دنیا کا معرض وجود آنا، رب کائنات کا دنیا کو اس زمین پر
بسانا، انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجنا، انسانیت کی رہنمائی کے لیے
انبیاء کرام کا بھیجنا۔ صراط مستقیم کی رہنمائی کرنا، معاشرہ کا قائم کرنا،
انسانیت کی قدر و منزلت،۔حتیٰ کہ آخری نبی الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سرور کونین رحمتہ اللعالمین بنا کر ختم نبوت اور مکمل ضابطہ حیات
اسوۂ حسنہ کی صورت میں ملا۔
سائنس کا ترقی کرنا۔ انسان کا چاند پر جانے کا دعویٰ کرنا، زمین و آسمان کا
فاصلہ ناپنا، سورج کی روشنی کا زمین پر پہنچنے کا وقت اور سفر بتانا۔
سمندرپر اپنے بنائے ہوئے بھاری بھرکم بحری جہاز کا چلانا، زمین سے ہوا میں
جہاز کا اڑانا، آواز کی رفتار سے زیادہ رفتار والا جیٹ تیار کرنا وغیرہ
وغیرہ۔ سائنس کی ان گنت ایجادات نے انسان کو حیران کر کے رکھ دیا۔
سائنس نے ترقی کرنے کا سفر موخر نہیں کیا، انسان کی صحت و تندرستی کے لیے
لا تعداد فارمولے تیار کیئے۔ ہر پیدا ہونے والی بیماری کے علاج کے لیے ہر
ممکن بہتر سے بہتر میڈیسن /ویکسین تیار کرنے میں مصروف عمل، حتیٰ کہ آج
کینسر جیسی ملک بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج تک دسترس حاصل کر چکا ہے۔
لیکن اتنی ترقی کے باوجود انسان، انسان کی بھوک کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ اپنی
بھوک مٹانے کے لیے دو وقت کی روٹی کے چکر میں اپنی روٹی بھی چھوڑ بیٹھا،
لیکن باوجود اس کے اس خواہش کی تکمیل کے لیے نہ جانے کس حد تک گزر جاتا ہے
کہ دوسروں کی روزی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ اس کو اچھی طرح علم ہے
کہ جس دن ملک عدم سے سدھارنا ہے، اس دن میرا نام مٹ جائے گا، میری جائیداد
کسی اور کی ہو جائے گی۔ میرے بغیر نہ رہنے والے میرے دفنائے جانے کا وقت
پوچھیں گے، میری اولاد، میری بیوی جو میرے پل پل کی سانجھی ہے وہ بھی۔لیکن
یہ جاندار (انسان) پھر بھی اپنی عقل پر پردہ ڈالے ایک دوسرے کے نقصان کا ہی
سوچتا ہے اور دنیا کا سارا مال اپنے لیے جمع کرنے پر تلا ہوا ہے کیوں۔۔۔۔؟
اس تحریر کو لکھنے کی نوبت اس وقت آئی جب ایک مجبور و لاچار باپ انسانی
معاشرہ کے تھپیڑوں، مفلسی اور بھوک سے تنگ آکر ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ سارے
مریضو ں کے جانے کا انتظار کرتا ہے اور پھر اخیری وقت پر ڈاکٹر سے ملتا ہے،
ڈاکٹر اس سے ہم کلام ہوتا ہے، سوال پوچھے جاتے ہیں، اس کی غربت کا مذاق
اڑایا جاتا ہے،ڈاکٹر اس کی شکستہ حالت سے بیزار ہو کر غصے میں بولتا ہے،
بولو! میرے پاس کیا لینے آئے ہو؟؟وہ بے بس، بے کس، مجبور اور لاچار انسان
ہڈیوں کا ڈھانچہ کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب میں اور میری اولاد مزید اس بے حس
معاشرے میں زندہ نہیں رہ سکتے، میرے بچے روٹی کا سوال کرتے ہیں، میں ان کے
لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست نہیں کرسکتا، ڈاکٹر نے کہا پھر میں کیا
کروں؟؟ بے بس اور لاچار آدمی اپنی پوری طاقت، ہمت اور حوصلے کو یکجا کرکے
کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہمیں کوئی ایسی دوائی دے دیں جس سے کبھی بھوک نہ
لگے۔
میرے دوستو اور بھائیوں نہ جانے کتنے لوگ اس وقت ایسے فقرے اور الفاظ اپنے
منہ میں دبائے بیٹھے ہیں، اپنے ارد گرد اپنے حالات و وسائل کے مطابق نظر
رکھیں ایسا نہ ہواس کی موت کے ہم ذمہ دار ہوں اور روز محشر، یوم حساب پر
ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہو، اس کا ہاتھ ہو گا اور ہمارا گریبان۔ اللہ
کریم سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو ہدایت فرمائے اور اپنی حفظ و
امان میں رکھے آمین۔ ثم آمین
|