ایک دن W11 کہ ساتھ

مشہورِ زمانہ ڈبلیو گیارہ منی بس

نہ کرولا میں ہے نہ ہانڈہ میں ہے
نہ رکشہ میں ہے نہ سوزوکی میں ہے
جو مزہ ڈبلیو گیارہ منی بس میں ہے
کراچی کی چلچلاتی دھوپ اور دھول مٹی میں کھڑا وہ پچھلے دس منٹ سے بس کہ انتظار میں کھڑا تھا….ایک تو گرمی سے بُرا حال ہورہا ہے اور اُوپر سے کم بخت بس آ کہ نہیں دے رہی….وہ شہادت کی اُنگلی سے پسینے کی بوندیں جھٹکتا ہوا جُھکا ہی تھا کہ اپنے پیچھے دھول اڑاتی w11 پوری رفتار سے جھومتی جھامتی جھالڑوں کہ ساتھ اسٹاپ پر آچُکی تھی…...اور اسٹاپ پر کھڑے افراد کا سیلاب گاڑی کہ رُکتے ہی اس پر پُل پڑا تھا…...وہ بھی جلدی سے اپنا سامان اُٹھاۓ ہجوم کو چیڑتے ہوۓ بس میں گُھس گیا تھا…..بس کھچا کھچ مسافروں سے بھری ہوئ تھی….بیٹھنے کی جگہ ملنا تو دور کی بات کھڑے بھی اس طرح تھے گویا دو مقناطیس آپس میں جُڑے ہوتے ہیں…...کانوں میں بِھن بِھن کرتی مکھی نجانے کہاں سے بس کہ اندر آگُھسی تھی…….
لالو کھیت صدر صدر صدر ٹاورررر کیماڑی ……...کنڈکٹر اگلے دروازے سے لٹکتا پورے سُرور میں تان لگا رہا تھا…...شابا...شابا…..اُوہ جلدی کرو نی مائ کنڈکٹر نے بس میں چڑھتی اماں سے کہا تھا……
پتھریلے راستے پر بھاگتی دوڑتی بس جب ہلتی تو اپنے ساتھ مسافروں کو بھی کبھی دائیں جانب تو کبھی بائیں جانب دھکیلتی…..یہی نہیں….ذرا بس کی آرائش اور زینت پر جو نظر ڈالی تو یوں گُماں گزرا جیسے کوئ عُروسہ سجی سنوری بیٹھی اپنے شریکِ حیات کہ انتظار میں بیٹھی ہو…...بس کی چھت اور آگے کہ شیشے کی طرف جھالر اور نفیس رنگوں سے بناۓ گۓ آرٹ کو دیکھتے ہوۓ اُسے یہی لگ رہا تھا جیسے کوئ دوشیزہ ہار سنگھار کیے بیٹھی ہے……اور لٹکتی جھٹکتی مٹکتی اپنی ادائیں بکھیر رہی ہے...
ابھی وہ ان رنگوں سے بنے اس آرٹ کو ہی دیکھ رہا تھا کہ بس نے زور دار بریک مارا نتیجتاً ایک موٹا سا آدمی اپنے بھاری بھرکم وجود سمیت مجھ جیسے کمزور انسان پر آگرا…...دم بس نکلنے کو ہی تھا میں نے تو چار قُل بھی پڑھ لیے تھے …..یوں لگا جیسے کوئ عمارت مجھ ر ڈھے گئ ہو….متضاد اس پر اُس شخص کہ کپڑوں سے پسینے کی اُٹھنے والی بُو نے میرے رہے سہے حواس بھی ٹھکانے لگا دیے …...بس ایک بار پھر سے چلنے لگی تھی……. کافی تگ و دو کہ بعد وہ آدمی پھر سےاُٹھ کھڑا ہوا تھا کیا بتاؤں یوں لگا جیسے کسی ڈاکٹر نے کومہ میں جاتے جاتے مریض کو بچا لیا ہو…….یا یوں سمجھ لے کہ مرتے ہوۓ انسان کو بچانے کہ لیے وہ استری والی مشین سے جو الیکٹرک شاک دے کر جو آخری سے کوشش کی جاتی ہے اور معجزے کہ طور پر اُسے دوسری زندگی مل جاتی ہے ویسا ہی کُچھ حا میرا بھی تھا…..
بحرِحال میں نے اُٹھنے کہ بعد اُس آدمی کو جن کینہ توز نظروں سے دیکھا تھا بیچارہ معذرت کرنے لگ گیا……..میں نے بھی پھر زیادہ بات آگے نہ بڑھائ مجھے تو بس جلدی تھی اس بات کہ میں جس جگہ کھڑا تھا اُس کہ سیٹ کہ ساتھ بیٹھا شخص جلدی بس سے اُتر جاتا اور کسی طرح وہ سیٹ مجھے مل جاتی ہر بار گاڑی رُکنے پر میں اُس شخص کی اور اُمید بھری نظروں سے دیکھتا کہ شاید اب اُس کی منزل آگئ ہو اور وہ اُتر جاۓ مگر ہر بار ہی میری نظر مایوس لوٹ آتی…….
خیر دھکم دھکی کا یہ سلسلہ ابھی جاری و ساری تھا کھڑے رہ رہ کر پاؤں شل ہو چُکے تھے اور ایک ہاتھ جس سے میں نے سہارا لیا ہوا تھا شدید درد کر رہا تھا……..گرمی کی شدت اور لوگوں کہ ہجوم میں گُھٹن مزید دو گُنی ہو گئ تھی…...اُوپر سے بس ڈرائیور کہ نان اسٹاپ فُل والیم کہ ساتھ چلتے غم گین عاشقوں والے ہندی گیت کان کہ پردے پھاڑنے پر بضد تھے اور سر میں الگ ہتھوڑے برساۓ جا رہے تھے…...
شیشے سے نظر آتی بس ڈرائیور کی شکل کو ذرا جو آنکھیں سُکیڑےمیں نے دیکھا تو سہی معنوں میں یقین ہو گیا کہ پکّا ناکام عاشق ہے…...گھنی موچھیں کالر اُٹھاۓ نسوار مُنہ میں رکھے وہ سُرخ ڈوروں والی آنکھوں کہ ساتھ شلوار کا ایک انچہ اُوپر چڑھاۓ گاڑی چلا رہا تھا……..
ایکسیلریٹر پر پاؤں رکھنے کہ بعد جیسے اسے اُٹھانا ہی بھول جاتا اور بس ہواؤں سے باتیں کرنے لگتی…...ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ سنبھالے دوسرے ہاتھ سے کبھی وہ گانے بدلتا تو کبھی آواز کم کرتا تو کبھی زیادہ…...جی چاہا کہ ایک بار جا کہ اس بس ڈرائیور کو کھڑی کھڑی سُنا ہی دوں…..کہ بھائ اگر تمہیں کوئ چھوڑ ہی گئ ہے تو اس کا بدلہ تم عوام الناس سے تو نہ لو…….
میں دنیا بُھلا دوں گا تیری چاہت میں
ہو دُشمن,زمانہ مجھے نہ بُھلانہ
میں خود کو مٹا دوں گا تیری چاہت میں
لو بھلا یہ بھی کوئ شعر ہوا آج کل تو سگے اپنوں کو بُھلاۓ بیٹھے ہیں اور اس گلوکار کی سُن لو یہ محبوبہ کہ عشق میں دنیا کو بُھلا دینے کی بات کر رہے ہیں…..مطلب اتنی بھی کیا پھینکا پھینکی…...بس اپنے مقررہ راستوں پر گامزن تھی کئ مسافر اپنی منزل آنے پر اُتر رہے تھے تو کئ منزل تک پہنچنے کہ لیے بس میں چڑھ رہے تھے……! مگر مجال ہے جو بیٹھنے کہ لیے ابھی تک کوئ جگہ ملی ہو……!

سگنل پر بس رُکی تو ایک ٹھیک ٹھاک دکھنے والا سوالی چڑھ گیا تھا…...اور اب زور و شور سے اپنے بناۓ گۓ مصرعے کو گا گا کر بھیک مانگ رہا تھا…...کُچھ لوگ بڑی دلچسپی سے اُس کی تان کو سُن رہے تھے تو کُچھ لوگ یوں بہرے بنے بیٹھے تھے جیسے کوئ پروگرام بنا آواز کہ چل رہا ہو…. کسی نے دو پانچ روپے اُس کہ ہاتھ میں پکڑا دیے…...تھوڑی دور جا کر وہ سوالی نیچے اُتر گیا اور پیچھے والی بس میں چڑھ گیا…….یہ بھی خوب کمائ کا ذریعہ بنا ہوا ہے…..
ابھی تھوڑا ہی آگے گۓ تھے کہ ایک خواجہ سرا بس میں چڑھ,گیا…...اور لیڈیز کہ بجاۓ جینٹس والے کمپارٹمنٹ میں آگیا…….اُس کہ چڑھتے ہی مجھ سمیت بہت سی نگاہیں اس خواجہ سرا کی طرف اُٹھی تھی اور اُس کا کُچھ یوں معائنہ کرنے میں لگی تھی جیسے کوئ مریخ سے آکہ بس میں لینڈ کرگیا ہو…….مسافروں میں کُچھ نوجوان لڑکے اُسے دیکھتے ہوۓ دبی دبی ہنسی ہنس رہے تھے تو کوئ عجیب وغریب نظروں سے دیکھ رہا تھا…...تو کوئ اُسے لے کر چہ مگوئیاں کر رہا تھا…..جبکہ وہ خواجہ سرا بھری بس میں عین دروازے کہ آگے کھڑا باہر کو دیکھ رہا تھا کون اُسے کیسے دیکھ رہا تھا کون اس کہ بارے میں کیا بات کر رہا تھا جیسے اُسے کسی بات کی کوئ پرواہ ہی نہ تھی شاید وہ ان سب باتوں کا عادی تھا…...کُچھ دیر میں وہ بھی اپنی منزل آنے پر جا چُکا تھا…...لیکن میرے دماغ میں بہت سے سوالات گردش کر رہے تھے……مگر اگلے گانے نے ایک بار پھر میری توجہ اپنی جانب مبذول کر لی تھی…...
اسیں عشق دا درد جگا بیٹھے
اسیں عشق دی لت لگا بیٹھے
اماں ابا نے واقعی میں تین چار لت اور چپیڑے لگائ ہوتی نہ تو یہ عشق کی لت نہیں لگنی تھی…..حد ہو گئ ایک تو بے تُکے بے معنی گانے اُوپر سے پھٹا اسپیکر دماغ کی چولیں ہلاۓ جارہا تھا……..
اللہ اللہ کر کہ میری منزل قریب آئ اور میں ہجوم میں راستہ بناتا دروازے تک آگیا مگر جو چیز میرا میٹر گُھوما رہی تھی وہ تھا…..میرے پیچھے اُسی شخص کا آنا جس کا مجھے اُترنے کا بےصبری سے انتظار تھا کہ یہ اب اُترتا ہے کہ تب مگر یہ دیکھ میں پیچ و تاب کھا کہ رہ گیا کہ موصوف کی منزل بھی وہی تھی جو میرے منزل تھی…….بس سے اُترنے کہ بعد میں نے اُس جاتے شخص کی پُشت کو جن شر بار نظروں سے گُھورا تھا وہ اللہ ہی جانتا ہے……..ظاہر ہے غصہ آتا بھی کیوں نہ منزل جب دونوں کی ایک تھی تو وہ اتنے سُکون سے اور میں اتنی بے سُکونی میں سفر کیوں کر کہ یہاں تک پہنچا…..
بس میں پورا راستہ میں ایک ہاتھ سے سامان اور ایک ہاتھ سے خود کو سہارا دیے اسی آس پر صبر کر رہا تھا کہ کبھی تو یہ شخص اُٹھے گا اور میں بیٹھ کر سُکون کا سانس لوں گا…….مگر نہ جی جیسے آج کا دن مجھے جبر ہی کرنا تھا…..
خیر میں نے دور تک جاتی ڈبلیو گیارہ منی بس کو دیکھا تھا…….جس کہ پیچھے یہ جملہ لکھا تھا…..
آپ کی ہٹی تو نہیں؟؟؟
ایک لمحے کو تو میں بس اُس جملے کو سمجھنے میں ہی لگا تھا مگر اگلے ہی پل بے ساختہ ہی میرے چہرے پر مُسکراہٹ آگئ…...سامان لیے میں اپنے گھر آگیا…….جہاں قدم رکھتے ہی ائیر کنڈیشن کی ٹھنڈک نے میرے اعصاب کو پُرسُکون کیا ہی تھا……ارے احمد تم آگۓ امی کچن سے برآمد ہوئ تھی اور میرے ہاتھ سے سامان لیتے ہوۓ پوچھنے لگی…...پھر کیسی لگی بس کی سواری ؟؟ لگتا ہے چیلینج کافی بھاری گزرا ہے تم پر…...وہ اس کہ پسینے سے شرابور حُلیے کو دیکھتی ہوئ کہنے لگی…..
پوچھے مت آئندہ سے میں آپ کا کوئ چیلینج ایکسیپٹ نہیں کروں گا…..میں بھلا اور میری گاڑی بھلی…..آپ جیتی اور میں ہارا….امی میری حالت پر ہنستی ہوئ اندر جا چُکی تھی اور میں پاؤں پھیلاۓ اپنے نرم گداز صوفوں پر ڈھے سا گیا تھا اور آنکھیں مُوند لی تھی…..آنکھوں کہ پردے کہ پار اب بھی یہی محسوس ہورہا تھآ جیسے میں ڈبلیو گیارہ کی بس میں کھڑا سفر کر رہا ہوں….پھر کُچھ عجیب ہوا اچانک ہی میرے اندر سے ایک آواز آئ…….
ایک دن کی مُشقت تم پر اتنی گراں گزری احمد…...اور وہ لوگوں کا کیا جو روز ہی نہ نجانے کتنی دور دور سے روزی کی تلاش میں تو کوئ کرایہ بچانے کی غرض سے گھنٹوں اتنی گرمی میں دھوپ میں بارش میں سردی میں یا طوفان میں انہی بسوں میں دھکے کھاتے لٹکتے جھولتے پھرتے ہیں…...اور تم کرولا میں گھومنے والے اے سی کی ٹھنڈک میں آرام دہ سیٹوں پر سفر کرنے والے ایک دن میں ہی گھبرا گۓ تو سوچوں ذرا وہ بھی تم جیسے ہی انسان ہے جو اپنی زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلانے کہ لیے اس بھاگتی دوڑتی دنیا میں ایسے دھکے کھاتے ہیں اور پھر بھی ربِ تعالیٰ کا شُکر بجا لاتے ہیں…….
میں نے پٹ سے آنکھیں کھولی تھی مجھے اس وقت خود سے بہت شرم محسوس ہورہی تھی مجھے اپنا دل بھاری ہوتا محسوس ہوا…..اِک دم سے میرے دل پر بہت سا بوجھ آن پڑا میں اُٹھا اور کمرے میں گیا وضو باندھا اور اپنی ان تمان نعمتوں کہ لیے اللہ کہ آگے سجدہ ریز ہو گیا…..شُکرانے کی نماز پڑھ کر جب میں نے دُعا کہ لیے ہاتھ اُٹھاۓ تو ندامت سے میرا سر جُھک گیا…….چند آنسو میری پلکوں کی پھلانگتے ہوۓ میری ہتھیلی پر آگرے اور میرے مُنہ سے یہ بے ساختہ نکل آیا….."اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سے نعمتوں کو جُھٹلاؤ گے".......
 

Hira Umair
About the Author: Hira Umair Read More Articles by Hira Umair: 6 Articles with 9050 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.