پاکستان اور بھارت نے دو آزاد ممالک کی حثییت سے برطانیہ سے آزادی حاصل کی لیکن ایک ہی آقا سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود ان دونوں کے تعلقات کبھی خوشگوار نہ رہ سکے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہندو لیڈرشپ کا اکھنڈ بھارت کا وہ خواب تھا جس کو اس نے آزادی کے بعد بھی نہیں توڑا اور اسی وجہ سے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم بھی نہیں کیا، حالانکہ کہنے کو تو مسلمان اور ہندو ہزار سال سے زائد عرصے سے برصغیر میں رہ رہے تھے لیکن دونوں مذاہب میں زمین آسمان کا فرق ہونے کی وجہ سے دونوں کبھی ایک رنگ میں نہ رنگ سکے۔ ظاہری شکل و شباہت کے علاوہ کوئی چیز دونوں میں مشترک نہ تھی اور ایساپوری دنیا میں ہوتاہے کہ بنیادی طور پر مختلف نظریات کے حامل لوگ ایک الگ اکائی ہی بناتے ہیں اور ایسا ہی بر صغیر میں ہواکہ دو الگ الگ ریاستیں بنیں ہندو چونکہ اکثریت میں تھے لہٰذا ان کی ریاست بڑی تھی لیکن دوسری طرف بھی سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی جسے ہندوذہنیت نے کبھی قبول نہیں کیا اور اس نے اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں اور جو جتنا بڑا سازشی تھا اُ سے اتنا ہی بڑا عہدہ اور مقام ملا۔انہی سازشوں کے لئے اس ملک نے باقاعدہ ادارے بنائے جن میں سب سے بڑا ادارہ ”را“ ہے کہنے کو تو یہ بھارت کی سرا غرساں ایجنسی ہے لیکن اس کی بنیادی ذمہ داری اور منشور ہی پاکستان اور چین کے خلاف کام کرنا ہے۔ 1962 میں چین کے ہاتھوں بد ترین شکست اور 1965 میں پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت کے رد عمل کے طور پر 1968 میں بھارت نے اپنی اس بد نام زمانہ ایجنسی کی بنیاد رکھی اور اسے جو خاص ترین مشن سونپا گیا وہ پاکستان میں مسائل پیدا کرنا تھا۔”را“نے مشرقی پاکستان میں جو مکروہ کردار ادا کیا وہ بذات خود تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اسی نے مکتی باہنی اور مجیب کو بنایا اور پاکستان کی سالمیت پر حملہ کیا اور آج بھی یہ پاکستان کے مختلف علاقوں خاص کر شمالی علاقوں میں براستہ افغانستان اور بلوچستان میں براستہ افغانستان اور ایران دونوں طرف سے ملوث ہے اور مسلسل سبوتاژ اور بد امنی کی کاروائیوں میں مصروف ہے جن میں اگر چہ اُسے پاکستانی اداروں کی چابکدستی کی وجہ سے وہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی جتنی وہ تگ و دو کر رہاہے اور نہ انشاء اللہ اُ س کی یہ خواہش پوری ہوگی۔ دوسری طرف خود بھارت کے اندر ایک بڑے پاکستان کا خوف اسے بلا وجہ ستاتا رہتا ہے یعنی بیس کروڑ کی دنیا کی سب سے بڑی اقلیت کا خوف جو مسلمان ہے اور یہ مسلمان اسی لئے ہر وقت عوامی ہندو عتاب کا بھی نشانہ بنتے رہے ہیں اور ریاستی دہشتگردی کا بھی اور اس کے لئے اُس کا ایک اور ادارہ مسلسل بر سرپیکار رہتا ہے اور وہ ہے آئی بی یعنی انٹیلجنس بیورو جس کا کام ملک میں اندرونی سطح پر سازشوں بلکہ حکومت مخالفوں کا خاتمہ ہے لیکن یہ بھی زیادہ تر مذہبی یا علاقائی اقلیتوں کے خلاف ہی مصروف عمل ہوتا ہے۔ یہی آئی بی بھارت سرکار کے اہم امور میں بھی دخیل ہے اور اس کی بدنامی بھی ”را“سے کچھ کم نہیں۔ اب اگر ان اداروں کے کام کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان کے سر براہوں کے لئے کس قسم کے لوگوں کو منتخب کیا جاتا ہوگا اور اس سال بھی دو ایسے ہی اشخاص کی تعیناتی کی گئی ہے جو ان اداروں کی سربراہی میں اپنے پیشروؤں سے کسی طرح کم نہیں۔ ان میں سے ایک اروند کمار ہے اور دوسرا سمنات گوئل۔ اروند کمار کو آئی بی اور گوئل کو”را“کا سربراہ بنایا گیا ہے یہ دونو ں انڈین سول سروس کے افسران ہیں۔ ان میں گوئل جسے ”را“کے سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا ہے وہی شخص ہے جس نے اسی سال فروری میں پاکستان کے اندر بالاکوٹ پر ہوائی حملے کی منصوبہ سازی کی تھی یہ اور بات ہے کہ اُس کا حملہ اس بُری طرح ناکام ہوا کہ اس میں سوائے ایک کوئے کی جان کے کوئی اور جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا ہاں چند جلے ہوئے درخت ضرور نظر آئے جو بھارت کی ناکام منصوبہ بندی اور کاروائی کی کہانی سنا رہے تھے۔ بہر حال گوئل پاکستان کے معاملات کا ماہر مانا جاتا ہے اور یہی اس تعیناتی کی وجہ ہے ویسے بالا کوٹ کی ناکامی کے بعد تو اُس کی نوکری کو ختم ہوجانا چاہئے تھا تاہم اُس کی حکومت شاید اُس کی مہارت کا مزید فائدہ اٹھانا چاہتی ہے یہ شخص 1990 کی دہائی میں بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک کو بے رحمی سے کچلنے میں بھی شامل تھا تو ظاہر ہے اس کے رویے میں سکھوں کے لئے اب بھی وہی سختی ہوگی جو تھی اور یوں پنجاب کیڈر کے اس افسر کا رول پنجاب میں بھی اہم رہے گا اور یہ اہمیت زیادہ تر منفی ہی ہوگی۔
دوسری ایسی ہی تعیناتی اروند کمار کی ہے جس نے پرانے آئی بی چیف راجیو جین کی جگہ لی ہے اروند کے خصے میں کشمیر میں جو مظالم اورقتل ہوں گے وہ تو ہیں ہی ساتھ ہی نکسل باڑی تحریک کو کچلنے کے لئے اس نے کیا کیا ہوگا وہ الگ کہانی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ علیحدگی پسند تحریکوں کی کوئی بھی حکومت پذیرائی کرے لیکن جس بر بریت کا مظاہر ہ بھارت اور خاص کر کشمیر میں ہوتا ہے اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اور یہی اروند جیسے لوگ ہیں جو ان مظالم کے پیچھے ہوتے ہیں۔ اروند نے انہی مظالم کی داد اپنی حکومت سے تمغوں کی صورت بھی پائی ہے اور اب اس عہدے کی صورت میں بھی پا لی ہے۔ بہرحال اب دیکھیں بھارت ناکام تجربے کرنے والے ان دونوں افسروں کی سربراہی میں مزید کتنے تجربے کرتا ہے ان کے ناکام تجربوں میں ایک تو حالیہ بالاکوٹ پر حملہ تھا اور دیگر کاموں میں بھی انہیں کو ئی خاص کامیابی یوں نہیں ملی کہ نہ تو نکسل تحریک ختم ہوسکی اور کشمیر میں تو ہر نئے دن کے ساتھ آزادی کی تحریک مزید زور پکڑتی جارہی ہے، خالصتان کی راکھ میں سے بھی کوئی نہ کوئی چنگاری اٹھتی رہتی ہے تاہم ان جیسے افسر اپنی د رندگی کی تسکین کے لیے مزید اور مزید منصوبے بناتے رہتے ہیں کامیابی اور ناکامی کی پرواہ کیے بغیر اور اب بھی گوئل اور اروند دونوں سے یہی تو قع ہے بہر حال دیکھیے یہ دونوں مل کر اپنی اس تعیناتی کے دوران کیا کچھ کرتے ہیں جس کے بارے میں کسی بہتری کی توقع ہر گز نہیں۔
|