پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے آج تقریباً 72 سال کا
ایک طویل عرصہ بیت چکا ہے لیکن ہمارے مادر وطن میں رہنے والے عام آدمی کی
حالت جوں کی توں ہے اور اسمیں کوئی بہتری نظر نہیں آتی آنے والی ہر حکومت
خواہ وہ عوام کے ووٹوں سے بر سر اقتدار آئی ہو یا پھر طاقت کے زور پر وہ اس
ملک میں رہنے والے ایک عام اور غریب آدمی کیلئے خواہ وہ صحت کا میدان ہو یا
تعلیم کا صرف اور صرف جھوٹے وعدوں اور طفل تسلیوں سے دلاسے کے علاوہ اور
کچھ بھی نہ کرسکی اور وہ اپنی بنیادی ضروریات خاص طور پر صحت اور تعلیم کے
مسائل سے دوچارہے جہاں تک صحت کا تعلق ہے تو اس بنیادی ضرورت کو ہمارے ملک
کے جھوٹے مسیحاؤں نے ہائی جیک کر رکھا ہے اور انہوں نے ہسپتالوں میں لوٹ
مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اور انہیں قصاب خانوں میں تبدیل کر کے رکھ دیا
ہے اور غریب آدمی صحت جیسی بنیادی ضرورت سے محروم مختلف بیماریوں کی بھینٹ
چڑھ کر ڈاکٹروں کے بے توجہی کا شکار ہے اور روز بروز موت کی طرف بڑھ رہا
ہے۔ اور اسطرح آنے والی نسل پیدائشی طور پر لاغر پن اور مختلف بیماریوں کا
شکار ہوگی۔ دوسرا اہم بنیادی عنصر تعلیم کا ہے جو دہرے پن کی بھینٹ چڑھ کر
ایک عام آدمی کو جہالت کے اندھیروں کی طرف لیجا رہا ہے۔ ایک عام آدمی اور
ائر کندیشنڈ بنگلوں میں رہنے والے بچوں کے میعار تعلیم میں زمیں آسمان کا
فرق ہے ہر آنے والی حکومت تعلیم کا دھنڈورا پیٹتی ہے ۔یونیسکو سے تعلیم کے
نام پر فنڈز اکٹھے کئے جاتے ہیں مگر تاحال اسکولوں کی حالت زار جوں کی توں
ہے اور ٹاٹ کلچر سے تاحال چھٹکارا نہیں پایا جا سکا نہ جانے یونیسکو سے
تعلیم کے نام پر بٹورے جانے والے فنڈز کہاں جاتے ہیں اصل میں تعلیم کے مقدس
نام پر اربوں روپیہ خواہ وہ یونیسکو سے بٹورا جاتا ہے یا پھر اپنے ہی ملک
کے خزانے سے حاصل کیا جاتا ہے سیاستادانوں اور بیوروکریٹس کے اللوں تللوں
میں اڑ جاتا ہے۔ سیاستدان اور اور بیوروکریٹس جنکے بچے بیرون ملک تعلیم
حاصل کر رہے ہو ں بھلا انہیں ٹاٹ پر بیٹھنے والے غریب بچے سے کیا سروکار ۔
ائرکنڈیشنڈ بنگلوں اور دفاتر میں بیٹھ کر غریب عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرنے
والے کبھی بھی انکے مسائل سے واقف نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ تمام مسائل تو
غریب کے ہیں بھلا جنکے بچے انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں
انہیں کیا معلوم کہ غریب کا بچہ درسی کتابیں اور کاپیاں کیسے خریدتا ہوگا
جنکو دو وقت کی روٹی میسر نہ ہووہ بھلا اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کا کیسے
سوچ سکتا ہے بھوک افلاس اور بیماری جیسے افریت ذدہ غریب عوام جنکے بچے صبح
ہی صبح اپنے اور اپنے بہن بھائیوں کیلئے فلتھ ڈپوؤں سے اور گند گی کے
ڈھیروں سے اور کوڑے کرکٹ میں سے ردی اور کاغزات اکٹھے کرکے اپنی روٹی کی
فکر میں لگے ہوں بھلا انہیں تعلیم سے کیا غرض۔ یا پھر ہوٹلوں میں بیراگیری
کرنے والے فاقہ ذدہ بچے اور ورکشاپوں میں چھوٹے کے روپ میں دن بھر مادر زاد
گالیاں کھاکر اور اپنے جسم پر ظلم و ستم سہہ کر ورکشاپ کے مالک کی روٹی اور
چائے ڈھو نے میں مصروف رہتے ہیں اور انکی جنسی بلیک میلنگ کا سامنا کرکے
شام کو بیس یا تیس روپے لاکر اپنے غریب والدین اور اپنے بہن بھائیوں کی
روٹی کا سہارا بنتے ہیں ائر کنڈیشنڈ بنگلوں میں بیٹھ کر غریب کی حالت کو
بدلنے کے دعوے تو کر سکتے ہیں عملی طور پر انکے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے
کیونکہ ــ ’’ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات‘‘ـ ہماری موجودہ حکومت بھی
ہر حکومت کیطرح آئے دن تعلیم کے میدان میں انقلابی اقدامات اٹھانے کیلئے
مختلف قسم کے اعلانات کر تی رہتی ہے اور پرائمری تک گھر گھر تعلیم پہنچانے
کیلئے مختلف قسم کی منصوبہ بندیاں بھی کی جارہی ہیں اسمیں عملی اقدمات بھی
اٹھائے جا رہے ہیں لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح منظم
طریقے سے دواساز کمپنیوں نے ہمارے ملک کے ڈاکٹروں کو مختلف طریقے سے خرید
کر صحت کا بیڑہ غرق کیا ہے اسی طرح سے تعلیمی اداروں میں بھی کچھ کالی
بھیڑیں ہیں جو حکومت کے احسن اقدامات کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں اور انہوں
نے انتہائی منظم طریقے سے تعلیمی اداروں میں اپنے جال پھیلا کر اسکول کے
منتظمیں اور محکمہ تعلیم کے ارباب اختیارجنمیں ضلعی سطح پر محکمہ ایجوکیشن
کے ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسران اور صوبائی سطح پر ڈائریکٹرپبلک انسٹرکشن
ایجوکیشن شامل ہیں کو مختلف قسم کے ماڈل ٹیسٹ پیپرز کی اشاعت کرنے والے اور
اسی طرح دوسری گائیڈز جو اردو، انگلش، اسلامیات،معاشرتی علوم ، سائینس اور
ریاضی جیسے مضامین پر مشتمل ہیں کے شائع کرنے والوں نے مختلف قسم کے لالچ
اور کشش پیدا کر کے خرید لیا ہے اور محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار ضلعی سطح
اور اسی طرح صوبائی سطح پر ان سے بھاری رقوم لیکر انکی شائع کردہ گائیڈز ،
ماڈل پیپرز، اور ٹیست پیپرز کو اسکولوں میں متعارف کرواکر غریب طلباء اور
انکے والدین پر ایک اضافی بوجھ کا باعث بن رہے ہیں۔ جبکہ ان غریبوں کیلئے
پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی کتابیں خریدنا بھی ایک بہت بڑا مسلۂ ہے کیونکہ طلباء
کو زبردستی ڈرا دھمکا کر اور مار پیٹ کر یہ ماڈل ٹیسٹ پیپرز اور گائیڈز
خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے اگر وہ نہ خریدیں تو انہیں کلاس سے باہر کر
دیا جاتا ہے۔ جو ارباب اختیار کیلئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ اسی طرح آجکل
مارکیٹ میں کرن پبلی کیشن کے نام سے ماڈل پیپرز پر مشتمل ایک کتاب شائع کی
گئی ہے جسکے ایک طرف جلی حروف میں ’’ محکمہ تعلیم حکومت پنجاب‘‘ اور دوسری
طرف ’’ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر ایجوکیشن ‘‘ کے الفاظ درج ہیں جو غریب عوام
طلباء کو دھوکہ دینے کیلئے لکھا گیا ہے۔ اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی
ہے کہ یہ محکمہ تعلیم پنجاب سے منظور شدہ ہے ۔ ان تمام کتابوں کی قیمت جن
میں معروضی گائڈ، کرن گائڈ اور کرن ماڈل پیپرز اور اسی طرح ٹیسٹ پیپرز شامل
ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق ملا جلا کر 380 روپے سے 450 روپے بنتی ہے ۔
ان تمام کتابوں کو ضلعی سطح پر اور صوبائی سطح پر محکمہ تعلیم کے ارباب
اختیار اور اسکولوں کے اساتذہ سے ملی بھگت کرکے انہیں انکی ایک ایک کاپی
مفت تقسیم کی گئی ہے جسکے عوض انہیں بھاری کمیشن سے نوازا جا رہا ہے اور اس
چیز کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ انہیں زبر دستی طلباء پر لاگو کیا جائے۔ یہ
بات قابل مذمت ہے کیونکہ ایک سازش کے تحت حکومت کو فیل کرنے کیلئے اور
تعلیمی میدان میں اسکی کاوشوں کو روکنے اور طلباء کے مستقبل کو تباہ کرنے
اور مذموم مقاصد حاصل کرنے اور غریب طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے اور لوٹ
مار کا بازار گرم کرنے کی ایک منظم کوشش اور سازش ہے ۔ حکومتی اداروں اور
ضلعی حکومتوں کو چاہئے کہ ایسے لوگوں پر نگاہ رکھے جو تعلیمی اداروں میں
گھس کر تعلیم جیسے مقدس مقصد کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ یہ ایک ایسی وباء
ہے جو انتہائی رفتار سے تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور اسکے
بارے میں انتہائی سنجیدگی سے غور و فکر اور اسکی روک تھام کیلئے بلا تاخیر
موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اگر یہ زہر اسی رفتار سے تعلیمی اداروں
میں پھیلتا رہا اور پروان چڑھتا رہا تو گھر گھر تعلیمی میدان میں پیچھے رہ
جائیگا اور اساتذہ ذہنی طور پر اپاہج ہو کر محنت کرنے کے قابل نہ رہینگے۔
اور یہ وبا ہمارے تعلیمی اداروں اور وہاں پر تعلیم حاصل کرنے والے طلباء
کیلئے وبال جان بن جائیگی۔ خدارا اگر اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے تو اسکے
لئے از سر نو منصوبہ بندی کی جائے اور جلد از جلد ایسے لوگوں کا محاسبہ
کرکے انہیں فی الفور کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور غریب طلباء کو ایک
منظم سازش کے تحت لوٹنے والے اس گروہ کو جو زبر دستی غریب پر اضافی بوجھ
ڈال کر انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے میں آڑے آرہا ہے سخت سے سخت سزا
دے کر انہیں انکی ملازمت سے برخواست کیا جائے۔ وزیر تعلیم پنجاب اور محتسب
اعلیٰ پنجاب لاہور سے گزارش ہے کہ جلد از جلد ذاتی طور پر مداخلت کرکے
تعلیمی اداروں کے تقدس کو اور انمیں تعلیم حاصل کرنے والے غریب طلباء کو اس
دھشت گرد مافیاء سے بچایا جائے جو اساتذہ کو مختلف قسم کا کمیشن لالچ دیکر
طلباء کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔ امید ہے میرے اس مضمون کی اشاعت کے بعد
فوری طور پر تعلیم کو ہائی جیک کرنے والے دھشت گرد مافیا کے خلاف جلد از
جلد سخت اقدام اٹھایا جائیگا۔
|