کلارک امریکہ کے شہر نیو جرسی کا رہائشی تھا وہ پیشے کے
لحاظ سے پولیس والاتھا ایک رات ایسا ہوا کہ اس کے گھر میں چور داخل ہوگیا
چور اپنا کام کرکے جاہی رہا تھا کہ کلارک کی آنکھ کھل گئی اس نے اپنی بندوق
لی اور چور کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگا دی مگر چور اس کے ہاتھ نہ آیا جس پر
کلارک نے بندوق سے گولی چلادی،گولی چور کی ٹانگ پر لگی جس سے وہ شدید زخمی
ہوگیا قانون کے مطابق اگر اس کے گھر چوری ہوئی تھی تو پولیس کو اطلاع کرنی
چاہئے تھی باقی کا م پو لیس کا تھا کہ وہ چور کو گرفتار کرے سارے مال کو
برآمد کروا کر مالک کے سپرد کرے اور چور کو سزا دے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
موقع وار دات پر پولیس آئی ساری صورت حال کا جائزہ لیا اور اس کے بعد کلارک
اور چور کے بیانات لیے مقدمہ چلا اور فیصلہ یہ ہوا کہ کلارک کو چھ ماہ کے
لیے جیل میں قید کیا جائے چور کوگولی ما ر نے ا ورقانون کو اپنے ہاتھ میں
لینے کے جرم میں اس کے ساتھ ساتھ چور کے علاج کے سارے اخراجات بھی کلارک کو
دینے ہونگے اور جب تک چور مکمل طورپر صحت یاب نہیں ہو جاتا کلارک چور کی
فیملی کو ماہانہ دو ہزار ڈالر ادا کرنے کا پابند ہو گاجیسے ہی چور صحت مند
ہوگا اس کودوسال کی قید کاٹنا ہوگی۔
پاکستان میں ایک تو ماشااللہ ہماری پولیس کے نشانے پکے نہیں ہیں اوپر سے
گولی چلانے کے لیے کسی اعلیٰ افسر کی اجازت لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں
ہوتی ہونا تو یہ چاہئے کہ بہت ہی ضروری ہے گولی چلانا تو اعلیٰ افسران کی
اجازت اور واضح آرڈرہو۔ لاہو ر شہر کی مشہور شارع فیروزپور روڑپر دن دیہاڑے
ڈولفن پولیس نے نہتی خاتون کو سرعام گولی مار د ی ہوا کچھ اس طرح سے تھا کہ
نسرین بی بی اپنے شوہر وارث مسیح کے ہمراہ ایک عزیز کی عیادت کر کے گھر
واپس آرہی تھے کہ ڈولفن فورس کے اہلکار ایک نشئی کو پکڑنے کے لیے دوڑ رہا
تھے مگر نشئی ان کے ہاتھ نہ آیا جس پر ڈولفن فورس کے اہلکار نے فائرنگ کردی
اور بدقسمتی سے گولی نسرین بی بی کو جا لگی ڈولفن اہلکار کی لاپرواہی کی
وجہ سے ایک ہنستا بستا ہو ا گھر اجڑ گیا ایک پل میں سب کچھ بدل گیا شوہر جو
اپنی بیوی کے ہمراہ تھا یقین کرنے سے قاصر تھاکہ اسکی بیوی اک گھڑی میں اس
سے کوسوں دور چلی گئی ہے بچوں اور باقی خاندان کے لیے تو قیامت کا سماء تھا
کوئی بھی اس انہونی کو ماننے کے لیے تیار نہ تھااوریہ کوئی پہلا واقع نہیں
ہے اس سے پہلے بھی سمن آبادمیں ایک نوجوان کو ڈولفن فورس نے بیچ چوراہے میں
گولی مار دی جبکہ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنی بہن کو اکیڈمی چھوڑکر
گھر آرہاتھا دکھ کی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا چشم و چراغ
تھا اور گزشتہ ہفتے تو ڈولفن فورس نے انتہاکر دی لاہور کے علاقہ گلبرگ میں
ایک نوجون اپنی والدہ کی دوائی لینے کے لیے گھر سے نکلا تو ڈولفن فورس کے
اہلکار نے گولی چلادی جس سے نوجوان کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا
گیاجہاں پر اس کا علاج جاری ہے۔ابھی تو پاکستانی قوم سانحہ ساہیوال اور
ماڈل ٹاؤن نہیں بھولی ہے اور اوپر سے آئے روزپولیس کی طرف سے نہتے شہریوں
پر ظلم بڑھتے جارہے ہیں میری پولیس کے اعلیٰ افسران سے التماس ہے کہ وہ
ایسے واقعات کا سختی سے نوٹس لیں اہلکاروں کو معطل کرنے سے بات نہیں بنے گی
ان کو نوکری سے فارغ کرکے مقدمہ چلایا جائے اسی طر ح انسانی حقوق کی وفاقی
وزیر شیریں مزاری اورصوبائی وزیر اعجاز عالم ایسے واقعات پر ان ایکشن ہوں
کہ کیوں نہتے شہریوں پر پولیس کے تشدد اور جان سے مارنے کے واقعات بڑھ رہے
ہیں اور مارنے والوں کے لواحقین کو انصاف دلایا جائے میں جب بھی کبھی ترقی
یافتہ ممالک کی پولیس کو دیکھتا ہو ں تو ان پر رشک کرتاہوں کہ شہریوں کے
جان ومال کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی پراوہ نہیں کرتے اور لوگ پولیس کی دل
سے عزت کرتے ہیں اور ان کو ریاست کے اہم سپوت مانتے ہیں ریاست کو پولیس کی
تربیت میں کسی قسم کی کمی ناقابل برداشت ہے یہی وجہ کہ ان ممالک کے شہری
پولیس کو دیکھ کر تحفظ محسوس کرتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں بالکل اس کے
برعکس ہے ڈولفن فورس کا تصور ترکی سے آیا سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے لاہور
شہر میں سڑیٹ کرائم کی روک تھام اور کوئیک رسپانس کے لیے ڈولفن فورس بنانے
کا فیصلہ کیااس فورس کے لیے پڑھے لکھے امیدواروں کا انتخاب کیا گیا ویسے تو
یہ بہت اچھا تصور تھا کہ ایسی فورس کا وجود ہوجو عام آدمی کے ساتھ دوستانہ
اور مثبت رویہ رکھے لیکن ڈولفن فورس کا تجربہ لاہور شہر میں بُری طرح ناکام
ہو رہا ہے ویسے تو پورے ملک کی پولیس کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں
رشوت خوری،بدمعاشی، نشے کے عادی اور اختیارات کا ناجائز استعمال یہاں تک کہ
بڑی تعداد میں جرائم پیشہ افراد کی محکمہ پولیس میں بھرتی ہو چکی ہے جوکہ
لمحہ فکریہ ہے یقین جانیے بہت افسوس ہوتا ہے جب میڈیا اور سوشل میڈیا پر
ملک کی پولیس کے حالات دیکھتے ہیں کراچی لاہو،کوئٹہ اور دیگر شہروں کی
سٹرکوں پر سرعام فائرنگ کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں ایسے ماحول میں
اگر ڈولفن فورس کی بجائے جو مرضی فورس بنا دیں جرائم میں اضافہ ہوگا کیونکہ
جب تک ابتدائی نظام درست نہیں ہو گا تب تک کچھ نہیں ہوسکتا پولیس کے تمام
اہلکار وں اور نئے بھرتی ہونے والے اہلکاروں کی ٹریننگ کو اس انداز میں
کروایا جائے کہ وہ مثبت رویے کی متحمل ہو جائے ورنہ وردی کا رنگ تبدیل ہونے
سے کچھ نہیں ہوگا پولیس کے اعلیٰ افسران کو اہم فیصلے کرنے ہونگے تاکہ
محکمے کی بہتری ہو کلارک کی طرح کوئی رعایت نہ برتی جائے تاکہ کڑی سزا کا
نظام قائم ہو سکے اس مقصد کے لیے پاک آرمی کے اشتراک سے ایک ایسی کمیٹی
تشکیل دی جا ئے جو تما م اہلکاروں کی پروفائلز اور کام کو کرنے کے طریقے کا
بغور جائزہ لے اور جس اہلکار پر بھی شک گزرے اس کی انکوائری کرے اگر تو و ہ
کریمنل یا نفیساتی ہے تو اس کو فوراََ برطرف کردیا جائے اس کے ساتھ ساتھ جس
کسی اہلکار کے خلاف کو ئی شکایت موصول ہو تو اس کی فوری انکوائری کر کے
فارغ کردی جائے معطلی کا سلسلہ ختم کردیا جائے محکمے کے اندار ایک خفیہ ٹیم
بنائی جائے جو کہ بھیس بدل کر اہلکاروں کو چیک کرتی رہے جیسے کہ دوبئی اور
دیگرممالک میں "policing with out police"کا نظام متعارف ہوچکا ہے اسی طرح
پاکستا ن میں نظام لے کر آئیں سابقہ چیف جسٹس کے بیان کے مطابق پولیس کے
محکمے کو بند کردینا چاہے کیونکہ یہ قومی خزانے پر بوجھ ہے اور آؤٹ پٹ صفر
ہے کیونکہ 71سال پہلے جیسا پولیس کا نظام تھاآج بھی ویسے ہی ہے پی ٹی آئی
کی حکومت پولیس اصلاحات پر بہت زور دیتی رہی لیکن ایک سال ہونے کو ہے پولیس
کے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی البتہ آئی جی پنجاب دو تین تبدیل ہو چکے
ہیں لہذٰا میری حکومت سے التماس ہے کہ پولیس کے محکمے میں جو بھی اصلاحات
کرنی ہیں جلد کریں اس کے ساتھ پولیس کو مثبت،خوش خلقی،محبت،نرم مزاجی اور
دوستانہ رویے کی خصوصی تربیت دی جائے اور پو لیس کے ذہن میں اس بات کو ڈالا
جائے کہ وہ اپنے شہریوں پر گولیاں چلانے کی بجائے ان کی محافظ بنے بصورت
دیگر یہ نہ ہو کہ پولیس کے منفی رویوں سے ستائے شہریوں کے صبر کا پیمانہ
لبریز ہو جائے اور نقصان ہما را اور ملک کا ہو۔
|