وادی کارگل میں بھارتی فوج سے جنگ کا آغاز تو مئی
1999ء میں ہوا تھا لیکن کیپٹن شیر خان اپنے ساتھیوں سمیت کئی ماہ پہلے سے
ان بھارتی مورچوں پر قابض ہوکر ان کی آمد کے منتظر تھے ۔ بھارتی فوج کنکریٹ
سے بنے ہوئے اپنے مورچے اس لیے خالی کرکے سری نگر چھاؤنی چلی جاتی تھی کہ
سخت سردیوں کے مہینوں میں برف میں ڈھکی ہوئی ان بلند ترین چوٹیوں پر کسی
انسان کا زندہ رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوجاتا تھا ۔ جونہی کیپٹن شیر
خان اور ان کے ساتھیوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے بھارتی فوج سے
پہلے بے رحم موسمی صعوبتوں سے لڑنے کافیصلہ کیا اور ایسی برف پوش ‘ بلند
اور دشوار گزار پہاڑیوں پر نہ صرف وہ زندہ رہے بلکہ اپنے ساتھیوں کے حوصلوں
اور جذبوں کو بھی زندہ رکھا۔پھر جب موسم نے کروٹ لی تو ایک صبح برف پوش
وادیوں کے آئینے میں دشمن کا عکس دکھائی دینے لگا ۔ کیپٹن شیرخان نے جوانوں
کو مستعدکردیااور کہا کوئی زندہ بچ کر نہ جائے ۔جب دشمن پر بارود کی بارش
ہونے لگی تو ایک ہی ہلے میں دشمن کے درجنوں فوجی جہنم واصل کردیئے۔اس سے
پہلے کہ دشمن کو ہوش آتا پہاڑوں کی چوٹیوں سے ان پر مارٹر گنوں سے فائر
ہونے لگا ۔اسلحہ سے بھری گاڑیاں اپنے جوانوں سمیت بھسم کردی گئیں۔کیپٹن
شیرخان نے پہلے دن کے معرکہ میں ہی بھارتی فوج کو مفلوج کرکے یہ ثابت کردیا
کہ یہ علاقہ اب ان کے قبضہ میں نہیں رہا ۔بھارتی حکومت تک یہ اطلاع پہنچ
چکی تھی کہ سری نگر پر کسی بھی وقت پاکستان کا قبضہ ہوسکتا ہے ۔تازہ فوجی
کمک کے پہنچنے کے باوجودکئی ہفتوں تک بھارتی فوج اپنے مورچے واپس نہ لے سکی
۔بوفرز توپیں بھی استعمال کرکے دیکھ لیں۔ ابتدائی طور پرپاکستان کو اس کے
تین فائدے ہوئے ۔کارگل اور لداخ شاہراہ مکمل طور پر مجاہدین کے کنٹرول میں
آگئی ‘ سیاچن پر بھارتی فوج کا مورال گرگیا۔ پاک فوج نے پیش قدمی کرتے ہوئے
کئی اہم چوکیوں پر قبضہ کرلیا ۔دراس اور کارگل کے علاقے میں 35کلومیٹر
کاعلاقہ بھارتی فوج کے ہاتھ سے نکل گیا۔بھارت کو تین ڈویژن فوج میدان جنگ
میں لانا پڑی ۔رات دن گولہ باری کے باوجود کامیابی نہ ملنے پر بھارتی
فضائیہ بھی جنگ میں کود پڑی تو پاکستانی ہنزہ میزائلوں کے ہاتھوں دو طیاروں
کی تباہی نے خوف میں مزید اضافہ کردیا۔ایک دن کیپٹن شیر خان کو حکم ملا کہ
وہ دراس سیکٹر میں ان مجاہدین کی مدد کریں جو بھارتی فوج کے تابڑ توڑ حملوں
کی زد میں آچکے ہیں‘ کیپٹن شیر نے وہاں پہنچ کر دشمن کو پسپائی اختیار کرنے
پر مجبور کردیا۔گوریلا جنگ کی تاریخ میں ان جیسا چابکدست اور بیدار مغز
افسرکوئی اور نہ تھا۔لڑائی میں شدت آچکی تھی ۔ شیر خان اپنے مشن کی تکمیل
کے لیے وہ اکیلے ہی دشمن کے بیس کیمپ تک جا پہنچے نماز فجر ادا کرنے کے بعد
اپنے مورچے میں پہنچے ہی تھے کہ دشمن نے زبردست حملہ کردیا ۔کیپٹن شیر خان
اور ان کے ساتھیوں نے عبرتناک شکست دی ۔دشمن ہتھیار اور نعشیں چھوڑ کر بھاگ
نکلا۔اس لمحے شیر خان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دشمن رات کے اندھیرے میں
حملہ آور ہوا تھا لیکن میں صبح للکار کر انہیں جہنم رسید کروں گا۔ اگلی صبح
جب سری نگر کی مساجد میں اذان فجر کی صدائیں کانوں میں آرہی تھیں توکیپٹن
شیر خان دشمن کے بیس کیمپ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ پہلے برفانی سطح پر ہی
نماز پڑھی پھر بھاری مشین گن سے حملہ کردیا دشمن کے فوجی اچانک فائرنگ سے
بچنے کے لیے بھاگ رہے تھے تو شیر خان بھی ان کا تعاقب کرتے ہوئے اس مقام پر
جا پہنچا جہاں بہت سارے بھارتی فوجی اپنے کمانڈر کے اردگرد جمع تھے۔چند سکھ
فوجیوں نے فائر کرنے کی جستجو کی اس سے پہلے شیر خان کی گن سے شعلے نکلے
اور سب اسی جگہ ڈھیر ہوگئے۔ اسی دوران بھارتی فوج کے کرنل کی آواز سنائی دی
وہ کہہ رہا تھا ہتھیار پھینک دو ۔اس وقت تم ہمارے گھیرے میں ہو۔ شیر خان نے
بلند آواز میں کہا شیرمرجاتاہے ہتھیار نہیں ڈالتا ۔یہ کہہ کرآواز کی سمت
فائرکرناچاہاتو شیر خان کی گن خالی ہوچکی تھی لپک کر کرنل کی گردن کو اپنے
ہاتھوں میں دبوچ لیا یہ دیکھتے ہی بھارتی فوجیوں نے فائر کھل دیا جس سے
کیپٹن شیر خاں کافولادی جسم گولیوں سے چھلنی ہوگیا۔ اﷲ اکبر کا ورد کرتے
ہوئے جام شہادت نوش کرلیا ۔بھارتی کمانڈر ‘ کیپٹن شیر خان کی بہادری پر عش
عش کراٹھا ۔اس نے بلند آواز میں کہا اس جوان کی بے حرمتی نہ کرنا یہ بہت
بہادر افسر ہے ۔حکومت پاکستان نے بعد از شہادت انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز
نشان حیدر سے نوازا۔شیرخان یکم جون 1970ء کو ضلع صوابی کے نواحی قصبے نواں
کلی میں پیدا ہوئے۔میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول نواں کلی سے پاس
کیا۔1987ء میں ایف ایس سی کرکے پی اے ایف میں بطور ائیر مین بھرتی ہوئے
۔بعدازاں پی اے ایف کو خیر باد کہہ کر1994ء میں بری فوج کی27 سندھ رجمنٹ کا
حصہ بنے۔1997میں نیشنل لائٹ انفنٹری میں تعیناتی کے دوران سیاچن کے سرداور
بلند ترین محاذ پربھی دو سال سے زائد تعینات رہے ۔کارگل کا محاذ گرم ہونے
والا تھا تو شیر خان نے دانستہ اپنی پوسٹنگ کارگل میں کروا لی ۔آپ کے والد
خورشید خان نے بیٹے کی شہادت پر کہا پہلے میں غازی کا باپ تھا اب میں ایک
شہید کا والد ہوں مجھے اس پر فخر ہے کہ میرے بیٹے نے پاکستان کے دفاع کے
لیے جان دی ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی جنتی دنیا کی طرف جانے کی تمنانہیں
کرے گا ماسوائے شہید کے‘وہ آرزو کرے گا کہ بار بار دنیامیں جائے اور شہید
ہو۔کیونکہ اس نے شہید کی عزت جو اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے ۔بار بار شہادت کی
یہی تمنا دنیا میں آنے کی خواہش پیدا کرتی ہے۔
|