جنگ گروپ آف نیوز پیپرز‘‘ کا ’’ایڈیٹر انویسٹی گیشن‘‘ مقرر کر دیا
گیا۔ یہی وہ دور تھا جب روزنامہ جنگ میں ’’درونِ پردہ ‘‘کے نام سے شائع
ہونے والا ان کا تحقیقاتی کالم قومی اوربین الاقوامی سطح پر ہر مکتبہ فکر
کی توجہ کا مرکز بن گیا جو آجکل روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘، روزنامہ’’طاقت‘‘ اور
ہفت روزہ ’’عزم‘‘ کے صفحات کی زینت بن رہا ہے۔ ’’دورنِ پردہ‘‘ واحد کالم ہے
جس کی عوامی پسندیدگی سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر لاکھوں ’’لائیکس‘‘ کا
ریکارڈ بنا رہی ہے۔غربت، عدم مساوات، سرمایہ دارانہ نظام، خواتین کا
استحصال اور عام آدمی کے مسائل رحمت علی رازی صاحب کے کالموں کے موضوعات
تھے۔ ، انہوں نے اردو کالم نویسی کو اختراعی جہت عطا کی، رحمت علی رازی
صاحب کی ادبی و صحافتی خدمات ناقابل فراموش ہیں ، ان کی ادب اور صحافت کے
لیے خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔
حالات پر گہری نظر رکھنے اور جابر حکمرانوں کی خبر لینے والے رحمت علی رازی
پاکستان کے واحد صحافی ہیں جنہوں نے 1987 سے 1996 کے دوران بہترین تحقیقی
رپورٹنگ پر سات ’’اے پی این ایس‘‘ ایوارڈز حاصل کر کے صحافت کی تاریخ میں
ایک سنہرا باب رقم کیا۔ بہ ایں ہمہ شعبہ صحافت میں گراں قدر خدمات کے
اعتراف میں انہیں 23 مارچ2000ء کو ’’صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی‘‘ سے
بھی نوازا گیا۔
کہتے ہیں کہ کتاب کبھی پرانی نہیں ہوتی۔ اسے جتنی بار پڑھا جائے، ہر مرتبہ
نئے معنی اور مفہوم کے ساتھ اپنا آپ منوا لیتی ہے۔ بس دنیائے صحافت کی ان
چند شخصیات میں سے ایک رحمت علی رازی صاحب انتہائی شریف النفس، دین دار،
نیکوکار اور ’عامل بہ عمل‘ صحافی تھے جو اب ہم میں نہیں رہے۔ رحمت علی رازی
صاحب سے دوستانہ تکلف کا دعویٰ تو نہیں کر سکتا، البتہ 2007سے اب تک جب بھی
ملاقات ہوئی یا ٹیلی فون پر گفتگوہوئی نیاز مندی کا طلب گار ضرور رہا اور
انھوں نے کمال مہربانی سے ہر گام شفقت فرمائی۔وہ عمر بھر طالب علموں کے لیے
ایک شجر سایہ دار رہے۔
رحمت علی رازی صاحب ایک انسان دوست اور درویش صفت شخص کے طور پر پہچانے
جاتے تھے وہ اپنے سینے میں ایک دھڑکتا پھڑکتا ہوا اور دردمند دل رکھتے
تھے۔صحافتی برادری کے کاز کو انھوں نے ہمیشہ بہت عزیز رکھا اور صحافیوں کی
جدوجہد میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ صحافت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے
کے بعد بھی وہ اپنے ساتھی صحافیوں کی فلاح و بہبود سے غافل یا لاتعلق نہیں
رہے اور ان کے لگاؤ اور خلوص میں کوئی کمی نہیں آئی۔ عامل صحافیوں کے
مشاہروں اور ان کے حالات کار میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی کا مظاہرہ
کیا۔
غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی اپنی بساط سے بڑھ کر مدد کرنا ان کا ہمیشہ
شیوہ رہا۔ وہ مزاجاً اور عملاً ایک سماجی کارکن تھے اور خدمت خلق کا جذبہ
ان کے خون میں رچا بسا ہوا تھا۔ ان کا حلقہ احباب بھی بے انتہا وسیع تھا جس
میں خواص و عوام کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت
فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے(آمین)۔
|