جعلی اور غیر ذمہ دارانہ ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیرے،
ہیروں کی صنعت میں اعتماد کو ختم کر رہے ہیں اور کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں۔
|
|
ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا لیزر پرنٹنگ اور بلاک چین جیسی نئی ٹیکنالوجی
شکوک و شبہات کا شکار عوام میں دوبارہ سے ہیروں سے متعلق اعتماد پیدا کر
سکتی ہے؟
حال ہی میں لاس اینجلس اور سان ڈیاگو کے درمیان واقع کیلی فورنیا کے شہر
کارلسباد کی لیبارٹری میں ایک مشکوک ہیرا لایا گیا۔
ہیرے کی بیرونی سطح جسے جوہری ’گرڈل‘ کہتے ہیں، اس پر ایک چھوٹی سی چٹ تھی
جس پر سنہ 2015 میں جاری کیا گیا ایک سیکورٹی کوڈ لکھا تھا۔
لیکن اس کوڈ کا فونٹ جیمولوجیکل انسٹیٹیوٹ آف امریکہ (جی آئی اے) کے فونٹ
سے مختلف تھا۔ اصلی ہیرا قدرتی طور پر بنتا ہے جبکہ یہ ایک لیبارٹری میں
تیار کیا گیا تھا۔
کارلسباد لیبارٹری کے کرسٹوفر بریڈنگ اور ٹرائے آرڈن کا کہنا ہے ’ہمیں بہت
کم اس طرح کے دھوکے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
کارلسباد، ایک نجی تنظیم جی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر ہے جو ہیروں کی جانچ کر
کے انھیں معیار کے سرٹیفکیٹ دیتی ہے۔
یہ ہیروں کو رپورٹ نمبر فراہم کرتے ہیں جسے لیزر کے ذریعے ہیرے پر تراشا
جاتا ہے لیکن اس طریقہِ کار کے کچھ مسائل ہیں۔
آکسفورڈ یونی ورسٹی سے منسلک کمپنی، اوپسیڈیا کے چیف ایگزیکٹو ایندریو رمر
کہتے ہیں ’صرف پالش کرنے سے یہ نمبر باآسانی اتارا جا سکتا ہے، اس کے ساتھ
ساتھ کسی اور کا سیریل نمبر لگانا بھی آسان ہے۔‘
اسی لیے رمر ایسے لیزرز پر کام کر رہے ہیں جو ہیروں کی سطح سے نیچے سکیورٹی
کوڈ لکھ سکیں اور یہ کوڈ ہیروں کے اندر مستقل رہیں۔
|
|
ہیروں کا کاروبار حجم میں بہت بڑا اور نہایت ہی منافع بخش کاروبار ہے۔
بوسٹن کی کنسلٹنگ فرم بین اینڈ کمپنی کے مطابق ہر سال تقریباً 27 ٹن، یعنی
133 ملین قیراط کے غیر تراشیدہ ہیرے کانوں سے نکالے جاتے ہیں جن کی کل
مالیت تقریباً 15 سے 16 ارب ڈالر ہوتی ہے۔
ان نکالے گئے ہیروں میں سے تقریباً آدھے افریقہ سے آتے ہیں جہاں جنوبی
افریقہ اور بوٹسوانا جیسے کچھ ممالک میں ہیروں کی کان کنی کے حوالے سے واضح
قوانین موجود ہیں۔
لیکن زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے پر الزام ہے کہ وہ ہیروں کی برآمد سے
ملنے والی رقم کی مدد سے ملک کی خفیہ پولیس کی فنڈنگ کرتے ہیں۔
گذشتہ سال تین روسی صحافیوں کو اس وجہ سے ہلاک کردیا گیا کیونکہ وہ وسطی
افریقی جمہوریہ میں روس اور اُن عسکریت پسندوں کے درمیان تعلقات کی تفتیش
کر رہے تھے جو ہیرے بیچ کر اپنی لڑائیوں کی فنڈنگ کرتے ہیں۔
مصنوعی ہیرے بھی اس صنعت کے لیے ایک مسئلہ ہیں۔ چین کی ای کامرس ویب سائٹ
علی بابا پر ایسے اشتہارات سامنے آئے ہیں جو ہیروں کو قدرتی قرار دیتے ہیں
اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے حقیقی ہونے کی دستاویزات بھی ہیں۔
اس طرح کے خدشات سے سنہ 2019 میں ہیروں کی فروخت ماند پڑ گئی ہے۔ ان حالات
کے ردِعمل میں ہیروں کی صنعت سے جڑے بہت سے افراد بلاک چین ٹیکنالوجی کو
استعمال کرنے پر کام کررہے ہیں۔
یہ ایک ایسا کمپیوٹرائزڈ کھاتہ ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ کان سے لے
کر جوہری کی دکان تک اس کھاتے کو ان قیمتی پتھروں کی تفصیلات رکھنے کے لیے
استعمال کیا جا سکے گا۔
اس کی مثال آسٹریلیا کا ایور لیجر اور ڈی بیرز کمپنی کا ’ٹریسر‘ نامی بلاک
چین ہے۔ گذشتہ سال روس میں ہیروں کی کان کنی کرنے کے معروف ادارے ال روسا
نے اعلان کیا تھا کہ وہ ٹریسرز کے پلیٹ فارم میں شامل ہونے والے ہیں۔
|
|
ال روسا کمپنی سے منسلک یوجینیا کوزینکو کا کہنا ہے ’خریداروں کو ہیرے کے
بارے میں کان سے نکالے جانے وقت سے لے کر اس کی تمام ہسٹری دینا ممکن ہو
سکے گا۔‘
ٹریسر کے چیف ایگزیکٹو جم ڈوفی کا کہنا ہے ’ساتھ ساتھ ہم بلاک چین پر بہت
سی ایپس بنا سکتے ہیں۔‘
جم ڈوفی کہتے ہیں ’سب سے مشکل مرحلہ ہیرے بنانے والوں کے لیے ایسے روبوٹس
بنانا تھا جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ بڑے پیمانے پر ہیروں کو سکین کر سکیں
اور اس کے ساتھ ایسے ایلگورتھم تیار کر سکیں جو ہیروں کی شناخت کر سکیں۔‘
ٹریسر کی پارٹنر ریلیشنز سپیشلسٹ، میچلی براؤن کہتی ہیں ’ڈی بیرز نے بھی
جیم فیئر نامی پروگرام لانچ کیا ہے جو افریقہ میں چھوٹے پیمانے پر ہیرے
بنانے والوں کا ریکارڈ رکھتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’اس پروگرام کا آغاز افریقی ملک سیرالیون کے آرٹیسسینل اور
چھوٹے پیمانے پر ہیروں کی کان کنی کرنے والوں سے ہوا۔ یہ پروگرام ڈھونڈے
گئے ہر ہیرے کی جی پی ایس لوکیشن کا ریکارڈ رکھنے میں مددگار ہے جسے بعد
میں ایک ایسے کیو آر کوڈڈ بیگ میں رکھا جاتا ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔‘
|
|
ہیروں کی صنعت میں بلاک چین ٹیکنالوجی اپنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس بات
کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ کینیڈا میں کان کنی کی کمپنی لوکارا ڈائمنڈ نے
گذشتہ سال کلارا نامی بلاک چین کاروبار کو خرید لیا تھا۔
لوکارا میں ٹیکنالوجی کے وائس پریزیڈنٹ جون آرمسٹرونگ کہتے ہیں ’کان سے
باہر آتے ہی ہیروں کو سکین کرکے ان پر بلاک چین لگا دیا جائے گا۔‘
اوپسیڈیا کے رمر کہتے ہیں ’ہیرے سے متعلق تمام معلومات کو بلاک چین پر
ڈالنا، معلومات رکھنے کا ایک انتہائی محفوظ طریقہ ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود
آپ کو یہ یقین دہانی کرنی پڑے گی کہ ہیرا دراصل وہی ہے جو دکھایا جا رہا ہے۔‘
تو یقیناً آپ کے ذہن میں سوال اٹھے گا کہ آپ ہیرے کے اندر ایسا سیکورٹی کوڈ
کیسے لکھ سکتے ہیں جو مستقل ہو اور اسے تبدیل نہ کیا جاسکے؟
اس کا جواب مشکل ہو گا۔ ہیرے میں روشنی منعکس کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ
ہوتی ہے۔
|
|
رمر کہتے ہیں ’آپ لیزر کو جس طرف بھیجنا چاہیں، عموماً یہ کہیں اور چلا
جاتا ہے۔‘
آکسفورڈ میں انجینئرز موسم کے اتار چڑھاؤ کو مدِنظر رکھتے ہوئے ٹیلی سکوپ
سے صاف ترین منظر دکھانے پر تحقیق کر رہے تھے۔ اور پتا چلا کہ اس کے نتائج
کا اطلاق لیزر سے چھوٹے اہداف کو نشانہ بنانے پر بھی ہوتا ہے۔
ہیرے کی سطح سے 0.15 ملی میٹر نیچے ملی میٹر کے ہزارویں حصے جتنے چھوٹے
نشانات لگائے جا سکتے ہیں اور یہ عمل صرف ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے میں
پورا ہو سکتا ہے۔ یہ اتنی تیز رفتار لیزر کی شعائیں ہیرے کو گرم ہونے سے
بچاتی ہے۔
اتنے چھوٹے سے نشان کو جوہری کے محدب عدسہ کے ساتھ بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔
اس کے لیے آپ کو ایک طاقتور خوردبین کی ضرورت ہے۔
|
|
یہ انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں لہذا بیرونی گرڈل پر ان کا ہونا ضروری نہیں
کیونکہ جب ہیرے کو جواہرات میں لگایا جاتا ہے تو یہ حصہ چھپ جاتا ہے۔ لیکن
انھیں اوپر کی سطح یا کراؤن کے اردگرد لگایا جا سکتا ہے جہاں سے انھیں پڑھا
جا سکے۔
اوپسیڈیا نے اپنی پہلی مشینیں ڈی بیئرز کو بیچی ہیں۔
رمر کہتے ہیں کہ جب آپ اس قابل ہو جائیں کہ ہیروں کے اندر لکھ سکیں ’آپ
برقی سرکٹ پر بھی لکھ سکتے ہیں، یہ آپ کو سائنسی آلات اور بالاخر کوانٹم
کمپیوٹنگ تک لے جاتا ہے۔‘
بڑھتے ہوئے شک و شبہات کا شکار عوام کو خریداری پر آمادہ رکھنے کے لیے
ہیروں کی اصلیت اور اسے ثابت کرنے پر بھروسہ قائم رکھنا ضروری ہے۔
نیویارک میں ریئر کیرٹ کے بانی اجے آنند نے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا ہے جو
چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے تاجروں سے ہیروں سے متعلق ڈیٹا اکھٹا کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہیروں کی مدد سے مشین لرننگ کا عمل اور قیمتوں کا تعین
کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اجے آنند نے کہا کہ ہیروں کی قیمت کا تعین کرنے کے لیے 30 سے 40 طریقے ہوتے
ہیں۔
’ہم سب سے بڑے ڈیٹا سیٹ کو جمع کرتے ہیں اور ہمارے الگورتھم ان کی مدد سے
انتہائی درست طور پر ہیروں کی قیمت کا اندازہ لگاتے ہیں۔‘
ہیروں کی صنعت سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نئی ٹیکنالوجی اس بات کو
یقینی بنائے گی کہ ہیروں کی مانگ کبھی کم نہ ہو۔ . |