الزام کا انجام

الزام لگانے سے پہلے سوچ لو!!
"غسل کے دوران مدینہ کی ایک عورت نے عورت کی میت کی ران پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہ الفاظ کہے اور اللہ تعالی نے اپنی ڈھیل دی ہوئی رسی کھینچ دی! اس عورت کا انتقال مدینہ کی ایک بستی میں ہوا اور غسل کے دوران جوں ہی غسل دینے والی عورت نے ‏مندرجہ بالا الفاظ کہے تو اس کے ہاتھ میت کی ران کے ساتھ چپک گئے۔ چپکنے کی قوت اس قدر تھی کہ وہ عورت اپنا ہاتھ کھینچتی تو میت گھسیٹنے ہوتی تھی مگر ہاتھ نہ چھوٹتا تھا۔
جنازے کا وقت قریب آ رہا تھا اور غسل نا مکمل ہونے کی وجہ سے لوگ بار بار اس عورت کو کہہ رہے تھے
‏کہ بی بی جلدی غسل دو کہ ہم میت دفنا سکیں مگر بے سود۔
مرتی کیا نہ کرتی آخر اس نے بتا دیا کہ اس کا ہاتھ میت کے ساتھ چپک چکا ہے اور بے حد کوشش کے باوجود جدا نہیں ہو رہا، تمام عورتوں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر کھینچا، مروڑا غرض جو ممکن تھا کیا مگر سب بے سود رہا!
‏دن گزرا ، رات ہوئی، دوسرا دن گزرا،پھر رات ہوئی سب ویسا ہی تھا، میت بھی پڑی ہے عورت کا ہاتھ بھی چپکا ہے، میت سے بدبو آنے لگی اور اس کے پاس ٹھہرنا ،بیٹھنا مشکل ہو گیا!
مولوی صاحبان، قاری صاحبان اور تمام اسلامی طبقے س مشاورت کے بعد طے ہوا کہ عورت کا ہاتھ کاٹ کر جدا کیا جائے ‏اور میت کو اس کے ہاتھ سمیت دفنا دیا جائے۔
مگر اس فیصلے کو عورت اور اس کے خاندان نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم اپنے خاندان کی عورت کو معزور نہیں کر سکتے لہزہ ہمیں یہ فیصلہ قبول نہیں!
دوسری صورت یہ بتائی گئی کہ میت کے جسم کا وہ حصہ کاٹ دیا جائے اور ہاتھ کو آزاد کر کے میت ‏دفنا دی جائے،
مگر بے سود!!!!!
اس بار میت کے خاندان نے اعتراض اٹھایا کہ کم اپنی میت کی یہ توہین کرنے سے بہر حال قاصر ہیں!!!
اس دور میں امام مالک رح قاضی تھے
بات امام مالک تک پہنچائی گئی کہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے! امام مالک اس گھر پہنچے اور صورتحال بھانپ کر اس عورت سے سوال کیا؟
‏"اے عورت! کیا تم نے غسل کے دوران اس میت کے بارے میں کوئی بات کی؟"
عورت نے سارا قصہ امام مالک کو سنایا اور بتایا کہ اس نے غسل کے دوران باقی عورتوں کو کہا کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں!!
امام مالک نے سوال کیا "کیا تمھارے پاس اس الزام کو ثابت کرنے کے ‏لیے گواہ موجود ہیں"
عورت نے جواب دیا کہ اس کے پاس گواہ موجود نہیں!
امام مالک نے پھر پوچھا "کیا اس عورت نے اپنی زندگی میں تم سے اس بات کا تزکرہ کیا؟"
جواب آیا "نہیں"
تو امام مالک نے فوری حکم صادر کیا کہ اس عورت نے چونکہ میت پر تہمت لگائی ہے لہذا ‏اس کو حد مقررہ کے مطابق 80 کوڑے لگائے جائیں!
حکم کی تعمیل کی گئی اور 70 بھی نہیں 75 بھی نہیں 79 بھی نہیں پورے 80 کوڑے مارنے کے بعد اس عورت کا ہاتھ میت سے الگ ہوا!
حوالہ:
بکھرے موتی،جلد اول، مولانا محمد یوسف پالن پوری

اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں)یہ ایک فقرہ وجہ ہے غور فرمائیں مگر میرے ملک پاکستان کے تمام سیاست دان اس گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے بس جو منہ میں آتا ہے وہ بول دیتے ہیں پھر وہ سچ ہو, جھوٹ ہو, گمان ہو, بہتان ہو انکو کوئی غرض نہیں کیا جواب دینا انکو بھول چکا ہے ؟
توبہ آج کل کے لوگ ,اہل وطن کے اہل علم ؤ ہنر, حکمت ؤ دانش کے چراغ, سیاسی ورکر اور با شمول میں بھی مخالف جماعت کے لیڈران اور ان کے فی میل کارکنوں پہ جو الزامات لگاتے ہیں اللّه معاف کرے اس واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہئے..اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرماۓ.
بابرالیاس چیچہ وطنی
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458179 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More