بہت خوبصورت مضمون تھا۔ چھوٹا سا مضمون ۔ مضمون انگریزی
میں تھا،․" Death of direct instructions"۔ اردو ترجمے کے مطابق انتہائی
سادہ لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں۔’’ استاد کی ذاتی توجہ کا خاتمہ‘‘۔مضمون
چونکہ میرے ذاتی احساسات کی ترجمانی کر رہا تھا اس لئے مجھے بہت اچھا
لگا۔ایک استاد نے یونیورسٹیوں اور ہائر ایجوکیشن کے دوسرے اداروں کی زبوں
حالی اور ناکام تدریسی عمل کی بہت اچھے انداز میں عکاسی کی تھی۔ان کی باتوں
کا لب لباب کچھ یوں ہے ،کہتے ہیں، ’’ میں 2005 تک ایک طالب علم تھا۔دوران
طالب علمی مجھے جن استادوں سے واسطہ رہا، وہ سبھی طلبا پر ذاتی توجہ دیتے
اور ہر ہر لمحہ مشکل میں بچوں کے مدد گار ہوتے۔وہ کسی کلاس کی ابتدا کرتے
تو سب سے پہلے یہ جانتے کہ کلاس میں موجود بچوں کا لیول کیا ہے اور انہیں
کیا درکا رہے ۔ وہ کہاں سے ابتدا کریں کہ بچہ مضمون کو جاننے لگے۔کلاس میں
ایک ایک بچے پر ان کی پوری توجہ ہوتی۔استاد نوٹس دیتے، فقروں کی نوک پلک
درست کرتے ۔ نئی چیزیں اور ان کی افادیت سے آگاہ کرتے۔ بھر پور سوال جواب
کرتے ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جو بچہ سال کرنا نہیں جانتا اور جو استاد
سوال کا جواب دینا نہیں اسے اچھی زندگی جینا نہیں آتا۔جب بچہ اس قابل ہو
جاتا کہ اب وہ اپنے مضمون کو خود سمجھ سکے تو استاد دوسرا انداز اختیار
کرتے ، انکوائری کا طریقہ کار۔ اب بچہ خود پڑھتا، خود سوچتا اور ضرورت کے
مطابق استاد سے سوال جواب کرتا۔ ایک وقت آتا کہ بچہ اس قابل ہو جا تا کہ
مختلف کتابوں سے پڑھ کر خود چیزوں کو سمجھ لیتا۔ یہ تحقیق کا درجہ ہوتا۔مگر
استاد اب بھی اس کے ساتھ ساتھ ہوتا اور اس کے کام پر پوری نظر رکھتا۔ایسے
استادوں کا ہمیشہ احترام رہا، شاگردوں کی آنکھوں میں ان کے لئے حیا رہی اور
وہ ان اساتذہ کو تاحیات اچھے لفظوں میں یاد کرتے رہے اور کرتے رہیں گے۔آج
استاد پہلے دن ہی سمجھ لیتا ہے کہ وہ افلاطون ہے اور سارے شاگرد ارسطو۔
سوال پوچھا جائے تو حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، تھقیر کی جاتی ہے۔ دوبارہ استاد
سے رجوع کرنے کی بجائے گوگل کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے اور طلبا سے
جان چھڑانے کی سعی کی جاتی ہے۔یہ اس جدید دور کا المیہ ہے ۔
پھر کہتے ہیں کہ سال 2005 سے میں نے بحیثیت استاد ا پنی سروس کی ابتدا کی
تو میں نے انہی اصولوں کو اپنایا ، جو میرے استادوں نے مجھے سکھایا اور
انہی خطوط پر اپنے طلبا کی تربیت کی جن پر ہماری اپنی ہوئی تھی۔طلبا آتے ،
پوچھتے، بڑے سکون اور تحمل سے ان کی بات سنی جاتی اور جس قدر ممکن ہوتا اس
کا مسئلہ حل کرتے۔ ہمیں جو سکھایا گیا اور جس پر ہم عمل کرتے رہے، ا س میں
اولیں استاد کا مثبت رویہ تھا۔ جس کا تاثر طلبا بہت محسوس کرتے ہیں۔ شاید
کوئی مضمون مشکل یا برا نہیں ہوتا۔ یہ استاد کا غیر پیشہ ور اور برا رویہ
ہوتا ہے جو بچے کو کسی مضمون کے بارے منفی تاثر دیتا ہے۔ اس لئے ہمارے
استاد اور بعد میں ہم نئے استاد طلبا کے ساتھ اپنے رویے کے بارے بہت محتاط
ہوتے۔ طلبا کے لئے استاد رول ماڈل ہوتا ہے اور طالب علم اس کے رویے کو تا
حیات محسوس کرتا ہے۔ استاد کے لئے اس کا زندگی بھر کا احترام اسی رویے سے
منسلک ہوتا ہے۔ مگر پچھلے چند سالوں میں عجیب تبدیلی آئی ہے۔ آج کااستاد
حقیقی معنوں میں استاد نہیں رہا۔وہ مثبت رویہ جو استاد کا چلن تھا اب مفقود
ہے۔ استاد سہل پسند اور گریڈ پسند ہو گئے ہیں۔اساتذہ کی خواہش ہے کہ وہ
استاد کم اور بیوروکریٹ زیادہ نظر آئیں ۔ کلاس میں بچوں کو سرسری گائیڈ
کرنے کے بعد سیدھا کمپیوٹر کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔گوگل یا کسی دوسرے سرچ
انجن پہ تلاش کرو اور کٹ پیسٹ زندہ باد۔ یہ وہ مرحلہ ہے جو بہت بعد آنا
چائیے مگر ہمارے استاد اپنی جان چھڑانے اور محنت سے بچنے کے لئے یہی بہتر
جانتے ہیں۔استاد کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ طلبا کا لیول کیا ہے ۔ انہیں
جو جی میں آتا ہے پڑھاتے ہیں ۔ باقی مقدر کی بات ہے کسی کو سمجھ آئے یا نہ
آئے۔
استاد محترم نے جو کچھ کہا یہ ہمارے دور کا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔میں خود
بھی روز اس طرح کی بہت سی چیزیں دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں مگر بے بس ہوں۔
کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ کیا کر رہے اور کیا کیا لطیفے جنم دے رہے ہیں، کیا
بتاؤں۔ کس کس استاد کا نام لوں ، کس کس کا ذکر کروں ، کوئی ایک ہو تو کہوں۔
نئی نسل زیادہ ترایسے ہی بگڑے ہوئے اساتذہ پر مشتمل ہے جن میں استاد جیسا
وقار ، تحمل اور برد باری مفقود ہے۔ میں چونکہ طلبا سے گھل مل کر رہنا پسند
کرتا ہوں اور ان کی بات پورے غور سے سنتا اور جہاں تک ممکن ہو ان کی
رہنمائی کی کوشش کرتا ہوں، اس لئے وہ میرے مضمون کے علاوہ بھی کویہ بات ہو
تو مجھ سے شئیر کر لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں کچھ طلبا میرے پاس آئے اور شکایت
کی کہ فلاں نئے استاد پتہ نہیں کیا پڑھا رہے ہیں۔ ابھی تک کچھ پلے نہیں
پڑا۔ میں نے مشورہ دیا کہ ایک تو ان سے کھل کر کہو کہ تمہیں جو مشکل ہے ،
مجھے امید ہے وہ اس کا ازالہ کریں گے۔دوسرا سلیبس جو وہ پڑھا رہے ہیں اس کی
کاپی لو۔ کیونکہ استاد نے جو پڑھاتا ہو، اس کا خاکہ تو اس نے بنایا ہوتا
ہے۔ بچے اگر کوئی چیز سمجھنے میں ناکام ہوں تو ریفرنس کی کتابوں میں وہ
موضوع ڈھونڈھ لیتے ہیں یا کسی دوسرے سے مدد حاصل کر لیتے ہیں۔ جواب ملا کہا
تھا مگر وہ کہتے ہیں جو پڑھا رہا ہوں وہی ٹھیک ہے، وہی سلیبس ہے ۔ تمہاری
سمجھ سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ بس اسی طرح پڑھو۔ تم نالائق ہو تو میں ذمہ
دار نہیں۔ ہاں آئندہ کسی نے اعتراض کیا تو اسے فیل کر دوں گا۔ کسی بچے کو
فیل کرنے کی دھمکی دینا استاد کے مرتبے سے بہت گری ہوئی بات ہے۔ مگر وہ
استاد ہیں۔ جدید دور کے جدید استاد۔ان کا پڑھنا اور پڑھانا بھی ایسا ہی
جدید ہے۔
میں نے پھرمشورہ دیاکہ ایسی صورت میں اپنے پروگرام انچارج سے ملو اور اسے
سب صورت حال بتاؤ۔ بچے ہنس کر کہنے لگے کہ ہمارے پروگرام انچارج صاحب ایسے
ہیں کہ انہیں اگر سو روپے کا سوال کیا جائے تو وہ پچاس ہزار کی بے عزتی آپ
کو تھما دیتے ہیں۔ میرے پاس اب کوئی مزید مشورہ نہیں تھا، چپ رہا، ایسی
صورت حال میں جب ہر شاخ پر کوئی نہ کوئی بیٹھا ہو، معاملہ اﷲپر ہی چھوڑا جا
سکتا ہے۔
پڑھانے اور ریسرچ میں بڑا واضع فرق ہوتا ہے۔جس مضمون سے بچہ واقف ہی نہیں
ہوتا۔ اسے پڑھاتے استاد چھلانگیں نہیں مارتے۔ بلکہ جس طرح انگلی پکڑ کر
چھوٹے بچے کو چلنا سکھایا جاتا ہے اسی طرح بہت اطمینان سے بچے کو مضمون سے
آگاہ کیا جاتا ہے۔ جب تک کوئی طالب علم اپنے مضمون میں رواں نہ ہو جائے ،
استاد لمحہ لمحہ اس کو گائڈ کرنے ، اس کے ہر سوال کا جواب دینے اس کے ساتھ
ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں بچہ خود کام کرتا اور استاد کو دکھا تا ہے کہ پتہ
چل جائے کہ وہ صحیح خطوط پر کام کر رہا ہے یا نہیں۔ ریسرچ بہت بعد کی بات
ہے۔ ریسرچ اس وقت کی جاتی ہے جب طالب علم مضمون کو پوری طرح جانتا ہو۔افسوس
، ہم نے یونیوسٹیوں میں استاد ختم کر دئیے ہیں اب زیادہ تر ریسرچر ہیں ۔ کٹ
پیسٹ کا فن سیکھو اورڈ گری لو۔ مارکیٹ میں کاغذ کا وہ پرزہ بکتا ہے ، علم
کی کوئی حیثیت نہیں۔لیکن یہ صورت حال ہمیشہ نہیں رہ سکتی، جلد ہی پالیسی
ساز کوئی ایسا شخص آئے گا جو تعلیم کی اس زبوں حالی کا ازالہ کرے گا۔
|