جامعات سے ابھرتے ہوٕئے قابل ابجینٸرز، ڈاکٹرز، فنکار،
علمدان، ہنرمند، الغرض اس دھرتی کے مستقبل کے معمار کے جنکو جناحؒ نے اپنی
ملت کا پاسبان ٹہرا کر اس ملک کی بہتری کےلیۓ کوشاں رہنے اور اپنی تعلیم کے
بلبوتے پر کچھ کر دکھانے کی راہ دکھاٸ آج وہی پاسبانِ ملک و قوم دیارِ غیر
کو اپنا روشن مستقبل سمجھ بیٹھے ہیں. اور پوچھنے پر بیان اس انداز سے کرتے
ہیں کے پردیس ہی دراصل وہ جگہ ہے جہاں ہم اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوۓ
اپنی زندگی کو سنوارنا چاہتے ہیں. حالانکہ ہم تو مشرق سے متعلقہ افراد ہیں،
کہ جنھوں نے مغرب کو دور میں جینے کے آداب سکھاے اور انکو آدابِ شہنشاہی کی
لذت سے آشناٸ دے کر خود پر ہی مسند نشیں کر دیا. جس مشرق نے کٸ سو سال پہلے
مغرب کو اصولِ مجلسِ بر سے روشناس کروایا آج وہی مشرق انھیں ظلمت کا تابندہ
مینار معلوم ہوتا ہے اور وہ دیارِ غیر مشرق کی روشنی کے میناروں کو دیارِ
من دکھاٸ دیتا ہے۔ ہر اوپر و نیچ، اعلی و ادنی، معمولی و اہم، سیاست و فن،
علم و ہنر ، تمام طبقات و شعبات سے تعلق رکھنے والے یہی سب سمجھتے ہیں مگر
پھر جب نقصان اٹھاتے ہیں تو پھر وہی ظلمت کا تابندہ مینارِ مشرق انکی منزلِ
مقصود بن جاتا ہے۔ پر دیس تو آخر پردیس ہوتا ہے جناب جہاں ہر خوشی جو اپنوں
سے دور ہو وہ پھیکی پڑ جاتی ہے، اپنوں کے بغیر ہر رسم پھیکی ہر روایت
ادھوری لگتی ہے، ہر تہوار عجب معمولی لگتا ہے، جب میٹھاس اور خلوص، اپناٸیت
و محبت، رونق اور ریت جب سمندروں پار ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی تو اپنا دیس
بہت یاد آتا ہو جیسے آواز دیکر اپنوں کا خلوص اور روایات بلاتی ہوں، تو بھٸ
صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ ہی آتا ہے۔
|