"حِلم" اﷲ تبارک وتعالیٰ کی ان گنت صفات میں سے ایک صفت
ہے۔ اﷲ رب العزت اپنے بندوں پر بہت مہربان اور حلیم ہے۔ اﷲ تعالیٰ جزا وسزا
پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔ لیکن اپنی شان ِ حلم کی وجہ سے اپنی مخلوق پر اتنا
رحیم اور شفیق کہ غلطیوں ، گناہوں پر گرفت کی بجائے گناہوں سے باز آنے،
اطاعت اور فرمانبرداری کی طرف پلٹ آنے کی مہلت عطا فرماتا ہے۔
تاریخ ِ انسانیت میں انسانیت کی فلاح اور انسانی معاشرہ کی اصلاح میں سب سے
اہم اور بڑی مثال ہمارے پیارے نبی آخرالزمان حضرت محمدمصطفے ٰ ﷺ کی مثال
ہے۔خطہء عرب مختلف گروہوں میں منقسم تھا۔یہ لوگ جہالت اور سرکشی میں ایسے
غرق تھے کہ کوئی ان پر حکومت کرنے کو راضی نہ تھا۔ جو برائی میں جتنا بڑھ
کر ہوتا وہ معاشرے میں اُتنا ہی زیادہ بارعب اور با اثرسمجھاجاتا۔نسل در
نسل دشمنی اور انسانی قتل سے لے کر ہر برائی عام سی بات تھی۔ جب نبی اکرم ﷺ
نے اﷲ کے حکم سے دعوت حق اور اصلاح معاشرہ کا آغاز فرمایا تو آزمائشوں،
تکلیفوں اور مشکلات کے پہاڑکے مقابلے میں آپ ﷺ نے صبروتحمل ، استقامت
،عفودرگزر کا عظیم مظاہرہ فرمایااور کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام
نہیں لیا۔ یہاں تک کہ جب طویل مشکلات اور قربانیوں کے بعداﷲ پاک نے قریش
مکہ پر فتح عطا فرمائی اور قریشِ مکہ عاجز ومجبور ہوچکے تھے تو حضور ﷺ نے
شانِ حلم کا مظاہرہ فرماتے ہوئے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہ اجمعین پرظلم
وستم ڈھانے والوں، اپنے پیارے چچا حضرت امیرحمزہ ؓکے قاتل اور اپنے جانی
دشمنوں تک کو معاف فرما دیا۔
آپؐ نے کبھی ایسی بات نہیں کی جس پر پہلے خودعمل نہ فرماتے۔ جوفرماتے ہمیشہ
اس پر عمل کرتے۔ اصلاح معاشرہ کی کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب
تک اصلاح کرنے والا خود اس پر عمل نہ کرتا ہو۔آج ہمارے معاشرے کا کیا حال
ہے۔ ہم بول کچھ رہے، عمل کچھ کررہے ہیں ۔بیوقوفی اور حماقت کی انتہا تو
دیکھیں کہ اُمیدوتوقع کچھ اور ہی لگائے بیٹھے ہیں۔ مذہبی راہنما ، سیاسی
قائدین، مفکرین، کالم نگاریا ہمارے معاشرے کاعام شہری ہم سب جلسے ، جلوس،
مساجد،ٹی وی شوز، حتیٰ کہ اپنے گھروں اور نجی محفلوں میں نصیحت تو رحم اور
کرم کی کرتے ہیں لیکن خود کسی پر رحم نہیں کرتے۔آج ہم لوگ لامحدودخواہشات
کواپنے دامن میں سمیٹے نامعلوم منزل کی طرف سرپٹ دوڑ رہے ہیں اورہر سطح پر
نفرتیں پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ہم لوگ اخلاقی دیوالیہ پن کااس
قدرشکارہوچکے ہیں،کسی کی ذلت و رسوائی کے لئے ہم ہر حدسے گزرنے کے لئے
ہروقت تیار ہیں۔
سیاستدان ہیں تو وہ اپنا قد اونچا کرنے کے لئے دوسروں کی برائیاں گنوانے
اور الزمات لگانے میں مصروف ہیں ، مختلف مکتبہ فکرکے دینی راہنما صرف اپنے
اپنے فرقہ کی فکر میں ہیں۔آج پورے پاکستان میں انتشار اور بدامنی ہے۔ ہر
کوئی انتقامی کارروائی میں لگا ہوا ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول
ؐ نے ارشاد فرمایا-(جس کامفہوم یہ ہے) ـحضرت موسی علیہ السلام نے اﷲ تعالی
سے پوچھا:ـ"اے میرے رب آپ کے بندوں میں سے کون سب سے زیادہ پیارا ہے؟ اﷲ
تعالیٰ نے فرمایا"وہ بندہ جو انتقامی کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود
معاف کردے"(مشکوٰۃ المصابیح)۔
اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر قرآن پاک میں ہمیں حکم دیا ہے کہ اس کی رضا اور
خوشنودی صرف اور صرف نبی کریم ﷺکی اتباع اور پیروی سے حاصل ہو سکتی ہے۔
بلکہ یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر تم اﷲ کے رسول ؐکی پیروی کرو گے تو اﷲ
تم سے محبت کرے گا۔ اُسی خطہ کے لوگ جہاں کوئی حکومت کرنے یا جنہیں کوئی
اپنی رعایامیں شامل کرنے کو راضی نہ تھا۔ اﷲ کے پیارے رسول ﷺ کی تربیت،
صحابہ کرام ؓ کارسول ﷺ کی اتباع اور پیروی کا نتیجہ ہی تھاکہ اﷲ پاک نے
صحابہ کرام ؓ کا رعب ،دبدبہ پوری دُنیاپر پھیلا دیااور زمانہ گواہ ہے کہ
پیارے آقا علیہ صلوۃ والسلام کے تربیت یافتہ صحابہؓ جس سمت رخ کرتے بڑی بڑی
سپرپاؤرزڈھیر ہوجاتیں ہرجنگ اورہر میدان میں فتح و کامیابی صحابہ کرام
رضوان اﷲ علیہ اجمعین کے قدم چومتی ۔
آ ج ہر کوئی امن و خوشحالی کی بات کرتاہے اور ہم میں سے ہر کوئی اپنی
زندگیوں میں کامیابی ،سکون ، چین کا خواہش مند ہے۔ لیکن سب کچھ جانتے ہوئے
بھی ہم میں سے ہرکوئی لا حاصل منزل اور مشکل راستہ پرمحو ِ سفر ہے۔ جبکہ
امن ، سکون،راحت ، چین کے حصول کاسب سے آسان اور دنیاوآخرت میں کامیابی کا
ضامن ایک ہی راستہ ہے ! اور وہ ہے قرآن واتباع ِ سنت ِ رسول ﷺ۔اسوہ حسنہ سے
ہٹ کراپنے طریقہ سے امن و سکون ،کامیابی اور معاشرے میں سدھار کے لئے کی
گئی کوشش سے ناکامی، نفرت ،بدامنی ، انتشارتو پھیل سکتا ہے لیکن امن وسکون
اور کامیابی کبھی بھی نہیں مل سکتی۔"حلم" اﷲ تبارک وتعالیٰ کی ان گنت صفات
میں سے ایک صفت ہے اور آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر لمحہ "حلم اور محبت" ہے
۔ آپؐ کی اتباع سے ہی ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں سمیت پاکستان اور
پورے عالم میں امن سکون قائم ہوسکتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی آخر الزمان حضرت
محمد مصطفےٰ ﷺ کی اتباع اور محبت ہی فاتح عالم ہے۔
|