جس دور سے ہم گزر رہے ہیں سا نس لے رہے ہیں معا شرے کی
ستم ظریفیوں سے نپٹ رہے ہیں حا لات کے مطا بق ہم نے اپنے آ پکو اس کے لیے
تیا ر کر لیا ہے کچھ ہنستے گزر گئی اور کچھ گزر جا ئے گی۔ اگر چہ حا لات
بدل رہے ہیں ،یہ کہنا ہے ہمارے سیاستدانوں کا ۔ لیکن رگو ں میں پرا نے وقتو
ں کا خون گر دش کر رہا ہے ۔ ہماری شخصیتو ں میں انسانی قدروں کی کچھ رمق با
قی ہے کیو نکہ ہمارے اسلا ف ہمارے بزرگو ں کی تعلیم اور انکی خوداری اور بے
نیازی کے جو ہر کی ہوا ہماری رگ جا ن میں محو گر دش ہے ۔ اس لیے ہم اچھا ئی
اور برا ئی کو سمجھنے کی عقل تو رکھتے ہیں اور حتیٰ الواسع کو شش بھی کر تے
ہیں ۔کہ بری عا دت سے کنارہ کشی کی جا ئے جب کو ئی نیا خطرہ جنم لیتا ہے تو
ہم ایک دم چونکتے ہیں ۔ انسان خلاق عا لم کی ایک نادر مخلو ق ہے ۔ یو ں تو
کا ئنات کے ذرے ذرے کو عدم سے وجود میں لا نے کیلئے کا ر ساز ازل نے جس
صناعی جس کاریگری اور جس قدرت کا اظہار کیا ہے ۔ ہماری زبا نیں گنگ ہیں ۔
لیکن جس مہارت سے انسانیت کو ترا شا گیا ہے۔ وہ اپنی مثا ل آ پ ہے ۔ کہ رب
العزت نے عا لم کی تمام اشیا ء کو حلق کر کے انسانیت کا مطلع بنا دیا ۔ مگر
انسان کو اپنی یا د کیلئے وقف کیا اور اختیار کی اس منزل پر فا ئز کیا ۔
جہا ں جا تے ہو ئے فر شتو ں کے پر جلتے ہیں ۔ کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے
۔ کہ انسان اپنی وجہ اخلاقیات کو بھول جا ئے اور ان افکار کی دنیا میں اسیر
ہو جا ئے ۔ جہا ں سے کفر و شرک کی را ئیں نکلتی ہیں ۔ اس عالم رنگ و بو کو
انسانی تصرف کے زیر نگیں پیدا کیا ۔ اور انسان کو اس محفل میں اس طرح سجا
کر بیٹھایا جیسے برات کا دولہا یا ستا رو ں کے ہجوم میں چا ند لیکن انسانی
خبا ثت نفس کا کیا علا ج ؟اس نے علم و عمل کی را ہ ٹھکرا کر خود غرضی اور
بد عہدی کے راستے اختیا ر کیے ۔ جسم و رو ح کی طہارت ، انسانی وقار کا سر
ما یہ تھا ۔ اور صورت حا ل کی نزا کت کو دیکھئے کہ جہاں انسان اپنے اصلی
روپ میں کم دکھا ئی دیتا ہے ۔ اوراس کے بر عکس اس کے برے سائے کا ئنات کو
اپنی لپیٹ میں لیے ہو ئے تا ریکی کے عمیق غار کی طرف کشاں کشا ں چلے جا رہے
ہیں آ ج دنیا جس تبا ہی اور تا ریکی کی طر ف قدم بڑھا رہی ہے ۔ اس کا صحیح
اندازہ تو آ نے وا لی نسلیں کریں گی ۔ لیکن اس دور میں انسان کے ہا تھو ں
جو کچھ انسان پر بیت رہی ہے ۔ اگر اسکا صحیح تجزیہ کیا جا ئے ۔ تو یہ حقیقت
واضح ہو تی ہے کہ آ ج کا انسان اپنی فکری صلاحیت اور سلامت روی کے اعتبار
سے ارتقا کی اس منزل پر نہیں ہے ۔ جہا ں اسے ہونا چا ہیے تھا ۔ اسے عا لم
پیدا کیا ۔ اس نے کا ئنات میں جہل کے قدم قدم پر گھروندے بنا لیے ۔ اسے
معیار حسن و شرا فت کا پتلا بنا کر بھیجا ۔ لیکن اس نے اپنے مذموم اور
ناپاک ارادوں سے روح بشری کو کچل ڈالا ۔ اور اس نے کارگاہ عالم میں ایسے
ایسے گل کھلا ئے کہ آ ج دنیا اسی کے سا ئے سے بھا گتی ہے ۔ انسان تو رہ گئے
۔ مگر شرا فت انسانی کا دیوا لیہ نکل گیا ہے۔ آ دمی تو بقید حیات ہیں لیکن
آ دمیت کی رو ح مردہ ہو چکی ہے ۔ انسانی دلو ں سے انسان کا وقار معاشرے کی
محبت اور رب العزت کا خوف دور ہو چکا ہے ۔ تو ایسی صورت میں اخترا عا ت اور
ایجادات بقائے نسل انسانی کی ضامن نہیں ہو سکتیں ۔ بلکہ کا ئنات کی تبا ہی
اور بر بادی کی مو جب بنتی ہیں ۔ یہ کو ن سے انسان نما شیطا ن جس کی پگڑی
چا ہتے ہیں ،اچھالتے ہیں ۔ جسکی حرمت چا ہتے ہیں بگا ڑتے ہیں ۔جسکی روزی
عصمت پر چا ہتے ہیں ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔ اور جسکی روزی چا ہتے ہیں تنگ کر دیتے
ہیں اور ان سے انسانیت کے نام پر کو ئی اتنا بھی نہیں پو چھتا کہ تمھارے اس
فعل نے سو سا ئٹی میں جو بد نظمی ، بد عہدی اور بد کرداری کے بیج پو ئے ہیں
۔ ان کے ااثرات تا ریک مہیب اور بھیانک ہو نے اور اگر یہ مذموم نہ روش نو
رکی تو کو ئی نہیں کہہ سکتا کہ آنے وا لے دور میں انسان رہیں گے یا ان کے
بھانک سا ئے دنیا کو بہلا تے رہیں گے ۔
|