اپنے وقت کے ایک ولی سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ
نے کبھی کسی ولی کو دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں ابھی دو دن پہلے ہی
ریلوے اسٹیشن پر دیکھا ہے۔ ہماری گاڑی جیسے ہی رکی تو قلیوں نے دھاوا بول
دیا اور ہر کسی کا سامان اٹھانے اور اُٹھا اُٹھا کر بھاگنے لگے، لیکن میں
نے ایک قلی کو دیکھا کہ وہ اطمینان سے نماز میں مشغول ہے۔جب اُس نے سلام
پھیرا تو میں نے اسے سامان اُٹھانے کو کہا۔ اس نے سامان اُٹھایا اور میری
مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا۔ میں نے اسے ایک روپیہ کرایہ ادا کر دیا۔ اس نے
چار آنے اپنے پاس رکھے اور باقی مجھے واپس کردیئے۔میں نے اس سے کہا کہ ایک
روپیہ پورا رکھ لو، لیکن اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: نہیں صاحب! میری
مزدوری چار آنے ہی بنتی ہے۔
آپ یقین کریں ہم سب ولی بننے اور ولیوں کو ڈھونڈنے میں دربدر ذلیل و خوار
ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں مشکل ترین ریاضتوں، مشقتوں اور مراقبوں سے
گزرنا پڑے گا۔ سار ی ساری رات نوافل میں گزارنی پڑے گی یا شاید گلے میں
تسبیح ڈال کر میلے کچیلے کپڑے پہن کر ’’ہُو‘‘ کی صدائیں لگانا پڑیں گی، تب
ہم ولی کے درجے پر پہنچ جائیں گے۔ آپ کمال ملاحظہ کریں ہماری آدھی سے زیادہ
قوم بھی اُس کو ہی’’پہنچا‘‘ ہوا سمجھتی ہے جو ابنارمل حرکتیں کرتا نظر آئے
گا۔ جو رومال میں سے کبوتر نکال دے یا عاشق کو آپ کے قدموں میں ڈال دے۔خدا
کا دوست بننے کے لئے تو اپنی اَنا کو مارنا پڑتا ہے۔ قربانی، ایثار اور
انفاق کو اپنی ذات کا حصہ بنانا پڑتا ہے۔اﷲ پاک کے برگزیدہ بندے اور ولی
کامل ہر دور میں اﷲ کی مخلوق کے درمیان ہو تے ہیں لیکن انہیں ڈھونڈنے کے
لیے دیدہ بینا کی ضرور ت ہوتی ہے۔ایسے ہی ایک ولی ِکامل جی ٹی روڈ کامرہ کے
بالمقابل رہائش پذیر تھے ۔2012ء سے جی ٹی روڈ کامرہ کے قریب رہنے کے باوجود
گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے تھے۔ شریعت کے احکامات کی پابندی کرتے تھے اور
تصویر بنوانے سے منع فرماتے تھے۔ فقیر منش اور جلالی تھے۔
میں جب کبھی شہر اقتدار کی مصروف زندگی سے چند گھنٹے اپنی ذاتی تفریح کے
لیے نکالتا ہوں تواپنے آبائی علاقہ اٹک شہرکا رُخ کرتا ہوں۔یہ 17 مئی جمعہ
کا دن تھا ۔جمعہ کی نماز جی ٹی روڈ کامرہ میں نقشبندی سلسلہ کے بزرگ پیر
محمدفضل الرحمن دامت برکاتہم مدظلہ کی مسجد میں پڑھنے کے ارادے سے اٹک
پہنچا اورپہلے سے تیار دوستوں اقبال زرقاش، ملک محمد ممریز خان اور پروفیسر
نصرت بخاری کے ہمراہ مسجد و خانقاہ پہنچا۔جونہی ہم پیرمحمدفضل الرحمن دامت
برکاتہم کی خانقاہ پہنچے تو وہاں انکے صاحبزادے مولانا محمد عبداﷲ جو ایک
جید عالم دین ہیں اور شہد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں، نے استقبال
کیا۔ با با جی کی موجودگی کی بابت استفسار پر بتایا گیا کہ وہ تو یکم رمضان
بروز منگل 7مئی 2019 کو بعد نماز ظہر دینی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس جہان
فانی سے داغ مفارقت دے کر داعی اجل کو روانہ ہو گئے۔یہ اطلاع میرے اعصاب پر
بجلی بن کر گر ی ۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا ۔ ابھی دوہفتے
قبل رمضان المبارک کے آغاز سے قبل اُن کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا تھا۔
اُس دن وہ مجھے اور میرے دوستوں اقبال زرقاش اور سردار ایاز خالد مٹھیالوی
سے کچھ زیادہ ہی محبت اور اُنسیت سے ملے تھے۔ اپنے پاس بٹھا کر آقائے
دوجہاں کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے کھجوروں اور قہوہ سے ہماری تواضع کی ،
تشنہ طلب سوالوں کے جوابات دیئے او ر اجتماعی دُعا کے ساتھ رُخصت کیا۔
سلسلہ نقشبندیہ کے پیر ولی کامل محمد فضل الرحمن دامت برکاتہم العالیہ
افغان النسل سادات خاندان کے قبیلہ حسن خیل سے تعلق رکھتے تھے۔والد محترم
کا نام محمد ولی تھا جو سلسلہ قادریہ کے اپنے زمانے کے کامل ولی تھے جبکہ
دادا کا نام اولس میر (عوام کا سربراہ)ہے۔ آپ افغانستان میں حکومتی سطح پر
بڑے بڑے فیصلوں کے سربراہ تھے۔ آپ کا روحانی تعلق سوات کے حضرت مولانا
عبدالغفور بابا جی قدس سرہ کے خلیفہ خاص حضرت مولانا نجم الدین رح جلال
آبادی سے تھا جو سلسلہ قادریہ سے بلند پایا بزرگ تھے۔
پیرمحمد فضل الرحمن قدس سرہ کی ولادت با سعادت 1951ء میں افغانستان کے شہر
جلا ل آباد میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ پرائمری تک سکول
پڑھ کر آگے دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے۔ اُس وقت مدارس کا خاص
انتظام نہ تھااور نہ کوئی نصاب مقرر تھا بلکہ طلباء مساجد میں ایک استاد سے
ایک دو کتابیں پورا سال پڑھتے تھے۔چنانچہ اسی ترتیب سے آپ نے 9 سال تک
مختلف اساتذہ کرام سے دینی کتابیں پڑھیں۔ جس میں علم الخو، علم الصرف، علم
المنطق، علم الفقہ، علم اُصول فقہ، علم التفسیر، وغیرہ کی کتابیں شامل
ہیں۔چونکہ آپ کے والد ماجد صاحب جاگیر اور زمیندار آدمی تھے ۔ مال مویشی
بھی رکھتے تھے او ر مال مویشیوں کی حفاظت کے لیے مزدور بھی رکھتے تھے۔ حضرت
پیر صاحب فرماتے ہیں کہ" میں بھی ان مزدورں کے ساتھ اُونٹ، بکریوں کو چراتا
تھا اور تقریباً تین سال تک میں نے انبیاء کرام علہیم السلام کی اس مبارک
سنت پر عمل کیا"۔
زمانہ طالب علمی کے دوران آپ رح نے سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ خواجہ محمد لعل
قندوری دامت برکاتہم سے بیت کا تعلق قائم کیا۔ اس وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال
تھی ۔ چونکہ آپ کا باطن صاف تھا، بچپن میں بھی حرام اور مشتبہ چیزوں سے
پرہیز کرتے تھے، اسی وجہ سے بیعت ہوتے ہی آپ کو نسبت حاصل ہوئی اور اﷲ
تعالیٰ کا قرب جو اس سلسلہ نقشبندیہ کے مبتدیین کو حاصل ہو تا ہے وہ قرب و
آگاہی نصیب ہوئی اور اسی حال نے آپ کے اوپر غلبہ حاصل کیا۔ہر وقت ذکرالہیٰ
میں مستغرق رہتے اور کمال شوق سے گریہ شروع ہو گیا اور ہروقت آنکھوں سے
آنسو جاری رہتے۔ آپ نے ایک سال میں تصوف کے اسباق پورے کیے اور ولائیت کے
تمام مراتب طے کرلیے۔1970ء میں انیس سال کی عمر میں آپ کو شیخ کی طرف سے
خلافت و اجازت مل گئی جسکے بعد آپ نے بیعت و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا۔اور
اسکے لیے باقاعدہ خانقاہی نظام کا آغاز کیا کیونکہ دین کی نشر و اشاعت میں
خانقاہی نظام کا اہم کردار ہے۔تھوڑے ہی عرصے میں اہل عقیدت کی ایک کثیر
تعداد نے ا ٓپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوگئے۔ یہ سلسلہ دس سال جاری رہا۔
دین اسلام کی سربلندی کے لیے جہاد افغانستان میں بھی حصہ لیا۔1980ء میں
افغانستان میں جنگ و جدل کے باعث پاکستان کی طرف ہجرت کی اور اپنے آقاحضور
ﷺ کی ہجرت والی سنت کو زندہ کیا۔نوشہرہ اورضلع بونیر کے گاؤں گوگا کے مہاجر
کیمپ میں مستقل رہائش اختیارکی اور اصلاح و ارشاد کا سلسلہ جاری
رکھا۔پاکستان میں دورہ تفسیر 1982ء میں ضلع صوابی کے شیخ القرآن حضرت
مولانا عبدالہادی شاہ منصوری قدس سرہ سے پڑھی۔
آپ نے 31 سال ضلع بونیر کے ایک مہاجر کیمپ میں گزارے ۔ آپ کے دل میں خواہش
پیدا ہوئی کہ مستقل رہائش ہو۔چونکہ ہم نے ہجرت کی ہے اس لیے ہم واپس نہیں
جانا چاہتے۔ ہمارے آقا دوجہاں ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ ہجرت فرمائی لیکن
فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ واپس نہیں گئے بلکہ مدینہ میں مستقل رہائش اختیار
فرمائی اور وہیں آپ ﷺ کا روضہ مبارک بنا۔آپ رح نے بھی جی ٹی روڑ کامرہ کے
قریب تین کنال رقبے پر مشتمل زمین خرید لی اوریہیں دو مکانات تعمیر کیے اور
ایک خانقاہ اور مسجدبھی تعمیر کی جہاں علم و عرفان جاری و ساری ہے۔
آپ رح نے اپنے مریدین کے لیے وصیت چھوڑی کہ وہ ہمیشہ رزق حلال کمانے کو
ترجیع دیں ،تفرقہ بازی اور حرام کاموں سے دور رہیں۔آپ کی وفات کے بعد آپ کی
وصیت کے مطابق آپ رح کوخانقاہ کے قریب( رقبہ خرید کر )دفن کیا گیا جہاں
مزار پر تعمیر کا کام جاری ہے۔ آپ کی رحلت کے بعدا ٓپ کے صاحبزادے حافظ و
قاری محمدعبدالباقی دامت برکاتہم مسند خلافت پر درس و تدریس کا مشن جاری
رکھے ہوئے ہیں۔آپ رح سے زندگی میں بے شمار کرامات بھی منکشف ہوئیں جنہیں
مضمون کی طوالت کے باعث دم تحریر نہ لایا جا سکا۔اﷲ پاک سے دُعا ہے کہ اﷲ
پاک پیر و مرشد محمد فضل الرحمن دامت برکاتم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام
عطا فرمائے اور ہمیں ان کے فیض سے بہرہ مند فرمائے۔
|