نئی نئی ایجادات کی بدولت اب دنیا بدل چکی ہے۔ وہ روبوٹ
جو پہلے کہیں صرف فلموں میں کام کرتے نظر آتے تھے اب حقیقی دنیا میں بھی
انسان کے مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
|
|
یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے تین طلبا نے اپنے تعلیمی
کیریئر کا اختتام ایک ایسے روبوٹ کی تیاری پر کیا ہے جو بقول ان کے
پاکستانی صنعتوں میں ایک نیا انقلاب برپا کر سکتا ہے۔
ورچول ریئلٹی اور آگمینٹیڈ ریئلٹی گیمز کے ملاپ سے ان طلبا نے اپنے تھیسس
کے لیے ایک ایسا روبوٹ ڈیزائن کیا ہے جسے ورچوئل ریئلٹی کی مدد سے کنٹرول
کر کے روزمرہ اور بھاری صنعتوں میں ہونے والے کاموں میں مدد لی جا سکتی ہے۔
اس روبوٹ میں الگ کیا ہے؟
'ٹیلی روبوٹک سسٹم فار پاتھ پلاننگ' کے استعمال سے بھاری صنعتوں میں ایسے
کام سرانجام دیے جا سکتے ہیں جو انسان کے لیے مشکل ہیں۔ ان میں بھاری سامان
کی منتقلی، بڑے پیمانے پر ویلڈنگ کا کام یا پھر چیزوں کی کٹائی بھی شامل ہے۔
مگر یہ کام تو روبوٹس ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں پہلے سے ہی کر
رہے ہیں تو اس روبوٹ میں نئی بات کیا ہے؟
روبوٹ بنانے والے طلبا میں شامل عبداللہ ہمایوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'روبوٹکس
اور ورچول ریئلٹی کو یکجا کرنے کا کام بہت کم ممالک ہو رہا ہے۔'
اس روبوٹ کو وہ ورچول ریئلٹی کی مدد سے کام کرنا سکھاتے ہیں اور پھر وہ
بغیر کسی انسانی مدد کے متعدد بار وہی کام سر انجام دیتا ہے۔
ان کے مطابق ’پاکستان میں پہلی بار ایسے روبوٹس کو استعمال میں لایا جا رہا
ہے۔ جہاں ان مشینوں کے نزدیک جائے بغیر دور سے ہی کمپیوٹر گیم کی طرح انھیں
کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔‘
یہ سب کیسے ممکن ہے؟
عبداللہ ہمایوں کے مطابق ایک طرف تو اصل روبوٹ ہے جس نے صنعتوں میں کام
کرنا ہے اور دوسری طرف اسی روبوٹ کی ہی نقل تھری ڈی سافٹ ویئر میں کمپیوٹر
میں بنائی جاتی ہے۔
’اس کی پروگرامنگ اس طرح کی جاتی ہے کہ کمپیوٹر میں جس طرح بھی اس ماڈل کو
حرکت دی جائے اصل روبوٹ بھی اسی طرح کی حرکت کرتا ہے۔‘
|
|
ان کے مطابق اس کام کو مزید آسان بنانے کے لیے ورچول ریئلٹی یعنی ایک گیمنگ
کی دنیا میں لے جا کر اور اسے 'وی آر گوگلز' یا سادہ لفظوں میں ایک چشمہ
پہن کر تھری ڈی دنیا میں کنٹرولر کے ذریعے اس روبوٹ کو کنٹرول کیا جا سکتا
ہے۔‘
کیا یہ روبوٹ عام مزدوروں کا روزگار چھین سکتا ہے؟
بھاری صنعتوں میں جہاں یہ روبوٹ لوگوں کی زندگیاں آسان کرے گا، وہیں کیا یہ
روبوٹ عام لوگوں کی نوکریوں پر بھی اثر انداز ہوگا جو مختلف صنعتوں میں
برسر روزگار ہیں؟
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس روبوٹ کو ڈیزائن کرنے والوں میں
سے ایک طالبعلم ارمغان سرور نے بتایا کہ 'لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ روبوٹ
انسانوں کی جگہ لے لیں گے۔‘
ان کے مطابق تیسرے صنعتی انقلاب تک تمام روبوٹس نے انسانوں کی جگہ لے لینی
تھیں مگر چوتھے صنعتی انقلاب میں یہ ہے کہ اب سائبر فزیکل نیٹ ورک میں
انسانوں کی ذہانت استعمال کرتے ہوئے روبوٹ سے مشقت لی جاتی ہے۔'
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ جو ایک خاص تعلیم رکھتے ہیں وہی ان روبوٹ کو
استعمال کر سکیں گے مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس سے ایک عام مزدور
کی زندگی کتنی متاثر ہو گی تو اس کا دارومدار پاکستانی صنعتوں میں ایسے
روبوٹس کے استعمال کی شرح پر رہے گا۔
’کم سے کم انسانی مدد سے مشینوں کی رہنمائی‘
روبوٹس کے انسانی کارکنوں کی جگہ لینے کے معاملے کو سمجھنے کے لیے پہلے
مختلف صنعتی انقلابات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پہلا صنعتی انقلاب 18 ویں صدی کے آخر سے 19 ویں صدی کے آغاز تک رہا جس میں
بھاپ کے انجن کی ایجاد ہوئی اور اس انجن نے مختلف شعبہ جاتِ زندگی میں
لوگوں کا کام آسان کیا۔
|
|
دوسرے صنعتی انقلاب میں توانائی کے مختلف ایجادات مثلاً بجلی، گیس اور تیل
نے لوگوں کے لیے مزید آسانیاں پیدا کیں جبکہ تیسرے صنعتی انقلاب میں
کمپیوٹر اور مشینوں کے ایجادات نے مختلف شعبہ جات زندگی میں اپنی جگہ بنا
لی۔
اس میں مشینوں نے لوگوں کی جگہ لے لی مگر پھر بھی انھیں کام کرنے کے لیے
انسانی مدد کی ضرورت پڑتی تھی تاہم اب چوتھے صنعتی انقلاب میں مشینوں نے اب
انسانوں کے مدد پر انحصار کرنا تقریباً چھوڑ دیا ہے۔
اس میں اب مشینوں کو کم سے کم انسانی مدد سے صرف راستہ دکھایا جاتا ہے۔
یہ سب تو وقت ہی ثابت کرے گا کہ کیا روبوٹ انسانوں کی جگہ لے لے گا یا پھر
اس کی کارکردگی میں انسانوں کا عمل دخل رہے گا تاہم ارمغان اور ان کی ٹیم
فی الحال اس بات سے بہت مطمئن اور خوش نظر آ رہی ہے کہ ان کا یہ روبوٹ
پاکستان میں مختلف صنعتوں میں مشکل کام بہت آسانی سے کر سکے گا۔
|