ہمارے محلہ عزیز اآباد راولپنڈی میں میونسپل کمیٹی کینٹ
بورڈ راولپنڈی کی گاڑی آتی ہے جو گھروں کا کوڑا اٹھانے کا کام کرتی ہے اس
کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر گھر کا کوڑا اٹھا کر لے جائے اور مطلوبہ جگہ جو
گورنمنٹ نے مختص کیا ہے پر پھنک دے ۔اس گاڑی کے ساتھ ایک ڈرائیور اور دو
خاکروب ہوتے ہیں جو کوڑا اٹھا اٹھا کر گاڑی میں ڈالتے ہیں جب یہ گاڑیاں نئی
نئی آئی تو بہت اچھا کام تھا پھر پتہ نہیں کیا ہو اان لوگوں کو کہ انھوں نے
گھروں کا کوڑا اٹھانا چھوڑ دیا اور کچھ ہی دنوں میں محلہ کا کوڑا بدبو کرنے
لگا پھر محلہ کے چند لوگوں نے ان لوگوں کی بیماری کی تشخص کر دی کہ ان کو
حرام خوریا ہو گیا ہے،کرپشنیا ہو گیا ہے،رشوتیا ہو گیا ہے، ہمارے معاشرے
میں ان متذکرہ بیماریوں کا علاج موجود ہے پر اس کو کوئی ٹھیک کرنا نہیں
چاہتا ہے نہ ہم نہ ہی گورنمنٹ مگر گونمنٹ کیا کرے گورنمنٹ کے پاس نہ تو
جنات ہیں اور نہ ہی الہامی طاقت ہے جو ان کو بتائے کہ کس کس ایریا میں یہ
بیماری عام ہے۔ہم یعنی عوام جو ساری زندگی رونا روتی ہے حکمران کرپٹ ہے
حکمران کرپٹ ہے مگر یہ نہ سوجتی کہ کیوں ہے تو جناب واپس محلہ میں جاتے ہیں
لوگوں نے بیماریاں پتہ تو کر لی مگر اسے سرکاری ہسپتال میں لے جانے کے
بجائے گھریلو علاج پر ہی متفق ہوئے انھوں نے علاج یوں کیا کہ گاڑی کی
منتھلی یعنی ماہانہ خرچ لگا دیا لو جی دوائی دینے کی دیر تھی محلہ یہ صاف
اور وہ صاف پھر بیماری چھپ گئی مگر ایسی بیماری ہے جو ہر ماہ اپنی دوائی
مانگتی ہے ورنہ کام کرنے والوں کو تنگ کرتی ہے اور کام کرنے والے عوام کو
تنگ کرتے ہیں ۔
سادہ الفاظ میں یوں بیان کرتا ہوں کہ اگر خاکروب کرپشن کرتا ہے اور تنخواہ
لینے کے باوجود اوپر کی آمدن کی خاطر اپنے کام میں کوتاہی کرتا ہے تو ہم اس
سے اوپر اور پھر اور اوپر حتیٰ کہ حکمرانوں کو کیسے پوچھ سکتے ہیں اور اس
پر مزے کی بات یہ کہ ہم پوری پوری مدد کرتے ہیں کہ بھائی یہ تمہارا حق ہے
ہم تمہیں پورا مستفید کریں گے کیوں کہ ہم پاکستانیوں کے پاس بہت پیسہ ہے ہم
ٹیکس بھی دیں گے جس سے تمہیں تنخواہ ملے گی اور منتھلی بھی دیں گے تا کہ تم
معاشرے میں یہ بیماری عام کرو ۔ہم یہ کبھی نہیں سوچھتے کہ یہ ہم کیا کر رہے
ہیں کیوں ڈبل ڈبل قیمت ادا کر رہے ہیں اور اپنے اللہ کو بھی نارض کر رہے
ہیںمگر ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے کون جا کر شکائت کروائے۔
اور پھر ہم کہتے ہیں کہ حکمران ملک کھا گئے ۔ جب اپ گھر کے دروازے کھول کر
سوئیں گے تو گھر میں چوروں کو چوری کرنے کا موقع ملے گا ہم پاکستانیوں کی
مثال اسے ہے کہ بادشاہ سلامت سب ٹھیک چل رہا ہے پر جوتے مارنے والے بندے
زیادہ کر دیں تو جناب ان بیماریوں کو عام کرنے کے بجائے ان کے خلاف اٹھ
کھڑے ہوں اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنایں۔ |