لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ دل بے لگی چلے
پچھلے چند ہفتوں سے میرا قلم بالکل خاموش تھا، اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ
اس معصوم فرشتہ پر ہوئے جبر کی داستان قلم کرتا۔ جس کی لاش انسانوں نے
بھنبھوڑنے کے بعد جنگلی حیات کے لئے رکھ چھوڑی تھی، اور ہمارا قانون اس کے
باپ سے صفائی نصف ایمان پر عمل کروارہا تھا یا شاید اس ملک میں رہنے کی سزا
دے رہا تھا۔ اس معاشرے کے اس گھنائونےچہرے سے نقاب الٹتا دیکھ کر تو
انسانیت بھی شرما جائے ، ایک طرف تو ہمرا معاشرہ رشتوں کے گورکھ دھندے میں
پھنسا رشتے نبھانے پر تلا ہے مگر وہی رشتے جب آپ کا گلہ کاٹتے ہیں تو
معاشرتی اقدار پر ہو کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔ اسی دوران بجٹ کا واویلا
شروع ہوا مگر پھر بھی ضمیر نے اجازت نہیں دی کہ میں اپنی بھڑاس اس بیچارے
سلیکٹڈ شغلِ اعظم پر نکالوں جس سے چند عرب امیر زادوں کی جوتیاں سیدھی
کرواکر اور آئی ایم ایف جیسے بھیڑیے کے سامنے لٹا کر، عوام الناس کی بوٹیاں
نوچنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس غریب کے تو اپنے گھر کا بل دوست
احباب چندہ جمع کر کے بھرتے ہیں اسے کیا پتہ مہنگائی کس بلا کا نام ہے یا
کوئی غریب جب بچوں سمیت خودکشی کرتا ہے تو اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے اس
بیچارے کے اپنے بچے تو لندن میں ایک طلاق یافتہ یہودی عورت کی زیر نگرانی
پل رہے ہیں نا تو پھر فکر کیسی چور سپاہی کھیلتے رہتے ہیں ملک گیا بھاڑ میں۔
آج رات کے آخری پہر اپنے لان کے ایک خاموش گوشے میں بیٹھے محترم ابراہیم
ذوق کا مضمون کے شروع میں لکھا گیا کلام سنتے ہوئے ، نہ جانے کیوں ہاتھ خود
بخود قلم کی جانب بڑھا۔ شاید یہ میرا احساس جرم تھا جو محترم کے اشعار کی
صورت میرے سامنے تھا کہ انسان جب ہے ہی کچھ نہیں تو پھر کیسی تگ ودو، بھاگ
دوڑ، کیسا جھگڑا، کیسا مقام، کیا دولت، کیا شہرت سب ہی تو فقط ایک سراب آج
ہے کل نہیں آخر تو مٹی نے مٹی ہونا ہے تو پھر یہ دنیا کا گورکھ دھندہ کیا
ہے۔
یہ سب کچھ تو اس سوہنے رب کی ملکیت ہے، اور یہ شان رعب دبدبہ سب اسی پر
سجتا ہے ہم کیا ہماری اوقات کیا۔ تو پھر کیسی مرضی، کیسا زرو، کیسی زبردستی
ٹھیک ہے اس وحدہ لا شریک نے اگر ہمیں کچھ عرصے کے لئے اس اولاد، رشتے، ناطے
زمین ، جائیداد کی نگرانی عطا کی ہے تو اس کا ہر گز مطلب نہیں کہ مزارع
مالک بن جائے۔ مالک کے سامنے ہر قول وفعل کا حساب واجب ہے، اور ہمیں یہ ہر
گز نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ حساب بہت سخت ہے۔ ہمیں یہ خیال ضرور رکھنا
چاہئیے کہ ہم نے اپنے فرائض میں غفلت تو نہیں برتی اس سارے نظام کو تہ و
بالا تو کر کے نہیں رکھ دیا۔ کہیں ہم بھی اس گورکھ دھندے میں گم تو نہیں ہو
کر رہ گئے، اس کی امانات میں خیانت کے مرتکب تو نہیں ٹھہرے۔
اللہّٰ تعالیٰ نے انسان کو دل و دماغ عطا فرمائے، ہمارے جسم کا سارا نظام
انھی کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ کہنے کو تو یہ الگ الگ اعضاء ہیں مگر ان کا
ہماری زندگیوں میں بڑا گہرا تعلق ہے مثلاً جب انسان دماغ سے سوچتا ہے تو
نتیجہ دل کے بر عکس نکلتا ہے۔ اسی طرح اگر دل دماغ کی سننے لگے تو زندگی
سہنا خواب وگرنہ اک مسلسل عذاب بن کے رہ جاتی ہے۔ ویسے یہ دل ہے بڑی عجیب
شے برداشت کرنے پر آجائے تو بڑے سے بڑا دکھ بغیر اف کئے پی جاتا ہے اور اگر
اپنی آئی پر آجائے تو ساری دنیا تہ و بالا کر کے رکھ دے۔
دل جب کبھی کس سے بھر جائے تو پھر اگلی پچھلی سب باتوں کا سیلاب بن کر تمام
رشتوں ناتوں کو بہا لے جاتا ہے۔ ایسے حالات میں مفاہمت ، احساس ، لحاظ ان
سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے اک ایسی دنیا میں جا بستا ہے جو اس کا اصل
مسکن ہے جو اس سارے گورکھ دھندے کا حاصل ہے بقول غالب
وفا کیسی کہاں کا عشق گر سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستان کیوں ہو
خداوند بزرگ وبرتر نے انسان کو اشف المخلوقات بنایا تو دوسری مخلوقات کے
لئے تھا، مگر افسوس ہم اپنے ہی لوگوں کو اپنی رعایا سمجھ بیٹھے۔ مٹی نے مٹی
کا ہی دھندہ شروع کردیا، شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ الف سے اللہّٰ بنتا ہے اور
الف سے ہی انسان وہ آسمانوں کا خدا ہے کیوں نہ ہر وقت کے فرعون کی مانند
نعوذ باللہ ہم زمین کے خدا بن جائیں ارے نادانوں ایسا ہر گز نہیں ہے وہ ہی
وحدہ لا شریک ہے تم تو کیا کوئی بھی اس کے ذرے کو بھی نہیں پاسکتا۔ جہاں تک
بات ہے الف کے مشترک ہونے کی تو سنو اس میں سات آسمانوں اور کرہ ارض کے
تمام سمندروں جتنا اسرار پوشیدہ ہے، اس کی تلاش میں کئی رانجھے جوگی ہوگئے،
بہت سے مجنوں پاگل اس کو پانا ہے تو دل میں جھانکو دنیا میں نہیں شاید اسی
لئے جناب موہن سنگھ نے اس کی بڑی خوبصورت عکاسی کی ہے
رب اک گنجھل دار بجھارت، رب اک گورکھ دھندہ
کھولن لگیاں پیچ ایس دے، کافر ہوجائے بندہ
کافر ہونوں ڈر کے جیون کھوجوں مول نہ کھجیں
لائی لگ مومن دے کولوں کھوجی کافر چنگا
پاکستان پائندہ باد!
|