بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کوئی نیا جرم نہیں. نہایت
افسوس کے ساتھ آج یہ مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور
تشدد صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ اور بھی ایسے ممالک ہیں جہاں بچے اس
اذیت سے گزرتے ہوۓ دم توڑ جاتے ہیں اور کئ بچوں کو تو خود سے مار دیا جاتا
ہے تا کہ زیادتی دینے والے پکڑے نہ جائیں. ان سب معملات کے پیچھے مرد کی
حوس ہوتی ہے جس کا شکار ان ننھے بچوں اور بچیوں کو بنا دیا جاتا ہے. ان میں
ایسے مرد بھی ہیں جن کی عمر کافی زیادہ ہوجاتی ہے اور شادی نہیں ہو پاتی تو
پھر وہ اپنی حوس پوری کرنے کے لیے ان معصوم پھولوں کو نشانہ بناتے ہیں. کچھ
ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی صحبت اس قدر بری ہوتی ہے اور وہ پھر اپنی حوس پوری
کرنے کے لیے ان بچوں کو شکار بنا دیتے ہیں. ویسے تو آجکل سوشل میڈیا پہ
فحاشی پہ مبنی بے شمار ویبسائٹس بھی ایسے کیسز کی وجوہات بن رہی ہیں. صرف
ایک اپنی حوس کی خاطر اس قدر ظلم؟ وہ بھی ان معصوم اور بھولے بچوں اور
نوجوانوں کے ساتھ؟ جنہوں نے اپنی زندگی کے ناجانے کتنے رنگ ابھی دیکھنے
ہوتے ہیں اور ان کو ان سب سے محروم کر دیا جاتا ہے.. ناجانے کتنی سسکیاں
لیتے ہوۓ کئ بچے اور نوجوان یوں اذیت کے بعد موت کی نیند سلا دئیے جاتے ہیں.
ایک تحقیق کے مطابق ہمیں یہ بھی پتا چلا ہے کہ زیادتی کرنے والےکوئ باہر کے
نہیں بلکہ اپنے ہی جاننے والے ہوتے ہیں. اور ایک سروے کی رپورٹ سے یہ بھی
معلوم ہوا ہے کہ بچیوں میں 0-5 سال کی عمر میں اور 18-16 سال کی عمر میں،
اور بچوں کے ساتھ 8-6 سال اور 15-11 سال کی عمر میں جنسی زیادتی کے زیادہ
تر واقعات پیش آتے ہیں. میں آپ کو یہ واضح طور پہ بتاتی چلوں کہ پاکستان کے
علاوہ بھی کئ ممالک میں ایسے حادثات پیش آرہے ہیں.
ان میں بھارت کے شہر دہلی میں، خواتین نے ریپ کیسزز کے بڑھنے پر احتجاج کیا
ہے. ایسے ممالک جہاں ریپ کی شرح بہت کثیر تعداد میں پائ گئ ہے ان میں، پہلے
نمبر پر ہے امریکہ،جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ملک مانا جاتا ہے
لیکن یہاں بھی جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی عورتوں اور بچوں کی تعداد بہت
زیادہ ہے. %91 عورتیں اور ٪9 بچے یہاں جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں.
دوسرے نمبر پر ہے بھارت، بھارت میں باہر سے آنے والی عورتیں ڈرتی ہیں کہ
کہیں ان کے ساتھ ایسی کوئ حرکت نہ ہو جاۓ. ایک سروے کے مطابق بھارت میں ہر
22 منٹ کے بعد کسی نہ کسی کا ریپ ہوتا ہے.
تیسرے نمبر پر ہے افریکہ، اس ملک کو ریپ کا کیپیٹل بھی کہا جاتا ہے. 2012
میں یہاں 65 ہزار کیس درج کئے گئے تھے. یہاں کم عمر لڑکیوں کے ساتھ ریپ سب
سے زیادہ کیا جاتا ہے. اگر مجرم پر ریپ کا کیس ثابت ہو بھی جاتا ہے تو صرف
دو سال کی سزا سنائ جاتی ہے.
چوتھے نمبر پر ہے برطانیہ، جہاں لڑکیاں پوری آزادی سے رہتی ہیں. لیکن وہاں
بھی لڑکیوں کے ساتھ ایک سال میں 85 ہزار ریپ کی تعداد ریکارڈ کی جاتی ہے.
پانچویں نمبر پر ہے سوڈان، وہاں بھی لڑکیوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے.
چھٹے نمبر پر ہے جرمنی، یہاں بھی ہر سال بد قسمتی سے 2 لاکھ چالیس ہزار
عورتیں اس لیے مر جاتی ہیں کیونکہ ان کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کی جاتی ہے.
بعض اوقات تعداد بہت بڑھ جاتی ہے.
ساتویں نمبر پر ہے فرانس، 1980 تک یہاں ریپ کو قانونی جرم نہیں مانا جاتا
تھا. اس کے بعد ریپ کو جرم قرار دے دیا گیا. یہاں ہر سال 75 ہزار ریپ ہوتے
ہیں جن میں سے ٪10 عورتیں کیس درج کرواتی ہیں.
آٹھویں نمبر پر ہے کینیڈا، یہاں ہر سال بڑی تعداد میں ریپ ہوتے ہیں لیکن ٪6
عورتیں اس معاملے کو پولیس تک لے جاتی ہیں.
نویں نمبر پر ہے آسٹریلیا، جہاں دوسرے ممالک سے لوگ آتے ہیں لیکن وہاں پر
رہنے والی عورتوں کی حفاظت نہیں ہوتی. وہاں بھی کثیر تعداد میں ریپ ہوتے
ہیں.
پاکستان ایک اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے ٹاپ 10 میں نہیں لیکن یہ بھی نہیں
کہا جاسکتا کہ یہاں لوگ جنسی زیادتی کا شکار نہیں ہوتے.
ایک سروے کے مطابق پاکستان کو دنیا میں 48 نمبر پہ رکھا گیا ہے.
2018 میں پنجاب کے شہر قصور میں کم سن بچی زینب کو ریپ کرنے کے بعد قتل کیا
گیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں بے تحاشا احتجاج کیا گیا تھا اور کئ دن تک
جاری رہا تھا. اس کے بعد پھر مجرم کو بالآخر پھانسی دے دی گئ تھی. سب سے
زیادہ احتجاج زینب قتل کیس میں ہوا تھا اور سب سے زیادہ ریپ کیسز بھی پچھلے
سال قصور میں ہوۓ تھے.جرائم کے زیادہ تر واقعات دیہی اور پسماندہ علاقوں
میں ہوۓ جبکہ ٪26 واقعات شہری علاقوں میں پیش آۓ. ایک سروے کے مطابق یہ بھی
معلوم ہوا ہے کہ مختلف نوعیت کے استحصال کا شکار ہونے والے بچوں میں سے چھ
سے دس سال کی عمر کے بچے زیادہ تر ہوتے ہیں. اس کے ساتھ ساتھ مردان میں بھی
ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس کا مجرم تاحال قانون کی گرفت میں نہ آسکا.
اس کے علاوہ راولپنڈی میں اغوا ہونے والے بچے کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر
قتل کر ڈالا. ابھی اس اذیت بھری کیفیت سے عوام نکلی ہی نہیں تھی کہ مردان
میں ایک اور بچی زیادتی کا نشانہ بن گئ. کوئٹہ میں بھی ایک یتیم بچی زیادتی
کے بعد قتل کی گئ.
دوسری طرف ہری پور سے ریپ کیس کا اسکینڈل سامنے آیا. ٪97 مسلمان آبادی والے
ملک میں بچے بچیاں جنسی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں. اس سب صورتحال میں میڈیا
کُل ریٹینگ کے چکر میں الجھا پڑا ہے.
2017 کے مقابلے میں ایک رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئ تعداد میں اغلام کے کیسز
٪61 اور ریپ کے ٪15 کیسز سامنے آۓ ہیں. جس میں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ
زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں پیش آۓ ہیں. 2017 کے معلوم اعدادوشمار کے
مطابق 1441 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا. ایک اور رپورٹ کے مطابق
یہ بھی پتا چلا ہے کہ 2017 کے مقابلے میں 2018 میں جنسی زیادتی کے کیسز ٪11
سے زائد پاۓ گۓ ہیں.
گزشتہ ایک رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 2018 میں، پنجاب میں اسلام آباد
اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں میں جنسی زیادتی کیسز کی کل ملا کر
3،832 رپورٹس درج کی گئیں. جس میں 923 رپورٹس اغوا کے کیسز میں ، 589
رپورٹس اغلام کے، 537 ریپ کے، 452 بچوں کی گمشدگی کے، 345 ریپ کرنے کی کوشش
کے، 156 گینگ ریپ کے، اور 99 کیسز بچوں کے ساتھ زبردستی شادی کے درج کۓ گۓ.
اس کے مقابلے میں 2017 میں 3،445 رپورٹس اس کیس میں درج کی گئیں.
ایک تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ زیادہ تر واقعات پنجاب، سندھ اور کے پی کے
میں ہوۓ ہیں.
2018 میں زیادہ تر جنسی زیادتی کے کیسز ٪72 دیہی علاقوں میں اور ٪28 شہری
علاقوں میں پاۓ گۓ.
یہ بات بجا ہے کہ ہمارے ملک میں سزا دینے سے حکمران خوف کرتے ہیں. لیکن جو
قانون سعودی عرب میں ہے جس میں چوری کرنے پر بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے تو
پھر تو پھانسی دینا ان کے لیے کوئ بڑی بات نہیں. وہاں سب قانون پہ عمل کرتے
ہیں اور یہاں تو قانون بھی صحیح سے قائم نہیں رہتے. کئ مجرم پکڑنے سے رہ
جاتے ہیں یہ لوگ. اور جو مل جاۓ، اسے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ سزائے موت
دیتے ہیں. صرف ایک زینب قتل کیس میں پھانسی دی ہے وہ بھی چند مخصوص لوگوں
کے سامنے. سب کے سامنے دی جاۓ تو سب کے کلیجے ویسے ہی دیکھ کر پھٹ جائیں
اور کوئ دوبارہ ہمت نہ کرے ایسی زیادتی کرنے کی. ناجانے ان درندوں کو خوف
کیوں نہیں آتا. میرے رب کی پکڑ بہت بری ہے. ناجانے کتنے ماں باپ کی زندگیاں
اولاد کے لیے اجڑ گئیں. کتنی ماؤں کے صبر ٹوٹے. ان جانوروں کو کیا پرواہ؟
بہتر حل ایک یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کی بخوبی حفاظت کی جاۓ. بچوں کو چھوٹے
ہوتے سے ہی ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا جاۓ کیوں کہ زیادتی کرنے والے غیر کم
اور اپنے زیادہ ہو سکتے ہیں.
|