بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
آج کے گئے گزرے دو ر میں جبکہ نئے نئے فتنے ،مذہب،عقیدے سراٹھا رہے ہیں ۔کچھ
لوگ سیدھے سادھے لوگوں کو اپنی چرب زبانی کی وجہ سے گمراہ کرنے کی کوشش
کرتے ہیں اور ایصال ثواب کو تنقید کا شانہ بناتے ہیں۔قبل اس سے کہ میں قرآن
وحدیث کے حوالہ جات سے ایصال ثواب کا ثبوت عرض کروں ،ضروری ہے کہ عبادات کی
اقسام تحریر کرتا جاؤں۔
عبادات تین قسم کی ہوتی ہیں:
(1) بدنی عبادات: وہ تمام عبادات جو بدن سے تعلق رکھتی ہیں۔مثلاًتلاوت قرآن
،نماز ،روزہ ،تسبیح وتحلیل ،دعااستغفاروغیرہ یہ بدنی عبادات ہیں۔
(2) مالی عبادات: زکوۃ ،صدقات ،خیرات ،کسی بیمار کی مالی امداد کرنا وغیرہ
مالی عبادات ہیں۔
(3) مرکب عبادات: حج،عمرہ،یا ایسی تمام عبادات جن میں رقم اور جسم دونوں کا
تعلق ہو مرکب عبادات ہو ں گی۔
مسلمانوں کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ ان تمام عبادات کے صلہ میں خداوندقدوس
ثواب عطا فرماتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کرنے والا اپنا ثواب
کسی دوسرے شخص کو دے سکتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ رہا ہے کہ
کسی متوفی کو نہ ثواب پہنچتا ہے اور نہ مردوں کو ثواب کا کوئی فائدہ ہوتا
ہے۔آئیے! قرآن پاک اور حدیث رسول کریمﷺ سے اس کا جواب دیکھیں۔
ایصال ثواب اور قرآن: قرآن پاک کی سورۂ ابراہیم میں اﷲ تعالیٰ حضرت سیدنا
ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو نقل فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
’’رب اجعلنی مقیم الصلوٰۃ ومن ذریتی ربنا وتقبل دعا ربنا اغفرلی ولوالدی
وللمؤمنین یوم یقوم الحساب․‘‘
’’اے میرے رب مجھے نماز کا قائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو،اے
ہمارے رب ہماری دعا سن لے،اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور
سب مسلمانوں کوجس دن حساب قائم ہو گا۔‘‘
ان آیات کوپڑھنے سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا عقیدہ واضح ہو جاتا ہے کہ
آپ کا ایمان تھا کہ زندوں کی دعا سے ایمان والوں کو نفع ہوتا ہے ،وگرنہ وہ
کبھی اپنے ماں باپ اور مومنین کے لئے دُعا مغفرت نہ فرماتے۔بلکہ آپ نے تو
اپنی آنے والی نسل کے لئے بھی دعا کر دی ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ
سیدنا ابراہیم علیہ السلام انبیاء کرام کے باپ ہیں۔آ پ کی اولاد سے بہت
انبیاء کرام پیدا ہوئے۔
قرآن پاک سے حضرت نوح علیہ السلام کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیے ! سورہ نوح کی
آخری آیت مبارکہ ہے: ’’رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مؤمناً وللمؤمنین
والمؤمنات ولا تزد الظلمین الا تبارًا․‘‘
’’اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اسے جو ایمان کے ساتھ
میرے گھر میں ہے اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کو اور کافروں
کو نہ بڑھا مگر تباہی۔‘‘
سیدنا نوح علیہ السلام کا عقیدہ بھی آپ نے قرآن پاک سے ملاحظہ فرمایا کہ آپ
نے اپنے لئے،اپنے والدین کے لئے ،ان لوگوں کے لئے جو ان کے گھر میں حالت
ایمان کے ساتھ داخل ہوئے اور قیامت تک آنے والے تمام مومن مردوں اور مومن
عورتوں کی مغفرت کے لئے دعا فرمائی۔اگر آپ کا عقیدہ یہ ہوتا کہ زندہ کی
دُعاسے مرنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا توآپ ہرگز دعانہ فرماتے۔صاحب
تفسیر ابن کثیر آیت مذکور کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اس دعا میں زندہ اور
مردہ سب کو شامل کیا گیا ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل دیکھئے! اﷲ تعالیٰ خوداپنے بندوں کو دعا کرنے کا سلیقہ
بتا رہا ہے۔ارشاد ربانی ہے: ’’وقل رب ارحمھما کما ربینی صغیراً․‘‘’’اور عرض
کر واے میرے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے (پیار محبت
سے)مجھے پالا جب میں بچہ تھا۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کو کہہ رہا ہے کہ
اگر اپنے اعلیٰ وعظمت والا ہونے کا ثبوت دینا چاہتا ہے اور اپنے درجات کی
بلندی کا طلب گار ہے تو عجز وانکساری سے اپنے والدین کے لئے رحمت ومغفرت کی
دعا کیا کر! میں تیرے والدین پر رحم کروں گا اور تیری عظمت وتوقیر میں
اضافہ کروں گا۔
انسان تو درکنار مومنوں کے لئے فرشتے بھی دعا کرتے ہیں۔سورۃ الشوریٰ کی آیت
نمبر5دیکھئے: ’’والملائکۃ یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون لمن فی الارض الا ان
اللّٰہ ھوالغفورالرحیم․‘‘
’’اور فرشتے اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بولتے اور زمین والوں کے
لئے معافی مانگتے ہیں سن لو! بے شک اﷲ ہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
قارئین کرام! آپ نے دیکھا قرآن کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فرشتے بھی زمین
والوں کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔اگر دعائے مغفرت کا کوئی فائدہ نہ ہوتا
تو اﷲ تعالیٰ کے مقدس فرشتے ہرگز دعانہ کرتے۔کیونکہ فرشتوں کے لئے ارشاد
ربانی ہے: ’’ویفعلون ما یؤمرون․‘‘
’’یہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘
اس سے ثابت ہواکہ فوت شدگان کے لئے ہم ہی نہیں بلکہ اﷲ رحمن ورحیم کے حکم
سے اس کے فرشتے بھی دعائے مغفرت کرتے ہیں۔سورۃ المومنین کو اُٹھائیں! قرآن
کہتا ہے: ’’الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربھم ویؤ منون بہ و
یستغفرون للذین اٰمنوا․‘‘ ’’جو عرش اٹھاتے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں،اپنے
رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بولتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے اور
مسلمانوں کی مغفرت مانگتے ہیں۔‘‘
ان دونوں آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ فرشتے بھی مؤمنین کے
لئے دُعائے مغفرت کرتے ہیں اور دُعائے مغفرت کرنا منشاءِ قرآن کے مطابق اور
انبیاء وفرشتوں کی سنت ہے۔جولوگ دعاء مغفرت کرتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ اور
انبیاء کرام کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔جو منع کرتے ہیں وہ جھوٹ سے کام لیتے
ہیں۔
ایصال ثواب اور حدیث
آئیے! احادیث رسول کریم ﷺ سے دیکھیں کہ ایصال ثواب اور دعا سے مرنے والوں
کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں؟
ابو داؤد شریف میں حضرت مالک بن ہبیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جس مسلمان میت پر مسلمانوں کی تین صفیں
جنازہ پڑھ لیں تو میت کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔روای یہاں تک کہتے ہیں کہ
جب جنازہ کے شرکاء کی تعداد کم ہوتی تو مالک بن ہبیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
اہل جنازہ کو تین صفوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔
مسلم شریف جلد اول میں ہے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے ایک
آزاد کردہ غلام جناب کریب فرماتے ہیں کہ حضرت عبدا ﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا۔نماز جنازہ سے قبل آپ نے مجھ سے فرمایا:
اے کریب دیکھو! نماز جنازہ کے لئے کتنے آدمی جمع ہوگئے ہیں؟ میں باہر نکلا
تو باہر کافی لوگ جمع تھے۔میں نے اندر آکر بتایا۔حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے فرمایا: تمہارے خیال سے 40آدمی ہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں!
آ پ نے فرمایا: جنازہ نکالو! اس لئے کہ میں نے نبی رحمت ﷺ سے سنا ہے کہ جس
مسلمان کے جنازے میں چالیس ایسے لوگ شامل ہوں جو اﷲ کے ساتھ کسی کوشریک نہ
کرتے ہوں تو اﷲ تعالیٰ ان کی شفاعت مسلمان میت کے حق میں ضرور قبول فرماتا
ہے۔
مسلم شریف میں اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے
روایت ہے جسے عبداﷲ بن یزید حضرت شعیب بن صیحاب اور حضرت انس بن مالک رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی بیان فرمایا۔حدیث شریف کی عبارت ملاحظہ فرمائیں: ’’عن
عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا عن النبی ﷺ قال ما من میت تصلی علیہ امۃ من المسلمین
یبلغون مائۃ کلھم یشفعون لہ الاشفعوا فیہ․‘‘’’حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس میت پر سو مسلمان
نماز جنازہ پڑھ کر اس کی شفاعت کریں(یعنی اﷲ سے اس کی مغفرت کی دعا کریں)تو
ان کی شفاعت قبول ہو جائے گی یا یوں کہہ لیں مرحوم کی مغفرت ہو جائے گی۔
میں اس بات پر حیران ہوں کہ دعاء مغفرت کی مخالفت کرنے والے اپنے مردوں کی
نماز جنازہ پڑھنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ اور پھر خودہی غائبانہ نماز جنازہ
بڑے بڑے اشتہارات لگا کر پڑھتے پڑھاتے ہیں اور بہت بڑا اعزاز گردانتے ہیں۔
مشکوۃ شریف میں حضرت مجاہد جناب عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہماسے روایت
کرتے ہیں کہ نبی رحمت ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ میت قبر میں ڈوبتے ہوئے فریادی
کی طرح ہوتی ہے۔وہ منتظر رہتی ہے کہ ماں ،باپ ،بھائی یا دوست اس کے لئے
دعاء مغفرت کریں۔جب میت کو دعا پہنچتی ہے تو یہ اس کو ساری دنیا اور پوری
دنیا کے سازو سامان سے بھی پیاری ہوتی ہے اور بیشک اﷲ تعالیٰ زمین والوں کی
دعاء سے قبر والوں کو پہاڑوں کے برابر ثواب عطا فرماتا ہے اور زندوں کا
تحفہ مردوں کے لئے دُعائے مغفرت ہے۔
امداد الفتاوی کو دیکھیں دیوبندی حضرات کے پیر ومرشد مولوی اشرف علی تھانوی
اسی حدیث رسول ﷺ سے ایک فائدہ استنباط کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’روایات
کثیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ارواح اموات کو یہ خبر بھی ہوتی ہے کہ کس شخص نے
یہ ایصال ثواب کیا ہے۔‘‘بیہقی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس حدیث سے منتظر ہونا میت کا واسطے دعا اپنے بھائی ودوست ورشتہ داروں کے
ثابت ہوتا ہے۔پس اگر یہ لوگ ثواب پہنچا دیں گے تو ضرور میت کو شعور ہوگا
ورنہ اس کا انتظار منقطع نہ ہو گا اور اخباروآثار بزرگان سے یہ امر حد تو
اتر کو پہنچتا ہے۔‘‘
مشکوۃشریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ جنت (مومن کی قبر بھی مثل جنت ہے)میں نیک
بندے کے درجہ کو بلند فرماتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے رب العالمین میرا درجہ
کیسے بلند ہو گیا؟ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تیرے لڑکے کی دعاء مغفرت
کرنے کی وجہ سے۔
اس حدیث مبارکہ کو حافظ عماد الدین ابن کثیر نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’اس حدیث کی سند بالکل درست ہے خواہ اس حدیث کی تخریج اصحاب ستہ نے نہیں
فرمائی لیکن اس حدیث کا ایک شاہد صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کی روایت سے موجود ہے کہ نبی اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب
انسان مرجاتا ہے تو اس کے تین اعمال کے علاوہ باقی سب عمل منقطع ہو جاتے
ہیں اور وہ تین یہ ہیں:
(۱) صدقہ جاریہ (۲) وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔
(۳) نیک بچہ جو اس کے لئے دعائے مغفرت کرے۔
غیر مقلدین کے مشہور مولوی سید احمد حسن صاحب نے بھی اس حدیث شریف کے تحت
لکھا ہے: ’’یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مردوں کو زندوں کی طرف سے
ثواب پہنچتا ہے۔‘‘
تسبیح ،ذکر واذکار کا میت کو فائدہ ․․․․․․․․․․․․․ہوتا ہے․․․․․․․․․․․․․․․
مسند امام احمد میں حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد
بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی تو ہم رسول مکرم ﷺ کے ساتھ وہاں
گئے۔رسول اﷲﷺ کے ساتھ ہم نے ان کی نمازجنازہ پڑھی اور سعد بن معاذ کو قبر
میں دفن کر دیا۔تب رسول کریم ﷺ نے تسبیح پڑھنی شروع کر دی ہم بھی آقائے
نامدار کے ساتھ تسبیح پڑھتے رہے ۔پھر آپ ﷺ نے تکبیر پڑھی توہم نے بھی ایسا
ہی کیا۔ہم نے والئی کائنات کی بارگاہ اقدس میں عرض کیا: آقا آج سے پہلے آپ
نے کبھی تسبیح وتکبیر نہ کہی؟ آپ نے فرمایا: سعد بن معاذ پر قبر تنگ ہونی
شروع ہوگئی تھی ہمارے پڑھنے سے اﷲ نے اس نیک بندے پر فراخی فرمادی۔‘‘
آپ اس حدیث رسول ﷺ پر غور فرمائیں تومعلوم ہوتا ہے کہ میرے آقا کو اپنے
غلاموں کا قبر کے اندر والے حشر کا بھی علم ہے کہ قبر میں میرا غلام کس حال
میں ہے؟ نیز قبر پر قرآن خوانی ،ذکر واذکار،تسبیح وتحلیل سے صاحب قبر کو
فائدہ ہوتا ہے۔نیز قبریں کشادہ بھی ہوتی ہیں۔
بخاری میں حضرت مجاہد ،طاؤس اور سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے
روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ کا دو قبروں پر سے گزرہو ا جن پر عذاب ہو رہا تھا۔آپ
نے ارشاد فرمایا: ان کو کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا،ان میں سے
ایک تو پیشاب (کے چھینٹوں)سے نہیں بچا کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا پھرتا
تھا۔پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک سبز ٹہنی لی ،اس کو بیچ میں سے چیر کر اس کے
دو حصے کردئیے اور ہر قبر پر ایک ایک حصہ گاڑ دیا۔صحابہ کرام رضوان اﷲ
تعالیٰ علیہم اجمعین نے ایسا کرنے کی وجہ دریافت فرمائی ! آقائے دوجہاں ﷺ
آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اُمیدہے کہ جب تک یہ شاخیں سر
سبز رہیں گی ان کا عذاب ہلکا رہے گا۔
امام قرطبّی نے ’’التذکرۃ فی احوال الموتی وامورالاخرۃ․‘‘ میں اسی حدیث
شریف کو جواز بناتے ہوئے قبروں پر درخت لگانا ،پھول ڈالنا اور قرآن حکیم کا
پڑھنا ثابت کیا ہے اور فرماتے ہیں: جب درختوں کی وجہ سے عذاب قبر میں تخفیف
ہوتی ہے ،جوحدیث صحیحہ سے ثابت ہے تو قرآن پڑھنے اور ذکر واذکار سے کیونکر
فائدہ نہ ہو گا۔
اس طرح بے شمار احادیث ایصال ثواب کے جواز میں موجود ہیں۔یہاں میں ضروری
سمجھتا ہوں کہ چند ایک غیر مقلدین کی رائے بھی تحریر کرتا جاؤں تاکہ ان پڑھ
جاہلین جنہوں نے چند غیر مقلدین کے نام سن رکھے ہیں مگر ان کے عقائد کا علم
نہیں ،انہیں یہ پتہ چل جائے کہ ہمارے بڑوں کے عقائد کیا ہیں۔
اس حدیث مبارکہ میں جو اُوپر تحریر کر چکا ہوں،کی شرح لکھتے ہوئے دیوبندی
تبلیغی جماعت کے مشہور مولوی خلیل احمد صاحب سہارنپور ی ’’بذل المجھود‘‘میں
لکھتے ہیں : ’’اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ عبادات بدنیہ کا ثواب
دوسروں کو پہنچایا جا سکتا ہے ۔بے شک اولیاء اﷲ اور مقربین کے ماثر کی
زیارت بھی کی جاتی ہے اور وہاں سے برکت بھی حاصل کی جاتی ہے۔‘‘
اسی طرح غیر مقلدین کے محدث شمس الحق عظیم آبادی نے’’عون المعبود شرح سنن
ابوداؤد‘‘میں لکھا ہے: (ترجمہ)’’امام ملا علی قاری نے کہا کہ ہمارے علماء
فرماتے ہیں کہ کسی کی طرف سے حج کرنے میں اصل یہ ہے کہ انسان کو حق حاصل ہے
کہ وہ اپنے عمل کا ثواب کسی زندہ یا مردہ کو بخش دے۔خواہ وہ عمل حج ہو یا
نماز،روزہ ہو یا صدقہ یا اس کے علاوہ مثلاً تلاوت قرآن حکیم اور دیگر ذکر
واذکار۔جب کسی شخص نے ان میں سے کوئی عمل ادا کیا اور اس کا ثواب کسی کو
بھیجا تو یہ جائز ہے اور اہل سنت کے نزدیک اس کا ثواب دوسرے کو پہنچ جا
تاہے۔‘‘
امام قرطبّی کو دیکھیں ’’التذکرۃ فی احوال الموتی وامور الاخرۃ․‘‘میں حدیث
پاک کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میت کی طرف سے اگر کوئی چیز صدقہ کی
جائے تو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔دُعاء
استغفار،قرآن خوانی وغیرہ کی اصل بھی صدقہ ہی ہے۔‘‘
ترجمہ صحیح مسلم میں غیر مقلدین کے مشہور عالم علامہ وحید الزمان صاحب
’’باب وصول ثواب الصدقۃ عن المیت الیہ‘‘کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا : ’’باب
صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتاہے۔‘‘
مشہور زمانہ محدث امام نووی نے اسی حدیث کی شرح میں لکھا تھا: ’’فی
ھذاالحدیث ان الصدقۃ عن المیت تنفع المیت ویصل ثوابھا الیہ․‘‘یعنی اس حدیث
میں ا س بات کی دلیل ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ میت کو نفع دیتا ہے اور اس
کا ثواب میت کو ملتا ہے۔
دیوبند ی محدث خلیل احمد انبیٹھوی نے لکھا ہے کہ: ’’یہ حدیث اس بات کی دلیل
ہے کہ مالی عبادات کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے اور اسی پر اہل سنت کا اجماع
ہے۔‘‘
شرح الصدور میں علامہ جلا ل الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ سیدنا
امام حسن وسیدنا امام حسین دونوں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ
الکریم کی طرف سے ان کی موت کے بعد غلام آزاد کیا کرتے تھے اور امام سیوطی
وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے لئے دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث انور شاہ
کشمیری نے لکھاہے : (ترجمہ)’’بے شک امام جلا ل الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ نے
بائیس مرتبہ نبی کریمﷺ کی زیارت کی اور آ پ ﷺ سے احادیث کے بارے میں
پوچھا،آپ ﷺ کی تصحیح کے بعد امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ نے بعض احادیث مبارکہ
کی تصحیح کی ہے۔‘‘
امام بدرالدین عینی اور امام سیوطی نے بھی یہ لکھا ہے کہ ہمیشہ سے ہر زمانہ
میں مسلمان جمع ہو کر قرآن خوانی کرتے ر ہے ہیں اور اس کا ثواب اپنے مردوں
کوہدیہ کرتے رہے ہیں اور ہر مذاہب یعنی مالکیہ ،شافعیہ وغیرہ کے ہاں صلاح
ودیانت کا یہی طریقہ ہے اور اس طریقہ کا منکر کوئی بھی نہیں ہے۔اس طرح اس
مسئلہ میں بھی اجماع ہو چکا ہے۔
شاہ عبدالعزیزصاحب محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’فتاوی عزیزی‘‘میں ،حضرت
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’زبد ۃ النصائح‘‘ میں،علامہ
علاؤالدین علی بن محمد البغدادی صاحب تفسیر خازن نے اپنی ’’تفسیر خازن‘‘میں
مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنے ’’فتاویٰ ‘‘میں اور مولوی اسماعیل دہلوی نے
’’صراط مستقیم‘‘میں فاتحہ خوانی اور ایصال ثواب ،مردوں کے لئے صدقہ اور
قرآن خوانی اور ان کی فاتحہ کے مواقع پر کھانا کھلانے کو جائز قرار دیا اور
اس کا مرنے والوں کو فائدہ ہونے کا لکھا ہے۔
اس مسئلہ پرکافی احادیث اور سلف صالحین کی رائے غیر مقلدین کے عقائد اور ان
کی مزید تحریریں پیش خدمت کی جا سکتی ہیں مگر طوالت مضمون کے خوف سے انہیں
پر اکتفا کیا جاتا ہے۔تاہم مسئلہ ایصال ثواب ہدیہ ناظرین ہے،صاحب عقل کے
لئے تو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ناظرین کرام ان دلائل حقہ کو بنظر غائر دیکھنے
کے بعدایصال ثواب کی اہمیت کو سمجھیں گے اور ان لوگوں کی تنگ نظری اور مبلغ
علم کا بھی اندازہ لگائیں گے جو فاتحہ خوانی کو لغویات یا بدعت کہہ کر
لوگوں کو اس سے روکتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو کہتے ہیں اس کا ثبوت
لاؤ۔٭٭٭٭٭
شائع فرما کر شکریہ کا موقع دیں
|