صحرائے تھر کی کوئل مائی بھاگی۔ تحریر: ارشد قریشی

انہیں بیت اللہ کی زیارت کی شدید خواہش تھی وہ حج کرنا چاہتی تھیں جس کا اظہار انہوں نے اس وقت کے سیکریٹری عبدالحمید اخوند سے کیا تھا ، اخوند صاحب خدا ترس بندے تھے اور فنکاروں کی مالی مدد کرنے میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ اخوند صاحب نے اس وقت کے گورنر کو مائی بھاگی کی خواہش کا بتایا جو خود بھی مائی بھاگی کے فن سےبہت متاثر تھے ۔ انہوں نے فوری طور پر اسے منظور کرتے ہوئے مائی بھاگی کو حج پر بھیجنے کے احکامات جاری کیئے لیکن مانو فقیر کی لاڈلی بیٹی جسے سب بچپن سے ہی بھاگ بھری یعنی خوش نصیب کہتے تھے ا س کے نصیب تو دیکھیں ان کے پاس حج پر جانے کا ٹکٹ آتا ہے جس پر ان کی روانگی کی تاریخ درج ہوتی ہے 09 جولائی 1986 ء اور مائی بھاگی 07 جولائی 1986 ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتی ہیں۔

جو لوگ راجھستانی یا تھری موسیقی کو جانتے ہیں اس میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ صحرائے تھر کی کوئل مائی بھاگی کو بھی ضرور جانتے ہوں گے ۔ کھڑی نیم کے نیچےہوں توہ ہیکلی .......آج بھی سندھ میں اگر آپ اس نغمے کے دو بول گنگنا دیں تو سننے والے کے ذہن میں ایک ہی نام آتا ہے مائی بھاگی۔یوں تو سندھ کی دھرتی پر بے شمار ایسے لوگوں نے جنم لیا جنہوں نے موسیقی کی دنیا میں نہ صرف خوب نام کمایا بلکہ پوری دنیا میں وطن کا نام بھی روشن کیا۔

سندھ کی دھرتی پر جنم لینے والی ایسی ہی ایک خوبصورت سریلی آواز کی مالک مائی بھاگی تھیں۔جنہیں تھر کی کوئل کا خطاب ملا۔ مائی بھاگی سن 1920 ء میں ضلع تھرپارکر کے گاؤں دوھیانو فقیر جومٹھا شہر کے قریب ہے مانو فقیر کے گھر پیدا ہوئیں ۔ مائی بھاگی کو بھاگ بھری یعنی خوش قسمت بھی کہا جاتا تھا ۔انہوں نے بچپن سے ہی اپنے والدین کی آواز کے ساتھ آواز ملائی وہ مقامی سطح پر اپنے والدین کے ساتھ شادیوں اور تہواروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی رہیں ۔ پہلی بار ان کا نام سن 1968ء میں اس وقت منظرعام پر آیا جب ماروی کے آبائی گاؤں بھالوا میں منعقد ہونے والے جشنِ ماروی میں انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔اس پروگرام میں مائی بھاگی کی آواز سے متاثر ہو کر معروف لوک فنکارہ عابدہ پروین کے شوہر شیخ غلام حسین نے مائی بھاگی کو ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیویژن پر متعارف کرایا۔ سولہ برس کی عمر میں مائی بھاگی کی شادی تھرپار کر کے علاقے اسلام کوٹ کے معروف لوک فنکار ہوتی فقیر سے ہوئی۔

مائی بھاگی نے تھر کے ایک مشہور گلوکار استاد مراد فقیر کے ساتھ مختلف زبانوں میں گانے گائے جن میں سرائیکی، گجراتی ، سندھی، مارواڑی ، کاٹھیا واڑی اور برصغیر کے کئی دوسری زبانیں شامل ہیں ۔ جوں ہی مائی بھاگی نے اپنا مشہورِ زمانہ گیت " کھڑی نیم کے نیچےہوں توہ ہیکلی " گایا ان کی شہرت تھر کے صحراؤں سے نکل کر تمام وطن میں پھیلی اور پھر وطن کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی ، ان کے اس گیت کو دنیا کے ان علاقوں میں بھی شہرت ملی جو اس گیت میں استعمال ہونے والی زبان سے قطعی ناواقف تھے۔


مائی بھاگی کا انداز ِ گائیکی بھی کچھ الگ ہی تھا وہ اکثر اپنےگیتوں کی شاعری خود ہی کیا کرتی تھیں وہ خود ہی خوبصورت انداز سے ڈھولکی بجالیتی تھیں اور اپنے گیتوں کی دھنیں بھی خود ہی بنالیتی تھیں، ان کا گیت گانے کا بھی منفرد انداز تھا وہ جب بھی گاتی تھیں اپنا ایک ہاتھ کان پر رکھ کر گاتی تھیں یہی انداز ان کی پہچان بن گیا۔ وہ اکثر سندھ کے مشہور بزرگوں کے مزاروں پر حاضری دیا کرتی تھیں جن میں شاہ عبدالطیف بھٹائی، سمن سرکار، لال شہباز قلندر، سچل سرمست کے مزارات شامل ہیں ۔وہ اکثر مزار کے صحن میں جھاڑو دیتیں زائرین کے لیئے پانی کے مٹکے بھرتیں تھیں وہ بیماری کی حالت میں بھی لوگوں کے سہارے مزاروں پر جایا کرتی تھیں ۔

مائی بھاگی کو ان کے فن کے باعث جو روپے پیسے ملتے تھے اس سے گذر بسر کرتی تھیں لیکن انہوں نے کبھی دولت کو اہمیت نہیں دی سادہ زندگی گذاری فن سے محبت کی۔ایک تلخ اور دل خراش حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسے کئی فنکار بیماری میں اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن حکومتی کی سطح پر ان کی یا تو کوئی مدد ہی نہیں کی گئی اور اگر کبھی کسی اللہ کے نیک بندے نے یہ کام کرنا چاہا بھی تو سرکاری کاموں کے طریقہ کار کے طوالت کی وجہ سے فنکار سرکار کے پیسے پہنچنے سے پہلے اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ ایسا ہی کچھ ہوا بھاگ بھری یعنی مائی بھاگی کے ساتھ انہیں بیت اللہ کی زیارت کی شدید خواہش تھی وہ حج کرنا چاہتی تھیں جس کا اظہار انہوں نے اس وقت کے سیکریٹری عبدالحمید اخوند سے کیا تھا ، اخوند صاحب خدا ترس بندے تھے اور فنکاروں کی مالی مدد کرنے میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ اخوند صاحب نے اس وقت کے گورنر کو مائی بھاگی کی خواہش کا بتایا جو خود بھی مائی بھاگی کے فن سےبہت متاثر تھے ۔ انہوں نے فوری طور پر اسے منظور کرتے ہوئے مائی بھاگی کو حج پر بھیجنے کے احکامات جاری کیئے لیکن مانو فقیر کی لاڈلی بیٹی جسے سب بچپن سے ہی بھاگ بھری یعنی خوش نصیب کہتے تھے ا س کے نصیب تو دیکھیں ان کے پاس حج پر جانے کا ٹکٹ آتا ہے جس پر ان کی روانگی کی تاریخ درج ہوتی ہے 09 جولائی 1986 ء اور مائی بھاگی 07 جولائی 1986 ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتی ہیں۔ انہیں نؤں کوٹ کے قبرستان میں دفنایا گیا ۔

ان کے بیٹا کالو فقیر، بیٹی مائی سونی گاتے رہے لیکن ماں کا خلاء پر کرنے میں ناکام رہے ، اب مائی بھاگی کا پوتا اور نواسا برکت فقیر اور رستم فقیر گاتے ہیں ۔ لیکن صحرائے تھر میں بولنے والی سریلی کوئل کی آواز کی کمی کو کوئی پوری نہ کرسکا ۔ حکومتِ پاکستان نے موسیقی کی دنیا میں ان کی شاندار خدمات کے طور پر انہیں 1981ء صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا ۔اسی طرح انہیں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیویژن سے درجنوں ایواڈ دیئے گئے تھے ۔ لیکن وہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ مجھے اس ایوارڈ پر سب سے زیادہ فخر ہے جو مجھے لوگ دیتے ہیں مجھ سے محبت کرتے ہیں میری آواز کو پسند کرتے ہیں ۔

 

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 142 Articles with 167613 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More