ایس ایس جی سی کا عزم : گیس چوری کیلئے صفر عدم برداشت
، اوریہی ہر شہری کا عزم ہونا چاہییے
از: سید عمران احمد، چیف منیجر، کارپوریٹ کمونیکیشن، ایس ایس جی سی
قدرتی گیس ایک ناگزیر فیول ہے۔یہ بنیادی توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو
پاکستان کی انرجی مکس کا % 48 ہے۔پاکستان کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ یہاں
گیس کی تقسیم اور ترسیل کا دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جو 150,000کلومیٹر
کے قریب ہے اور یہ تقریباََ 8ملین صارفین کو خدمات فراہم کررہا ہے۔
ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل دونوں گیس کی تقسیم کارکمپنیاں ہیں جو
اپنے مقررہ جغرافیائی علاقوں میں کام کررہی ہیں۔دنیا میں کسی بھی یوٹیلیٹی
کمپنی کو پیش آنے والا سب سے بڑا مسئلہ لائن کے نقصان کا ہوتا ہے۔عالمی سطح
پر قدرتی گیس کے شعبہ میں تقسیم کاری اور ترسیل کی مقدار کو 10%کم شمار کیا
جاتا ہے۔پاکستان میں یہ 10%سے زیادہ ہے لیکن بعض علاقوں میں یہ 60%کی حد کو
پہنچ جاتی ہے۔آئیے ہم ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل کی مثال
لیں۔دوسرے پبلک سیکٹر کے اداروں کے مقابلے میں یہ دونوں کمپنیز بہتر ساکھ
کی حامل ہیں، خاص طور پر جب ان کی تقسیم کاری اور ترسیل کی بنیادی سرگرمیوں
کا معاملہ آتا ہے جب کہ روزمرہ کے کاموں میں ان کے کاروباری امور بہترین
طور پر انجام دئیے جارہے ہیں۔انہوں نے اپنے آپریشنز میں اسٹیٹ آف دی آرٹ
ٹیکنالوجی اور ریفریشنگ صارفین پر مبنی توجہ کوکامیابی کے ساتھ شامل کیا ہے
جس کا مقابلہ اس خطے کی ٹاپ یوٹیلیٹی سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے۔ تاہم کئی سالوں سے ایس ایس جی سی اورر این این
جی پی ایل، دونوں لائن نقصانات کی بڑی مشکلات سے گزررہے ہیں جس کو قدرتی
گیس کی صنعت میں Unaccounted-for-GasیاUFGکہا جاتا ہے۔UFGکی تعریف یوں کی
جاسکتی ہے کہ یہ کل خریدی جانے والی گیس اور فروخت کیلئے فراہم کی جانے
والی گیس کی مقدار کا فرق ہے۔دونوں گیس یوٹیلیٹیز میں سے کسی ایک کے منیجر
سے کمپنی کو درپیش سب سے بڑے چیلنج کے بارے میں پوچھیں تواس کا فوری جواب
UFGہوگا۔UFGایک سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہUFGمیں ہر1%اضافہ کا مطلب ہے کہ
ریگولیٹر، یا اس معاملے میں اوگرا گیس کمپنیز کے منافع میں سے جرمانہ کے
طور پر 1.2ملین روپے وصول کرتا ہے۔ UFGکی بڑھتی ہوئی سطح نے پاکستان میں
گیس یوٹیلیٹیزکی مالیاتی بنیادکو بری طرح متاثرکیا ہے۔ جبکہ اس بات میں
کوئی شبہ نہیں ہے کہ UFGکی مقدار میں اضافہ کی ہمیں بھاری قیمت ادا کرنی
پڑرہی ہے۔اس لئے اب ہمیں ان عوامل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جواس غیر
قانونی سرگرمی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ ہیں۔
UFGمیں اضافہ کی بڑی وجہ قدرتی گیس کی چوری ہے جو صنعتی تخمینے کے
مطابق50%سے زیادہ UFG pieمیں شامل ہوتا ہے۔گیس کی چوری ایک بہت بڑی برائی
ہے جوقومی خزانے کو سالانہ 50بلین روپے کا نقصان پہنچارہی ہے۔وزیراعظم
عمران خان نے حال ہی میں ملک بھر میں گیس چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کی ہدایات
جاری کی ہیں تاکہ صارفین کو50بلین روپے سالانہ گیس کی چوری یا ضیاء کے
بھاری نقصان سے بچایا جاسکے۔
اگرچہ ماضی میں گیس چوری کے خلاف قانون نافذ کیا گیا تھاتاہم گیس چوری کو
کنٹرول کرنے کیلئے گیس کمپنیز کی کوششوں کی زیادہ کامیاب نہیں
ہوسکیں۔بدقسمتی سے گیس کے قانونی استعمال کی بجائے گھریلو، تجارتی اور
صنعتی شعبہ جات کے کئی صارفین نے گیس حاصل کرنے کے مختلف غیر قانونی طریقے
اختیارکرنے شروع کردئیے۔وہ میٹرز کو بائی پاس کرنے ، بھاری جنریٹر چلانے،
غیر قانونی کنکشن استعمال کرنے، ٹرانسمیشن لائنوں کو نقصان پہنچانے، گیس
پائپ لائن میں گڑبڑ کرنے لگے اور پھر بھی قانون کی گرفت میں نہیں آئے۔
اس کے بعد 2016میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے گیس (تھیفٹ اینڈ ریکوری ایکٹ)
پاس کیا جو کہ مختلف اقسام کی گیس چوری میں ملوث ملزمان پر بھاری جرمانہ
عائد کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ ایس ایس جی سی پرپہلے ہی یو ایف جی کی بڑھتی
ہوئی سطح کا بوجھ تھا ، جس کواس ایکٹ کے ذریعہ گیس چوری کے کیسز کے خلاف
سخت اقدام اٹھانے میں مدد ملی ۔ ایس ایس جی سی پولیس کا قیام 2015میں عمل
میں آیا تاکہ کمپنی کی چھاپہ مار پارٹیز کے ساتھ گیس چوروں کے خلاف قانونی
کارروائی میں مدد کرے ،اس کے ساتھ ساتھ دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز
جیسے سندھرینجرز اور ایف آئی اے کوبھی شامل کیا اور کمپنی کے سیکورٹی سروسز
ڈپارٹمنٹ کی تشکیل نو کرکے اسے سیکورٹی سروسز اینڈ کنٹرول گیس تھیفٹ
آپریشنز (ایس ایس اینڈ سی جی ٹی او) ڈپارٹمنٹ بنادیا گیا۔ ڈپارٹمنٹ کا
ڈھانچہ زیادہ پیشہ ورانہ اور نتیجہ خیز انداز میں تشکیل دیا گیااور گیس
تھیفٹ انٹیلی جنس ، سیکورٹی ، پروسیکیوشن اور آپریشن ونگزقائم کئے گئے۔
جولائی 2017میں اپنے قیام کے وقت سے ہی ،ایس ایس اینڈ سی جی ٹی او ڈپارٹمنٹ
نے سند ھ بھر میں انٹیلی جنس پر مبنی 127 آپریشنز کئے جن میں گیس کی چوری
میں ملوث گھریلو ، تجارتی اور صنعتی یونٹس پر چھاپے مارے۔ڈپارٹمنٹ نے
2017سے اب تک کل 1300چھاپے مارے ۔ مئی 2018میں پہلی گرفتاری عمل میں آئی جس
میں کراچی میں سڑک کے کنارے ایک ریستوران کے مالک کو گیس چوری کے الزام میں
گرفتار کیا گیاجس میں اسے پانچ سال قید کی سزا اور 50,000روپے جرمانہ عائد
کیا گیا ۔ اس کے بعدسے اب تک تقریباً 25ملزمان پکڑے گئے جن کو جیل بھجوایا
گیا۔ اس سال فروری میں ایک سی این جی اسٹیشن کے مالک کو گیس چوری کے الزام
میں تیرہ سال قید اور 180ملین روپے جرمانے کی سزا ہوئی۔ ان آپریشنز کے
نتیجے میں اب تک 1500 MMCF قدرتی گیس بچائی جاچکی ہے ۔ ایس ایس جی سی کے
عملے کے جو افراد ملزمان کے ساتھ شامل تھے انہیں بھی نہیں بخشا گیا۔
ایس ایس جی سی کی کاوشوں کو سندھ اور بلوچستان میں 37سے زیادہ گیس یوٹیلیٹی
عدالتوں کے قیام سے مزید تقویت حاصل ہوئی اور ایکٹ کے مطابق ملزمان کے خلاف
تادیبی کارروائی کرنے اور ان کے جرم کی نوعیت کے مطابق سزا دینے کا اختیار
حاصل ہوا۔یہ ایکٹ گیس یوٹیلیٹی کو مزید اختیار دیتا ہے کہ وہ گیس چوروں کو
گرفتار کریں اور گریڈ 17کے افسر کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ایسی جگہ کی
تحقیق کرسکتا ہے جہاں گیس غیر قانونی طریقے سے فراہم یا استعمال کی جارہی
ہو۔
گیس ایکٹ 2016کے سیکشن25میں خاص طور پردرج ہے کہ اگر کمپنی کو گیس چوری کی
کوئی مصدقہ اطلاع ملے تو قانون کے مطابق اطلاع دینے والا وصول شدہ رقم
کے5%کا حقدار ہوگا۔قانون صرف گیس کمپنیز کو مجرمان کو پکڑنے کی اجازت نہیں
دیتا بلکہ غلط کام کرنے والے کو پکڑنے کیلئے ہر عام شہری کو اپنا کردار ادا
کرنے کی ہدایت بھی کرتا ہے۔ چنانچہ ایس ایس جی سی عوام کی حوصلہ افزائی
کرتا ہے کہ گیس چوری کے کواقعہ کی اطلاع مقررہ ای میل اور واٹس ایپ پر ضرور
دیں اور ایکٹ میں درج معلومات کے مطابق ان کو اس کا صلہ دینے کا وعدہ بھی
کرتا ہے۔
کمپنی کا کا رپوریٹ کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ پرنٹ ، الیکترونک ، سوشل میڈیا
اور ڈیجیٹل میڈیا پبلی کیشن میں باقاعدہ مہم چلارہا ہے تاکہ معاشرے کے خلاف
اس جرم سے مقابلے کیلئے سب اٹھ کھڑے ہوں اور تمام شعبہ جات مل کر کوششیں
کریں۔
ایس ایس جی سی گیس چوری سے مقابلے میں ہمیشہ سنجیدگی سے سرگرم عمل ہے ۔ اب
ہم ایک نئے عزم اور مضبوط ارادے کے ساتھ گیس چوروں کے خلاف سخت قدم اٹھائیں
گے ۔ اس کوشش میں کمپنی کو حکومت ، عوام اور میڈیا کا تعاون بھی درکارہے
تاکہ سب مل کر یہ مقابلہ جیت جائیں۔ |