۵؍ سال قبل میرا روڈ کی سرزمین پر ادیب شہیر ڈاکٹر
غلام جابر شمس مصباحی نے ایک سیمینار منعقد کیا۔ راقم نے ’’میڈیا ، دعوتِ
دین اور اعلیٰ حضرت‘‘ کے عنوان پر مقالہ خوانی کی۔ اسی سیمینار میں پروفیسر
ڈاکٹر سعید احسن قادری سے ملاقات ہوئی۔ جو زیڈ۔وی۔ ایم۔یونانی میڈیکل
کالج(اعظم کیمپس) پونہ میں شعبۂ علم الصیدلہ کے استاذ ہیں۔ علم دوست ہیں۔
موصوف نے طبی اصطلاحات میں اعلیٰ حضرت کی مہارت و دسترس پر مقالہ پیش کیا۔
یوں ان سے راہ و رسم اور تعلق کا سلسلہ آگے بڑھا۔
*علمی سیمینار*
ایک شب وہ ایک تعلیمی سفر پر مالیگاؤں آئے۔ فون کیا۔ ملاقات ہوئی۔ کہا کہ
میری خواہش ہے کہ پونہ میں ’’اعلیٰ حضرت کی دینی و علمی خدمات‘‘ کے ضمن میں
ایک سیمینار کروں۔ فکر اچھی تھی۔ راقم نے فوراً تائید کی۔بساط بھر تعاون کا
یقین دلایا۔ پھر گاہے بہ گاہے اس سمت تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ آخر ۱۶؍ جون
۲۰۱۹ء کی تاریخ متعین ہوئی۔ ملک و بیرون ملک کے علما، ادبا، اسکالرز،
پروفیسرز، ڈاکٹرز سے رابطہ کیا۔ ڈاکٹر موصوف چوں کہ میڈیکل فیلڈ سے جُڑے
ہیں، اِس لیے بہ حیثیت ممتحن ملک کی یونی ورسٹیوں میں تشریف لے جاتے ہیں۔
جس کا فائدہ یہ ہوا کہ ملک بھر کے درجنوں محققین سے مقالہ نویسی و عنوانات
کے تعین کا مرحلہ طے ہوا۔
علمی گوشے:
ماہِ رمضان میں اطلاع ملی کہ درجنوں مقالات کی حصول یابی ہو چکی۔ اب انھیں
مرتب کرنا ہے۔ کڑیاں ملانا ہے۔ ابواب قائم کرنے ہیں۔ یوں علم کے موتی پروئے
گئے۔ بالآخر میگزین سائز کے ۳۰۶؍ صفحات ’’فکر رضا کے علمی گوشے‘‘ کے عنوان
سے تیار ہو گئے ۔ جن میں اعلیٰ حضرت کی خدمات پر نوع بہ نوع مضامین شامل
ہوئے۔ جن کی خوش بو سے مسلم قوم کو زبردست و حوصلہ افزا فائدہ پہنچ سکتا
ہے۔ ان میں سیاسی رہنمائی، سماجی فلاح، اصلاح معاشرہ، تفسیر و حدیث کی
کرنیں، نعت رسول صلی اللہعلیہ وسلم کی عطر بیزیاں، طب، سائنس،ریاضی، ہیئت و
علمِ ارضیات کے زاویے، معاشی خوش حالی کے اسلامی ضابطے، سیاسیات میں اسلامی
جہت سے رہبری، تفہیم و توضیح اشعارِ رضا، روشن تاریخ کے تاباں
نقوش،کنزالایمان کے خزینوں کی ترسیل بھی ہے۔علومِ جدیدہ و قدیمہ میں
موشگافی کا پیغام بھی ہے۔ عربی، فارسی، اردو، ہندی زبان و ادب کی طراوت
بھی۔ غرض ہم نے اپنے اثاثے کی اہمیت نہیں سمجھی۔ اسلاف نے علم و فن کے جوہر
عطا کیے۔ ہم نے علم سے منھ موڑ لیا۔ اس لیے ترقی کی منزل سے دور جا پڑے۔
آج بھی علم کے زیور سے آراستہ ہو لیں۔ ہر فن کی شاخ ہماری جدوجہد سے ثمر
بار ہوگی۔
مشعل راہ:
۱۶؍ جون کی صبح پونہ پہنچا۔ معین پٹھان رضوی نے میزبانی کی۔ صبح ۹؍ بجے
مینا انگلش میڈیم اسکول پہنچ گئے۔ جہاں سیمینار کی تیاریاں آخری پڑاؤ پر
تھیں۔ آفس میں ڈاکٹر سعید احسن، اسکالرز کے ہمراہ موجود تھے۔ مسلمانوں کی
تعلیمی تنزلی پر تبادلۂ خیال ہوا۔ اسکول کے بانی اقبال خان نے بھی بہت اہم
نکات بیان کیے۔ قومی ترقی کے لیے تعلیم کی افادیت اجاگر کی۔ کس طرح بچوں کو
عصری علوم کے ساتھ اخلاق، ہنر، فن، دین سے روشناس کرایا جائے؛ اس پر تجاویز
پیش ہوئیں۔ درس گاہی امور پر بھی گفتگو ہوئی۔ اور رفقا نے کئی پہلوؤں پر
کام کا عزم کیا۔یہاں ڈاکٹر محب الحق ابن شارح بخاری نے خواتین میں ہنر کی
افادیت بیان کی۔ بتایا کہ حضور محدث کبیر نے اپنے مدرسہ امجدیہ
للبنات(گھوسی) میں بچیوں میں ہنرمندی کے فروغ کے لیے کئی مفید کورسیس شروع
کر رکھے ہیں، سلائی، کڑھائی، بنائی، کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم و تربیت۔ یہ
مثالی کام دیگر مقامات کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
بچوں میں دینی فکر سازی کے لیے نصاب کیسا ہو اس پر بھی غور و فکر کیا گیا۔
پونہ چوں کہ تعلیمی سٹی ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد اسکولوں میں زیر تعلیم
ہے۔ اس لیے اسکولی ماحول میں ہی ان کی دینی و اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے،
بحمدہٖ تعالیٰ چیئرمین موصوف از خود اس فیلڈ میں سرگرم ہیں۔ قوم کے لیے بہت
کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
معاشرتی اصلاح:
معاشرتی اصلاح کا پہلو امام احمد رضا سیمینار میں حاوی رہا۔ چوں کہ نشست
میں پورے ملک سے دانش وروں کی شرکت تھی۔ اس طرح وہ ملک و قوم کے تقاضوں سے
بخوبی آگاہ تھے۔ غیر شرعی رسموں کے خلاف اعلیٰ حضرت کی اصلاحی کوششوں کا
بھرپور تذکرہ رہا۔ کئی مقالات میں معاشرتی اصلاح کے لیے تصانیف اعلیٰ حضرت
کی اِس زمانے میں اشاعت کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ اس ضمن میں بعض مذہبی
مقامات پر ہونے والی برائیوں کی اصلاح کا بھی پیغام دیا گیا۔ جن کا فائدہ
اغیار اٹھاتے ہیں اور فرقہ پرست عناصر اسی کی آڑ میں شرعی معاملات میں
مداخلت کرتے ہیں۔
فرقہ پرستانہ سوچ کی مذمت:
چوں کہ اس سیمینار میں الحاج محمد سعید نوری(سربراہ رضا اکیڈمی) بھی تشریف
لائے تھے۔ انھوں نے وقفہ میں ایک مختصر میٹنگ بھی طلب کی۔ جہاں اس بات پر
اظہار خیال کیا کہ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی تین طلاق کا عنوان اٹھایا
جانا سخت افسوس ناک ہے۔ طلاق ایک خالص اسلامی مسئلہ ہے۔ جس کا حل بھی شریعت
میں موجود ہے۔ تمام صورتیں اس کی فقہی قوانین میں موجود ہیں۔ پھر اس میں
حکومت کی مداخلت بد نیتی کا پتہ دیتی ہے۔ مسلمان احکامِ شریعت کے تابع ہے۔
اپنے شرعی و نجی مسائل میں وہ صرف اسلامی احکام کا پابند ہے۔ اور اسی کی
پابندی ہمیشہ کرے گا۔ اپنے مذہبی معاملات میں کسی کی مداخلت قبول کیے ہیں
نہ ہی مستقبل میں قبول کریں گے۔ اس لیے حکومت اپنی توجہ ملک کی تعمیر و
ترقی پر مرکوز کرے۔ اور ملکی استحکام کے لیے غور و فکر کرے۔ ہمارے مسائل
میں اسے دل چسپی لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
٭٭٭
|