بھارت میں مذہبی اقلیتیں شدید عدم تحفظ کا شکار !!

امریکی محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے حوالے سے 2018ء کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’بھارت میں 2015ء سے 2017ء کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات میں نو گنا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں نیز سیاسی جماعتیں ایسے اقدامات کرتی رہی ہیں جن سے مسلمانوں کے ادارے اور مذہبی رسوم و رواج متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت مسلمانوں کے اپنے قائم کردہ تعلیمی اداروں کو آئینی طور پر حاصل اقلیتی حیثیت کو سپریم کورٹ میں مسلسل چیلنج کرتی رہتی ہے۔ (اقلیتی حیثیت کی وجہ سے تعلیمی ادارو ں کو اپنا نصاب متعین کرنے اور عملہ کی تقرری کے سلسلے میں آزادی ہے)۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت میں مسلم نام والے شہروں کا نام تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی واضح مثال الہ آباد ہے جسے تبدیل کر کے اب پریاگ راج کردیا گیا۔ اس کا مقصد بھارت کے سماجی اور ثقافتی کردار کی تعمیر میں مسلمانو ں کے تاریخی رول کو مٹادینا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر قتل، قاتلانہ حملے، فسادات، امتیازی سلوک اور لوٹ مار کے واقعات اکثر ہوتے رہے ہیں۔ اقلیتی افراد کو ان کے مذہبی احکامات پر عمل کرنے کے آئینی حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے متعدد سینیئر رہنما اقلیتی فرقوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیتے رہے ہیں۔ گؤ رکشا (تحفظ گائے) کے نام پر حملوں اور ہجومی تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ حکام ان حملوں کو روکنے اور قصور واروں کو سزا دلانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں‘‘۔امریکی محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے حوالے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کے 29 میں سے 24 صوبوں میں گائے کے ذ بیحہ پر مکمل یا جزوی طور پر پابندی عائد ہے۔ اس پابندی سے مسلمان اور پسماندہ طبقات کے افراد اقتصادی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ گائے ذبح کرنے کے جرم میں چھ ماہ سے دو سال تک قید اور ایک ہزار سے دس ہزار روپے تک جرمانہ کی سزا ہے‘‘۔ واضح رہے کہ بھارتی وزرات خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کو مداخلت قرار دے کر ڈھٹائی کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔

امریکی وزرات خارجہ کی جانب سے یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب خود امریکی خارجہ مائیک پومپیو بھارت کے دورے پر 25جون کو آرہے تھے ۔کسی امریکی عہدیدار کا بھارتی لوک سبھا انتخابات کے بعد یہ پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہے ۔جہاں وہ اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بھارتی رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی عہدے دار کے دورے کا مقصد رواں مہینے کے آخر میں جاپان میں جی20کی سربراہی کانفرنس کے دوران امریکی صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان بات چیت کے لئے راہ ہموار کرنا بتایا جارہا ہے۔ غور طلب بات یہ بھی کہ امریکی صدر و نریندر مودی کے درمیان ملاقات اور خود امریکی وزیر خارجہ کا بھارتی دورہ اہمیت کا حامل ہے ۔جبکہ 27جون کو افغان صدر اشرف غنی پاکستان کا دورہ کررہے ہیں اور29جون کو دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا ساتواں اہم ترین دور ہونے جارہا ہے۔ امریکی صدر کی جنوبی ایشیائی ممالک کے حوالے سے نئی پالیسی کے تحت بھارت کو امریکا نے اپنے اتحادی گروپ میں شامل کیا ہوا ہے ۔2016 سے امریکا نے بھارت کو اپنا ’میجر ڈیفنس پارٹنر‘ قرار دے رکھا ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات سے قبل امریکی عہدے دار متعدد بار بھارتی دوروں میں نریندر مودی سے افغانستان میں مزید کردار بڑھانے کے لئے فوجیں بھیجنے کا مطالبہ کرچکے ہیں لیکن بھارتی وزیر خارجہ نے امریکا مطالبے کو بظاہر رد کردیا گیا جس کے جواب میں امریکی صدر نے بھارت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے افغانستان میں لائبریری بنانے سے امن نہیں لاسکتا۔ بھارت میں ہندو انتہا پسند جماعت کی کامیابی کے بعد امریکا وزرات خارجہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے حوالے سے ہندو شدت پسندوں کی جانب اور ریاستی سرپرستی پر چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارت میں مذہبی اقلیتوں ، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ امریکی وزرات خارجہ نے سال2018کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے یہ وہ وقت تھا جب بھارتی انتخابات میں کامیابی کے لئے بھارتی ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف خصوصی مہم چلائی جا رہی تھی اور پاکستان کے خلاف جنگی ماحول پیدا کردیا گیا تھا ۔ انتخابات میں کامیابی کے لئے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہندو شدت پسندوں کی جانب سے ایک روایت بن چکا ہے ۔ مسلم و دیگر مذہبی اقلیتیں اس بار سخت خوف زدہ رہی کہ اگر نریندر مودی انتخابات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کے لئے مزید مشکلات پیدا ہونگی ۔

امریکی وزیر خارجہ کی اپنی وزرات سے جاری کردہ رپورٹ خود امریکی حکام کے دوہرے معیار کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک جانب تو بھارت میں شدت پسندوں کو لگام دینے کے بجائے خطے میں ایک بار پھر بھارت سے امریکی مفادات کے لئے ہر خلاف ورزی کو بالائے طاق رکھا جارہا ہے ۔ دوئم امریکا بھرپور کوشش کررہا ہے کہ افغانستان میں بھارت اپنی فوجوں کے ساتھ کابل انتظامیہ کا ساتھ دے لیکن بھارت بظاہر گریز کررہا ہے ، حالانکہ بھارت افغانستان میں اپنی بدنام زمانہ دہشت گرد خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ کے ساتھ مل کر افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف وزریوں میں مصروف ہیں ، خاص طور پر پاکستان کے خلاف سازشوں کو انہوں نے مرکز بنا یا ہوا ہے ۔ بھارت افغانستان کے نوجوانوں کی برین واشنگ کے لئے سینکڑوں افغانیوں کو شدت پسندی کی تربیت دے رہا ہے ، شدت پسندی کی تربیت کے لئے راجھستان سمیت جنوبی بھارت میں خصوصی ٹریننگ کیمپ بناکر دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسکالر شپ کی آڑ میں افغانی نوجوان کو بھارت اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہے ، نیز اس کے علاوہ کابل انتظامیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اہم معدنی وسائل کے منصوبے حاصل کرچکا ہے ، امریکا براہ راست افغانستان میں سرمایہ کاری نہیں کررہا لیکن بھارتی کئی کمپنیاں کابل انتظامیہ سے اہم ترقیاتی منصوبوں پر پہلے ہی دستخط کراچکی ہے ۔ پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کے طور پر دریائے کابل پر ڈیم بھی بنایا جارہا ہے جس سے پاکستان کے لئے آبی وسائل میں مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
2017 کو امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نئی دہلی میں قیام کے دوران بھارتی وز یراعظم نریندر مودی اور خاتون وزیر دفاع نرملا سیتا رامن کے ساتھ ملاقاتیں کیں تھی۔امریکی وزیر دفاع بھارت کو اس دورے میں قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ کم از کم 70 ایف سولہ لڑاکا طیارے خریدنے کی حامی بھرے۔ پندرہ بلین ڈالر کی ڈیل امریکی ڈیفنس سیکٹر کی جانب سے بھارت کو خطے میں مزید ہتھیاروں کی دوڑ بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے ۔ بھارت فرانس سے رافیل طیارے کا معاہدہ کرچکا ہے ۔ رواں برس ستمبر میں رافیل طیاروں کی پہلی ڈیل بھارت کے حوالے ہوگی۔ رافیل طیارے میں مبینہ کرپشن و پھر انتخابی جنون میں بھارتی طیارو ں کی پاکستان میں در اندازی کے بعد مگ 21گرائے جانے کے بعد نریندر مودی بھارتی عوام کو قائل کرچکے ہیں کہ بھارت کو مزیدنئے فوجی ساز و سامان و طیاروں کی ضرورت ہے۔ امریکی میڈیا بھی اس حوالے سے اپنے اداریوں میں راہ ہموار کرچکے ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے بھارت کے خطے میں امریکی مفادات کے برخلاف کردار ادا کرنے کے باوجود اب بھی امیدیں وابستہ ہیں کہ بھارت افغانستان میں امریکی مفادات کے لئے کام کرنے کے لئے راضی ہوجائے گا ۔ امریکی انتظامیہ نے متعدد دفاعی معاہدوں میں بھارت کو کئی پرکشش مراعات دینے کی پیش کش بھی کی ہوئی ہے جس میں خاص طور پر ایف 16کی مقامی سطح پر تیاری بھی شامل ہے۔ امریکا بھارت اسٹرٹیجک پارٹنرشپ فورم کے صدر مکیش اگہی کا کہنا ہے کہ’’ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت دفاعی تعاون کو سب سے زیادہ وقعت دیتی ہے اور اس کی وجہ نازک عالمی سکیورٹی صورت حال ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ بھارت اور امریکا افغانستان کی جنگ زدہ صورت حال پر بھی تشویش رکھتے ہیں‘‘۔

امریکی وزرات خارجہ کی جانب سے عالمی مذہبی قوانین کے خلاف ورزی پر بھارت کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے امریکی حکام کا اپنے مفادات کے لئے بھارت کے آگے جھکاؤ خطے میں مزید بے امنی کا سبب بن رہا ہے ۔ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جہا ں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاستی دہشت گردی میں کشمیری نوجوانوں کو شہید نہ کیا جاتا ہو۔ بھارت کے اندر مذہبی اقلیتی اکائیوں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں میں انتخابات کے بعد بھی کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ ایک شرم مناک تحریک بھی شروع ہوئی ہے کہ اگر کوئی ہندو ، کسی مسلمان لڑکی کو ہندو بنا کر شادی کرے گا تو اُسے ڈھائی لاکھ روپے کے علاوہ دیگر مراعات بھی دیں جائیں گی۔ ان حالات میں جبکہ بھارتی لوک سبھا میں 40فیصد ایسے نمائندوں کی نمائندگی ہے جو سنگین جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں ، کروڑوں مسلمانوں کی تعداد کے برعکس لوک سبھا میں مسلمان اراکین کی تعداد تاریخ میں سب سے کم سطح پر ہیں ۔ مسلمانوں کے لئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ بھارت میں مسلم شعائر کی خلاف ورزی معمول بن چکی ہے اور جبری طور پر مسلمانوں کو اپنا مذہب بدلنے کے لئے ہر گھٹیا حربہ استعمال کیا جارہا ہے ۔ امریکی وزرات خارجہ کی رپورٹ خود امریکا کے لئے نوشتہ دیوار ہے کہ جس ملک کے خلاف خود اُن کے ادارے رپورٹ دے رہے ہوں انہیں مزید بے لگام کرنے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی جنوبی ایشیائی ممالک ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 658909 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.