گزرے کچھ سالوں میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں دن بہ
دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس میں پنجاب 65% کیسز کے ساتھ پہلے اور سندھ 25%
کیسز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ارجمان ہے۔حالیہ کچھ دنوں کی ہی بات ہے جب ،سندھ
کے ایک شہر سجاول کی 12 سالہ لڑکی جمنا ،کو زبردستی شراب پلا کر اس کے ساتھ
زیادتی کی گئی اور اسے بہت بری طرح سے جانوروں کی طرح مارا گیا ۔ جمنا ایک
نجی اہسپتال میں زیر علاج ہے۔جمنا جیسی بہت سی معصوم بچیاں اجل کا شکار بن
چکی ہیں۔ صرف جنسی زیادت تشدد نہیں بلکہ ،چھوٹی عمر کی شادی،بچوں سے مزدوری
کروانا،یا کسی بھی قسم کا ٹارچر جس سے بچہ کوئی غلط قدم اٹھانے پر مجبور
ہوجائے،یا کسی بھی طرح سے ذہنی اور جسمانی تکلیف میں مبتلا ہوجائے، یہ سب
تشدد میں شامل ہیں۔ جس عمر میں بچے اونچائی کے خواب دیکھتے ہیں ،اس عمر میں
جانور انہیں حوس کا نشانہ بناتے ہوئے پہلے ہی قدم پر گرا دیتے ہیں۔
بچہ ہو یا بچی کوئی محفوظ نہیں ہے،۔ بچہ پندرھا سال کا ہو یا دن 1 کا
درندوں کی حوس انہیں جینے نہیں دیتی۔جن کی کھیلنے کی عمر ہوتی ہے ان سے
ایسے جانور کھیل جاتے ہیں۔
بچوں کے ساتھ زیادتی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست والدیں اور بچوں
میں کمیونیکیشن کی کمی ہے۔کچھ والدین اتنے سخت ہوتے ہیں کے بچے ان کو کچھ
بھی بتانے سے گریز کرتے ہیں،اور س کی وجہ سے وہ والدین سے زیادہ دوسرے
لوگوں کو اپنا سچا ساتھی سمجھتے ہیں۔والدین کو چاہیے کے وہ اپنے روے میں
اعتدال رکھیں، تاکہ کوئی بھی بات ہو بچے انہیں بتانے سے گھبرائیں نا۔ دوسری
وجوہات یہ ہیں ،جیسے دوستوں اوررشتیداروں پر اندھا اعتماد،ملازموں پر اندھا
اعتماد، ڈرائیور کے ساتھ اکیلے اسکول عا ٹیوشن چھوڑنا ،اساتذہ پر اندھا
اعتماد( بھلے وہ عورت ہو یا مرد)اور بھی کافی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
حکومت مکمل طور پر اس کا حل نکالنے میں ناکام رہی ہے،اگر حکومت کوئی اقدام
اٹھاتی بھی ہے تب تک بہت دیرہو چکی ہوتی ہے۔
ہمارے بچے ہماری ذمیداری ہیں دوسروں کی نہیں،جتنا تحفظ ہم انہیں دے سکتے
ہیں اتنا کوئی نہیں دے سکتا۔ والدیں اور اساتذہ کو چاہے کے وہ بچوں کو اس
بات سے آگاہ کریں اور انہیں اس سے بچنے کہ لے ٹپس دیں۔تاکہ آگے ہم کسی بھی
ناخوشگوار حادثے سے بچ سکیں۔
(شکریہ)
|