آزاد جموں وکشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد بیلہ نور شاہ
گرڈ اسٹیشن کے باہر بجلی کی لائنیں ٹھیک کرتے ہوئے ایک نوجوان راجہ عظیم
اچانک بجلی آن ہونے کے باعث جان کی بازی ہار گیا‘ دو مزید اس کے ساتھی سی
ایم ایچ مظفر آباد میں زیر علاج ہیں جس کے بعد بجلی کا نظام درہم برہم ہے
جس کے باعث سزا عوام کاٹ رہے ہیں وہ سب جو بلواسطہ بلاواسطہ سرکار کے نظام
سے منسلک ہیں ان کے خوبصورت آشیانے روشن رہتے ہیں اور رہیں گے لیکن عوام
کہلانے والی مخلوق حیران ہے کہ سارا نزلہ ان پر کیوں گرا ہے واقعہ کے بعد
سے پہلی رات اندھیرے میں ڈوبے تو صبح شروع ہونے سے پہلے بجلی دیکھنے کو ملی
مگر اس کا آنا جانا لگا رہا کب جارہی ہے اور آ رہی ہے چھپن چھپائی جمیلا
دکھاتی رہی اور پھر شام چار بجے کے بعد سے دوسرے دِن ایسی غارت ہوئی کہ
ساری شب گزر گئی واپس وارد نہیں ہوئی جس کی خیریت معلوم کرنے کیلئے واپڈا
برقیات والوں کے موبائل نمبرز ملائے تو بند ملتے اور لائن نمبر گھماتے تو
مصروف ملے کیوں کہ ان کے ریسور میز پر چھوڑ دیئے گئے تھے برقیات کے
دفاتر‘واپڈا کے گرڈ اسٹیشن پہنچ کر پوچھا جاتا تو یہ ایک دوسرے کا پتہ
بتاتے ان سے پوچھیں ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے یہ پہلو معنی نہیں رکھتا ہے کہ یہ
عوام کہلانے والی مخلوق اس کے اشرافیہ درجات پر فائز طبقات باتوں‘ طعنوں
اور ہر دوسرے کو تم کچھ خبر لو کا مشورہ دینے میں ببر شیر ہیں مگر کچھ وقت
اپنے جائز اجتماعی حق مفاد کیلئے سائے سے دھوپ میں آنے کی زحمت کرنے کو سب
سے بڑا جرم مانتے ہیں زیادہ سے زیادہ اسلام آباد‘ مظفرآباد کے ایوانوں‘
اداروں کو تبرے تول کر ذہنی تسکین کے نعرے لگانے والوں کی طرح گزشتہ صدی پی
ٹی وی کے ڈنٹونک منجھن اشتہار میں سائن بورڈ پر کنارے سے نمودار لنگور کی
طرح کھیسانی بجلی کھمبا نوچے کا ہی ہی ہچ ہچ کا حلیہ پیش کر کے کام چلا
لیتے ہیں اور اپنے ارد گرد اوپر نیچے چاروں طرف کے کرداروں کا نام لیتے
ہوئے صورت تضاد بن جاتے ہیں کہ ناراضی نہ ہو غصہ ان پر نکالا جاتا ہے جن تک
آواز پہنچتی ہے نہ وہ سننے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں ورنہ توانائی کے منصوبہ
جات خصوصاً نیلم جہلم میں کرپشن کا کوہ ہمالیہ برپا کرنے والے کوہالہ کے آر
پار والوں کے خلاف بروقت اُٹھ جاتے تو نقشہ کچھ اور ہوتا‘ ساتھرا موڑ پر
تین سال سے کئی بار گڑھا کھودنے بند کرنے کا تماشہ‘ واٹر سپلائی سیوریج
سسٹم کے پانچ ارب کے گھپلے کا گٹرہے‘ جس میں ہاتھ رنگنے والوں کے نام ناطے
لبوں پر حرف سچائی کو مات دے جاتے ہیں‘ ایسی حالت زار میں اس کے عوامل پر
بات کرنا لفظ لکھنا بھینس کے آگے بین بجانے کی لاحاصل مشق ہے مگر جب ایک
ورک چارج نوجوان کا تاروں میں لٹک کر بے موت مارے جانے کا کرب ستاتا ہے تو
پھر اپنی قبر کا خوف ضمیر کے اطمینان کیلئے مجبور کرتا ہے یہ سوال پوچھا
جائے محض بارہ پندرہ ہزار ماہانہ وہ بھی چار چھ ماہ بار بار کے چکروں کے
بعد احسان کر کے دینے جیسے عمل سے دوچار قطعی عارضی ملازمت کے تمام حقوق
مراعات استحقاق سے محروم شخص کو بجلی کے کھمبے پر چڑھا کر آگ کے جھمیلے میں
جھونکنے کا کیا جواز تھا اور کون اس کا ذمہ دار ہے چار ماہ کی معصوم بچی کا
یہ نوجوان باپ کیوں وہ کام کر رہا تھا جو اس کی ذمہ داری تھی نہ وہ مستقل
ملازم اور نہ اس کام سے منسلک کرنا بنتا تھا کاش خالص کشمیری شیخ رشید یہاں
ہوتا تو کم از کم اس کے گھر پندرہ لاکھ کا چیک لے جا کر واقع کے ذمہ دار سب
بڑے بڑے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تو بند کرا چکا ہوتا مگر یہاں آر پار کے
گورکھ دھندے نے ایک دوسرے پر الزام دیکر اصل بڑے کرداروں اور لوٹ مار کرنے
والوں سمیت بھاری مراعات تنخواہیں لیکر شہزادوں کی طرح ٹھاٹھ بھاٹ مزے لینے
والوں کو تحفظ دے رکھا ہے حیرت ہے کہ زیر بحث نئے منصوبہ توانائی کے سرخیل
وہ تمام نہ ہونے والی باتیں کر رہے ہیں جس کے باعث اس کے ٹھیکیدار جرمانہ
کا استفادہ کر کے نو دو گیارہ ہو جائیں اور ماضی کی طرح ملک و ملت سے
کھلواڑ کر کے مزے دوبالا کریں جن کی ہوس خواجہ شمائل سفارشات کو ردی سمجھ
کر ان جراثیم کو پیدائش افزائش کی اندھیری گلی دے رہی ہے جن کو بعد میں خون
دیکر دھونا پڑتا ہے رہ گئی چار ماہ کی یتیم بیٹی تو اللہ اس کے مجرموں کو
اپنی پکڑ میں لیکر عبرت کا نشان بنائے ہاں اتناضرور ہے وطن عزیز میں کرپشن
کے لات منات کو سلاخوں کا راستہ دکھانے والے معاونین احتساب‘ اصل
اسٹیبلشمنٹ‘ مصلحت‘ مجبوری چھوڑ کر واپڈا اینڈ کو کو آئینہ دکھانے کی زحمت
کرے کیوں کہ یہ آپ کے نام گرامی کی آڑ میں اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے؟
|