ابو افنان
اللہ تعالیٰ نے جن جیزوں کی قسم اٹھائی ہے اُن میں ایک وقت بھی ہے۔ وقت
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک گراں قدر نعمت ہے۔
وقت جتنا یہ قیمتی ہے اتنا ہی پگھلتے برف کی طرح آناً فاناً یوں گذرجاتا ہے
کہ بس
صبح ہوئی شام ہوئی
عمر یوں ہی تمام ہوئی۔
ہر صبح وقت ہمیں پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! میں ایک قیمتی
سرمایہ ہوں، تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہے تو کرلے، ورنہ
میں قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ حقیقت یہ ہے دنیا میں ہر خسارے کی تلافی
کی جاسکتی ہے لیکن ضائع کئے ہوئے وقت کی تلافی نہیں کی جاسکتی
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ
الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَ یَعْنِیْه“یعنی آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے یہ
ہے کہ وہ بے فائدہ باتوں کو چھوڑ دے۔
ایک عربی شاعر کہتا ہے:
حياتك أنفاس تعد فكلما مضى نفسٌ انتقصت به جزءا"
یعنی "تیری زندگی چند گنے چنے سانسوں کا نام ہے، ہر گزرے سانس کے ساتھ
زندگی بھی گھٹتی چلی جاتی ہے ۔"
حضرت مولانا عبدالحئی رحمہ اللہ کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ ان کے مطالعہ
کے کمرے کے تین دروازے تھے، ان کے والد بزرگوار نے تینوں دروازوں پر جوتے
رکھوائے تھے تاکہ اگر ضرورت کے لئے باہر جانا پڑے تو جوتے پہننے میں ایک
منٹ بھی ضائع نہ ہو۔خوش قسمت وہ ہے جو وقت کی قدرکرے، منظم طریقے سے
استعمال کرے، اور لمحہ لمحہ کو بیکار اور فضول ضائع ہونے سے بچائے رکھے،
عقلمند نعمت کے چھن جانے سے پہلے ہی اس کے انجام پر نظر رکھتا ہے، تاکہ
حسرت و پچھتاوے کی نوبت ہی نہ آئے، ورنہ بعد میں تو ناداں بھی سمجھ جاتا ہے
کھوتے کھوتے ۔
وقت کی قدر و قیمت جاننے والوں اور اس سے استفادہ کرنے والوں میں ایک ایسے
ہی خوش قسمت ہمارے استاد حضرت مولانا محمد انور غازی صاحب بھی ہیں، حضرت
حافظِ قرآن، ثقہ عالم دین، معروف صحافی اور بالغ نظر و تجربہ کار مصنف ہیں۔
جامعہ دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ اس کے بعد حضرت مفتی رشید
احمد رحمہ اللہ کے ہاں تخصص فی الافتاءکیا۔ کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن
مکمل کرنے کے بعد طلب علم کا سلسلہ ہنوز جاری رکھے ہوئے ہیں۔ درسِ نظامی کی
تدریس سے وابستہ رہے۔ کالج میں اردو ادب بھی پڑھاتے رہے۔ متعدد ممالک کے
سفر بھی کئے اور سفرنامے بھی لکھے۔ انہوں نے صحافت کے میدان میں اہلِ حق
قلم کاروں کا خلا محسوس کرتے ہوئے 2003 میں قلم سے رشتہ جوڑا اور ابھی تک
اس رشتے کو قائم کئے ہوئے ہیں ۔ اللہ ربّ العزت نے خصوصی توفیق اور گوناگوں
خصوصیات سے نوازا ہے، یہی وجہ ہے کہ کوچہ صحافت میں بہت مختصر عرصے میں وہ
شہرت، مقبولیت اور ترقی ملی جو بڑے نصیب والے کو ہی ملتی ہے، محترم اس وقت
روزنامہ جنگ، روزنامہ اسلام، اور دیگر جرائد کے لیے کالم لکھتے ہیں۔ ایک
معاصر اخبارکی ادارتی ٹیم کا بھی حصہ ہیں۔ دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف
ہیں جبکہ کچھ اتنی ہی کتابیں آپ کی زیرِ تکمیل بھی ہیں۔ علاوہ ازیں جامعة
الرشید کے شعبہ صحافت کے استاذ بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لکھنے لکھانے کا
خصوصی ذوق عطا فرمایا ہے تو اُمت کے مسائل کے لیے تڑپتا دل بھی عطا کیا ہے۔
سہل نگاری، شستہ نویسی اور حکایتی انداز تحریر کی وجہ سے شائقینِ مطالعہ
میں بے حد مقبول ہیں۔ آپ کی کتابوں پر تقریظ لکھنے والوں اور آپ کے اندازِ
تحریر کو پسند کرنے والوں میں عطاءالحق قاسمی، عرفان صدیقی، مفتی ابولبابہ
شاہ منصور، حامد میر، جاوید چوہدری، اوریا مقبول جان، پروفیسر متین الرحمن
مرتضیٰ ، مولانا اسلم شیخوپوری رحمہ اللہ اور سیّد عدنان کاکاخیل جیسے
ماہرین فن اور مستند قلم کار شامل ہیں۔
اتنے بڑے لکھاریوں کی گواہی کے باوجود اگر آپ کو قلم کا غازی نہ کہا جائے
تو بڑی بے انصافی ہوگی۔
یوں تو آپ کی کئ تحریریں اور کالم میں نے پڑھے تھے لیکن ان کے قلم کے
شہسوار ہونے کا پتہ تب چلا جب آپ کی دید، شنید سے کہیں بہتر ثابت ہوئی ،
زیارت سے پہلے حاشیہ خیال میں کوئی ساٹھ پینسٹھ کا سفید ریش بابا بیٹھا ہوا
تھا لیکن ملاقات پر آپ چالیس بیالیس کے مردِ میدان نکلے، یعنی عمر میں جوان
اور لکھنے میں شیخ ، عمر کا یہ اندازہ ہم نے خود اپنی ایکسپیرینس کے بل
بوتے پر لگایا ہے، ٹھیٹھ عمر معلوم کرنے کی جسارت اس لئے نہیں کی کہ ہمارے
بعض علماء پر بنات کے مدرسے میں پڑھاتے پڑھاتے نسوانی سایہ سا پڑ جاتا ہے،
ان سے سفید ریش کے بارے میں پوچھے تو حوادثِ زمانہ کے متاثرین کِہکر بات کو
ٹال دیتے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے کوئی آنٹی خود کو آنٹی کہلانا پسند نہیں
کرتی یا جیسے ہمارے کپتان خود کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہلائے جانے پر آگ بگولہ
ہو جاتے ہیں، آپ کے بال اگر چہ کالے تھے لیکن بالوں کی سیاہی کے نیچرل ہونے
کا ثبوت ہمارے پاس بھی نہیں تھا سو پردے کو پردہ میں رہنے دینے میں ہی
عافیت سمجھی۔
غازی صاحب کو بطورِ استاد قبول کرنے سے پہلے پچھلے دنوں ہم نے ان کی طرف
فیس بک پر دوستی کا ہاتھ بڑھایا جو انہوں نے واٹس ایپ کے ذریعے کمالِ شفقت
سے تھام لیا، شاگرد بننے سے پہلے ان سے دوستی رچانے کی شرارت ہمیں اس لئے
سوجھی کی بعد میں ان کی طرف سے کسی قسم کی سرزنش اور تادیبی کاروائی سے
محفوظ رہ سکیں۔
چند دن پہلے آپ متحدہ عرب امارات تشریف لائے، ان کے میزبان شاگرد نے پہلے
سے ہی آپ کے لئے شارجہ سٹی ہوٹل میں رہائش کا انتظام کیا ہوا تھا، چودہ جون
2019 کو میں نے جمعہ پڑھاکر حضرت کی خدمت میں حاضری دی، بعد ازاں انہوں نے
ضیافت قبول کر کے ہمارے غریب خانے کو اپنے وجود انور سے رونق بخشی۔ دوپہر
کے کھانے کے بعد ہم نے ڈرائیور بن کر انہیں مختلف سیاحتی مقامات کی سیر
کرائی، آپ کا تعلق چونکہ مال و زر سے نہیں بلکہ علم اور اہلِ علم سے ہے اور
اس سے پہلے ہم نے آپ کو کبھی کرپٹ شخص کِہکر طعنہ بھی نہیں دیا تھا اسلئے
آپ کے ڈرائیور بننے میں ذرا بھی شرم نہیں آئی، جی ہاں تول کر بولنے سے
انسان کو بعد میں پچھتاوا نہیں ہو تا ، جناب چشمکِ اول پہ یوں محسوس ہوئے
کہ بڑی مدت سے ہے جیسے ان سے یارانہ اپنا، وہ میرے لئے اجنبی تھے لیکن لگتے
تھے آشنا سا، دوستی میں امپورٹنٹ چیز مزاج کی ہم آہنگی ہوتی ہے اور وہ ہم
دونوں نے دل ہی دل میں محسوس کی تھی ، جس کا اظہار بعد میں دونوں طرف سے
کیا گیا، بے تکلفی کو اگر آپ کا وصفِ امتیاز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
چھوٹی عمر میں بڑا کام کرنے والوں میں آپ سادگی اور بے تکلفی جیسی صفات کو
ضرور پائیں گے، تکلف، تصنع اور بناوٹ تو خود وقت کے متقاضی ہوتے ہیں، آپ کے
پاس فرائض کے انجام دہی کے لئے کیا وقت بچے گا، پُرتکلف مہمان بعض اوقات
تکلیف کا باعث بنتا ہے جبکہ بے تکلف مہمان باعثِ رحمت ہوتا ہے، ہمارے ممدوح
نے لطائف بالغاں بھی وافر مقدار میں ذخیرہ کئے ہوئے ہیں، جن کے ذریعہ آپ
وقتاً فوقتاً ہم نشینوں کی بوریت دور فرما دیتے ہیں۔
نسبتاً لمبے سے سیاحتی سفر میں انہوں نے اپنی جذبہ آفریں گفتگو سے ہمارے
بجھے جذبے کو جلا بخشی، بےجان جانوں میں نئ روح پھونکی، لکھنے پڑھنے کے
میدان میں نئی سمت عطاء کی، دلجمعی، شوق، مستقل مزاجی کا درس دیا اور تحقیق
و مطالعے کے گلستاں کی سیر کرنے کی دعوت دی۔آج جبکہ کہ ہمارے نو جوانوں کا
کتابوں سے رشتہ ٹوٹتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے، علم، مطالعہ، کتاب اور تحقیق
سے دوری بڑھ رہی ہے۔ نئی جنریشن نے فیس بک، واٹس ایپ کو ہی سب کچھ سمجھ لیا
ہے۔ آج کے نوجوان کئی کئی گھنٹے فیس بک ، واٹس ایپ اور ٹویٹر وغیرہ پر فضول
ویڈیوز، فلمیں ،ڈرامے، بکواسات پر مبنی پوسٹیں، اپنے لیڈر کے گُن گانے اور
مخالف کی چھترول کرنے میں گزار لیتے ہیں لیکن چوبیس گھنٹوں میں ایک گھنٹہ
کتاب کو دینا گوارا نہیں کرتے، لکھنے پڑھنے کی سطح ان کی دو سطر کی تحریر
سے ہی معلوم ہوجاتی ہے، ایسے حالات میں وہ شخص کتنا مبارک ہے جو اپنے وطن
کے ویہلے نوجوانوں کو سنبھلنے کا ہنر سکھائے، ان کے ہاتھوں سے گرے ہوئے قلم
کو دوبارہ ان کی انگلیوں میں پکڑائے اور ان کا از سرنو کتاب سے رشتہ جوڑے۔
###
|