نہیں ہے کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے
قارئین !, آج کل ہمارے نام نہاد ریڈیو کے آرجے اور ڈی جے کی اکثر یت نے جو
اُردو کا جنازہ اُٹھایا ہوا ہے اس پر راقم السطور آج اُردو پر بات کرنا چاہ
رہاہے تاکہ اس کو سوتیلی زبان قرار دے کردفن کرنے کی کوشش کرنے والوں کو
کچھ سمجھایا جائے کہ اُردو کے ساتھ ایسا نہ کریں ،اگرآپ کو بولنا نہیں آتی
تو آجائے گی مگر انگریزی اور اُردو ملا کر اس کے ساتھ زیادتی کی کوشش نہ
کریں کیونکہ اس ملک کی بنیاد اس زبان کو بھی کسی حد تک قرار دے سکتے ہیں کہ
ایک آزاد ملک کا پیغام اسی زبان کی وساطت سے برصغیر کے طول و عرض میں گیا
تھا۔جب اس ملک کی پہچان ہی یہ زبان ہے تو پھرآپ اس کے بگاڑ کی وجہ نہ بنیں۔
پاکستان میں لگ بھگ ایک اندازے کے مطابق اُردو کو دس فیصدکے لگ بھگ لوگ
بطور مادری زبان کے بولتے ہیں مگر بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد ان گنت
ہے۔ جبکہ بھار ت میں لگ بھگ پانچ فیصد کے قریب لوگ اُردو بولتے ہیں،ہ چھے
ریاستوں میں اُردو کو دفتری زبان کا درجہ بھی حاصل ہے ،دوسری طرف اُردو
پاکستان میں پانچویں بڑی زبان ہے مگر دفتری امورسرانجام دینے میں انگریزی
سرفہرست ہے اُس کے بعد اُردو کا نمبر آتا ہے ۔قیام پاکستان سے قبل بھی
اُردو کو انگریزوں نے دفتری زبان کے طور پر نافذ کیا ہوا تھا مگر قیام
پاکستان کے بعد سے بدقسمتی سے یہاں یہ مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکی
ہے۔قیام پاکستان سے ہمارے ملک کو بہت سے اندورنی اور بیرونی مسائل کا سامنا
کرنا پڑ رہا ہے، ہر آنے والا دن مزید مشکلات لے کر آ رہا ہے مگر ان برسوں
میں جب سے پاکستان کا قیام وجو د میں آیا ہے دوطرح کے مسئلے روز اول سے حل
طلب ہیں ،ایک تو اس خطہ ارض پاک کے لئے اسلامی یا جمہوری نظام حکومت کا
انتخاب اور دوسرا سرکاری زبان کون سی زبان کو تصور کیا جائے ۔اسی زبان کے
مسئلے کی وجہ سے ہم اپنے ایک بازو کو بھی کھو بیٹھے ہیں مگر اب تک یہ مسئلہ
جوں کا توں برقرار ہے۔آج بھی ہمارے ہاں انگریزی کو ہی سرکاری زبان کا درجہ
حاصل ہے اور اُردو کو محض رسمی طور پر دفتری مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا
ہے۔جتنے بھی مراسلات جات اور حکمنامے جاری کئے جاتے ہیں وہ انگریزی میں
ہوتے ہیں یہاں یہ امر بھی دلچسپی رکھتا ہے کہ اُردو کے نافذ کے لئے ہمیشہ
سے مراسلہ بھی انگریزی میں لکھا جاتا ہے جو کہ اُردو سے محبت کرنے والوں کے
لئے کسی المناک عمل نہیں ہے۔مگر حکام بالا پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے کہ
یہاں پر محض کہہ دیا جاتا ہے کہ عمل کریں اور کوئی عمل نہ کرے تو پھر اُس
پر کوئی جواب طلبی نہیں کی جاتا ہے۔متعلقہ حکام کی جواب طلبی کے حوالے سے
اور تاخیر سے کاروائی کرنے پر قانون سازی کی جائے تاکہ قصور وار کو
پکڑاجائے۔
قارئین !دوسری طرف ہماری قابلیت اس قدر ہے کہ آج کسی بھی پڑھے لکھے فرد سے
اُردو میں نوکر ی کے حصول کے لئے درخواست لکھوانا بھی کسی جوئے شیر لانے سے
کم نہیں ہے ،مگر پھر کہا یہ جاتاہے کہ اس ملک میں نوکریاں نہیں ملتی ہیں
بنا سفارش کے ، مگر جناب آپ کے پاس اتنی صلاحیت تو ہونی چاہیے کہ آپ کم سے
کم اپنے ضرورت کے مطابق توکچھ لکھ سکیں یہ اُس وقت ہی ممکن ہو سکے گا جب آپ
قومی زبان میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ دوسری طرف یہ بات بھی قابل غور ہے کہ
سرکاری اداروں میں کم ہی افسران انگریزی میں اتنی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ
کچھ خود سے تحریر کر سکیں یا فی البدیہہ اظہار کرسکیں۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ
اُردو کے نافذ کی طرف جائیں تاکہ ہر ایک کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام تو
سمجھ آئے اور اپنے امور بروقت اور درست طور پر سمجھ سکے۔دفتری اُردو کے
حوالے اگرچہ علامہ اقبال اوپن یورنیورسٹی تعلیم دے رہی ہے مگر اس کی ترویج
کے لئے حکومت سنجیدہ کوششیں نہیں کر رہی ہے اس کی طرف بھر پور توجہ دینے کی
ضرورت ہے۔
بچوں کو اگر تعلیم قومی زبان میں دی جائے تو وہ بہت کچھ جلدی سے سمجھ سکتے
ہیں اور اس میں آسانی کی بدولت اپنی صلاحیتوں کو منوا بھی سکتے ہیں۔اگرچہ
سرکاری ادراوں میں پڑھنے والے بچے کسی طور پربھی اُردو پڑھ کر بھی بدیسی
زبان میں پڑھنے والوں سے کم قابل نہیں ہوتے ہیں مگر یہاں محض انا کا مسئلہ
بنا کرپاکستان کے مستقبل سے کھیلا جا رہا ہے تاکہ کوئی آگے نہ بڑھ سکے۔بہت
عرصہ بعد اب جا کر مقابلے کے امتحانات کو اُردو میں لئے جانے کا فیصلہ ہو ا
ہے ۔راقم السطور یہاں رروزنامہ جناح کی وساطت سے حکام بالا تک استدعا کرتا
ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں ایسے تمام افراد جو پڑھانے کی طرف مائل ہوں
اور اُردو میں کم از کم ماسٹرز کر چکے ہوں ،اُن کو بطور اُستاداُردد پڑھانے
کے لئے قابلیت کے مطابق اہلیت کے مطابق گریڈ دیتے ہوئے یا تو سرکاری اداروں
میں جہاں خالی سیٹیں ہوں تعینات کر دیا جائے یا اُنکو ڈیپوٹیشن پر بھجوا
دیا جائے تاکہ نہ صرف آسامیاں پُر ہو سکیں بلکہ پڑھانے والے قابل استاد بھی
میسر ہو سکیں۔یہ بھی ایک اہم قدم اُردو کی ترویج کے لئے ہو سکتا ہے ہو سکتا
ہے کہ کئی افراد یگر نوکریاں محض روزگار کے لئے کر رہے ہوں وہ اُردو کی
تدریس کا جذبہ بھی رکھتے ہوں۔دوسری طرف قابلیت کی جانچ پڑتال کے لئے بھی اب
اُردو میں ہی قابلیت جانچنے کا امتحان لیا جائے تو بہتر ہوگا تاکہ زیادہ سے
زیادہ افراد اپنی قابلیت کے مطابق نوکری حاصل کر سکیں جوکہ انگریزی میں کم
استطاعت کی بدولت آگے بڑھنے سے محروم رہتے ہیں۔
قارئین !بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح ٰنے فرما دیا تھا کہ
ُاردو کو اس ملک میں قومی زبان کی حیثیت دی جائے گی ۔ مگر بعد میں آنے والے
وقت میں یہ بات سامنے آئی کہ اردو کو محض سرکاری طورپر دستاویزات میں قومی
زبان قرار دے دیا گیا مگر عملی طور پر اس کو نفاذ کرنے کے اقدامات خاطر
خواہ نہیں کئے گئے۔ اس وقت ملک میں انگریزی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت
حاصل ہو چکی ہے او رمختلف قسم کی ملازمتوں میں بھی انگریزی بولنے اور لکھنے
والوں کو اردو بولنے والوں پر ترجیح دی جاتی ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ
کہلایا جا سکتاہے۔سرکاری دفاتر میں بھی ہر قسم کی دستاویزت انگریزی زبان
میں تحریر کی جاتی ہیں اور اردو کو محض خانہ پری کے طور پر قومی زبان قرار
دے دیا گیا ہے۔اردو کو قومی زبان کے طور پر نفاذ میں اب تک کسی بھی حکومت
نے سنجید ہ اقدامات سرانجام دیئے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو کو ہر
سطح پر رائج کیا جائے جیسا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں قومی زبان کے نفاذ
کیلئے اقدامات سرانجام دئے گئے ہیں ویسے ہی ہماری حکومت کوکرنا چاہیں تاکہ
زبان کے چکر سے نکل کر ہماری قوم معاشی طور پر ترقی کر سکیں اور دیگر اقوام
کے برابر ہو سکے۔
|