اُبُراکو

ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں، انہوں نے تعلیم روس اور فلپائن میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایلائیٹ لزبن ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔

ڈاکٹر شاکرہ نندنی، پرتگال

اُبُراکو پُرتگالی زبان میں سانپ کے بل نما اُس سوراخ کو کہتے ہیں جس میں سے کھیتی کا پانی رِس کر ضائع ہو جاتا ہے۔ آج اس لفظ کو میں نے اپنا موضوعِ سخن بنایا ہے۔ کہانی اچھی لگے تو کمنٹ ضرور کیجئیے گا۔

جب میں چھوٹی سی تھی تب میں اپنے آبائی گاؤں میں رہتی تھی ۔ یہاں کاشت کاری کا سب سے بڑا ذریعہ بارش کے پانی پر تھا۔ لوگ مہینوں حتٰی کہ سالوں انتظار کرتے کہ کب بارش ہو گی اُن کی زمینیں سیراب ہو جائیں گی اور وہ اپنے گذربسر کے لیئے کاشت کاری کر سکیں گے۔ اگر کچھ سالوں تک بارش نہیں ہوتی تو لوگ پیسے اکٹھے کرکے کوئی گائے وغیرہ خرید کر ذبح کر کے خیرات کرتے اور بارش کے لیئے دُعا کرتے۔

جب بھی بارش ہوتی یہاں سیلاب آنے کا امکا ن ہوتا تو لوگ اپنا اپنا بیلچہ اُٹھا کر کھیتوں کی طرف نکل جاتے۔ سب سے پہلے کھیتوں کی طرف آنے والے پانی کا راستہ صاف کرتے تا کہ پانی آسانی کے ساتھ کھیتوں کی طرف آنکلے۔ پانی کا راستہ ایک یا دو کلومیٹر یا اُس سے زیادہ بھی ہوتا تھا۔

اصول تو ہر جگہ یہی ہوتا ہے جس کا کھیت پہلے آتا پانی بھی سب سے پہلے اُسے حاصل ہوتا۔ سیلاب کے پانی پر تو بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دن یا رات کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ چونکہ لوگوں کی زندگی کا دارومدار سیلاب کے پانی پر تھا اس لیئے وہ ہر مشکل گھڑی کے لیئے تیار رہتے۔

جب بھی کوئی زمین دار کھیت پر پانی باندھتا تو وہ سارا دن یا ساری رات پانی کا خیال رکھتا کہ کہیں کسی جگہ سے پانی نہ نکل جائے ۔ سب سے زیادہ خطرہ اُبُراکو یعنی چھوٹے سوراخوں کا ہوتا۔ زیادہ تر پانی ان سوراخوں کی وجہ سے ضائع ہو جاتا۔ اس لیئے زمین دار کو دن یا رات پانی پر پہرا دینا پڑتا۔ کہ کہیں پانی اُبُراکو سے اپنا راستہ نہ بنا لے۔ جس کی وجہ سے وہ کھیت کے ہر طرف چکر لگاتا تاکہ پانی کو محفوظ بنا سکے۔

بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ لوگ کھیتوں پر پانی باندھنے کے بعد اپنے گھروں کو چلے جاتے اور بدقسمتی سے پانی ایسے اُبُراکو سے اپنا راستہ بنا لیتا تو کھیت کا سارا پانی نکل جاتا جس کی وجہ سے زمین دار کی ساری محنت ضائع ہوجاتی اور اس کا کھیت پانی کے ہوتے ہوئے بھی خشک یعنی بنجر رہ جاتا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے دن رات محنت کرتے ہیں اور جب اس مقصد کے قریب پہنچتے ہیں تب ہم لاپرواہی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ہم نے مقصد حاصل کر لیا مگر ہم ان اُبُراکو کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے کہ جن کی وجہ سے مقصد کے قریب ہوتے ہوئے بھی اسے گنوا سکتے ہیں اور کئی سالوں کا مقصد ضائع ہو جاتا ہے۔

کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی ایک مقصد کے پیچھے پڑتے ہیں اور سار ا وقت اسی پر لگا لیتے ہیں اور ہما ری توجہ ہمارے ارد گرد کی چیزوں یا رشتوں سے ہٹ جاتا ہے جن کو سنوارنے کے لیئے کئی سال بیت چکے ہوتے ہیں۔

ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اس کھیت کی طرح جس کے مالک نے اسے اہم موقع پر چھوڑ کر چلا گیا تھا اور اس کا سارا پانی اُبُراکو کی وجہ سے نکل کر کھیت کو ویران کر گیا تھا۔ ہر سہولت کے ہوتے ہوئے بھی ہماری زندگی ویران ہو سکتی ہے۔

ہماری زندگی میں ایسے اُبُراکو بہت زیادہ ہوتے ہیں جن پر توجہ نہ دینے سے ہمیں بہت سے مسائلوں کا سامنا کر نا پڑسکتا ہے۔ ہم لوگ نئی چیزوں کو پانے کی چکر میں اپنے پاس موجود چیزوں کی اہمیت گنوا بیٹھتے ہیں ۔
زیادہ کمانے کے چکر میں اپنے پاس پہلے سے موجود رقم بھی کھو سکتے ہیں ۔ ذاتی مفاد کے چکر میں اپنی دوستی اور رشتہ داری بھی کھو دیتے ہیں۔

دُعا ہے کہ ہر انسان اس اُبُراکو سے محفوظ رہے۔
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 203 Articles with 212041 views I am settled in Portugal. My father was belong to Lahore, He was Migrated Muslim, formerly from Bangalore, India and my beloved (late) mother was con.. View More