بات سے بات

عجیب بات اکثر و بیشتر سنتے ہیں کہ فلاں شخص اَن پڑھ تھا لیکن اُن کے بچوں نے تعلیم حاصل کی۔ ذرا چند لمحات کے لئے سوچیں۔ کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہے؟ میرے مطابق ایسا ممکن نہیں ہے۔ہاں ! البتہ والدین نے مدرسہ نہیں پڑھا ہوگا لیکن انہوں نے زمانے کی اونچ نیچ سے ایسے اسباق سیکھے ہوں گے جو کتابوں میں نہیں ہوں گے اور ان اسباق کی بدولت وہ بغیر ڈگریوں کے ڈگری والوں سے پڑھے لکھے ہوں گے۔ یہ بات ماننی پڑھے گی کہ ایسے والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی زیادہ فکر ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے بچے معاشرے میں پڑھ لکھ کر نام کما تے ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی کافی نہیں ، اُن والدین نے اپنی نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے قربانیاں دیں ہوں گی۔ انہوں نے اپنے وقت کے ساتھ بڑی مشکل سے پیسوں کا انتظام کیا ہوگا اور ان پیسوں کے صحیح استعمال کے لئے انہوں نے چیک اینڈ بیلنس کا مناسب انتظام کیا ہو گا۔ بے شک اتنی قربانیوں کے بعد ہی مہربانیاں وارد ہوتی ہیں، یعنی مہربانی کے لئے پہلے قربانی کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جب اﷲ تعالیٰ نے اپنے عزیز بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مانگی تو پھر مہربانی کا دَر کھلا،قربانی قبول ہوئی اور اﷲ تعالیٰ کو آپ علیہ السلام کی قربانی اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے مسلمان ہر سال دس ذی الحجہ کو قربانی کے جانور ذبح کر یں گے۔ انبیاء کرام علیہ السلام ہر وقت اﷲ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کے لئے تیار رہتے تھے۔ ہم کو بھی چاہیے کہ ان کی سنتوں کی پیروی کریں۔ اور یہ خود اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کریں کہ قربانی کے بعد مہربانی کیسے ملتی ہے۔ لفظ قربانی کا مآخذ بھی قرب سے نکلا ہے،پس قرب چاہتے ہو تو قربانی دو اور مہربانی حاصل کرو۔ ہمیں چاہیے کہ اﷲ کا قرب ، قربانی سے حاصل کریں تاکہ اُس کی لامتناہی مہربانیاں ہمارا نصیب ٹھہریں۔ بے شک وہ ایک مہربان ذات ہے اور وہ ہمیں اپنی مہربانیوں سے محروم نہیں رکھے گا۔

کسی چیز سے محرومی اُس وقت تک ہوتی ہے جب قربانی کے علاوہ انسان کے اندر تلاش کا مادہ نا پید ہو۔ تلاش سے انسان کے اندر جستجو پیدا ہوتی ہے اور پھر حصول کی چاہت پروان چڑھتی ہے اور بالآخر محرومی دَم توڑ دیتی ہے۔ سب آشکارا ہوجاتا ہے، سب مل جاتا ہے۔ میرا ایک قریبی دوست بہت پڑھا لکھا ہے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے ، اُس نے اپنے قیمتی وقت کی قربانی دی ، بے شمار ڈگریاں اور سرٹیفیکیٹ حاصل کئے، یہ سب اُس کے قیمتی وقت سے ملیں۔ اَ ب اتنی تعلیم کرنے کے بعد ایک چھوٹی سی ملازمت کر رہا ہے، یعنی وقت کی قربانی نے اُس کو ڈگریا ں اور سرٹیفیکیٹ تو دلوائے لیکن اچھی نوکری سے محرومی تاحال ہے۔ اُس کے اندر چاہت کا مادہ ناپید ہے، جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ چاہت اُس وقت پروان چڑھے گی جب انسان کے اندر تلاش سے جستجو جنم لیتی ہے۔ ایک اور قیمتی بات یہ ہے کہ اپنے چاہت کا دائرہ کار وسیع رکھو، اگر آپ انسانیت کی فلاح کو اپنا محور بنا لیں تو بے شک اﷲ آپ سے آپ کی چاہت کے مطابق کام لے گااور اگر آپ کی چاہت کا دائرہ آپ کی اپنی چھوٹی سی ذات ہو تو صرف اُس کی فلاح کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ذرا سوچیئے، چاہت کا دائرہ انسانیت کی فلاح ہو، تو اس دائرہ میں انسان کی اپنی چھوٹی سی ذات بھی شامل ہوجائے گی۔ میرا چھوٹا بھائی ماسٹر ڈگری کے حصول کے بعد ہر وقت کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ جاتا اور ٹائپنگ ماسٹر سے اپنی ٹائپنگ اسپیڈ بڑھاتا۔ جب اُس کو عدلیہ میں کمپیوٹر آپریٹر کی نوکری ملی تو پھر وہ ہر روز ہزاروں الفاظ ٹائپ کرتا ، بالآخر چند سالوں میں تھک گیا۔ میں اُس کو سمجھاتا کہ آپ نے اپنی چاہت کا دائرہ کار ٹائپنگ کرنا بنایا تھا لہٰذا یہ نوکری آپ کو اپنی چاہت کے مطابق ملی۔ وہ بولتا کہ میں تو ٹائپنگ سیکھنے اور اپنی اسپیڈ بڑھانے کے لئے یہ پریکٹس کرتا تھا۔ میں اُس کو کہتا کہ آپ اپنی چاہت کا دائرہ کار سیع رکھ سکتے تھے۔ آپ بے شک ٹائپنگ سیکھتے اور ساتھ یہ چاہت رکھتے کہ اور لوگ آپ سے مستفید ہوتے تو شاید آپ کمپیوٹر انسٹرکٹر تعینات ہوجاتے۔ وہ میری بات سمجھ گیا، پھر اس نے اپنی چاہت کا دائرہ وسیع کیا اور کامرس کالج میں کمپیوٹر کا استاد بن گیا۔ میری بات آتے آتے وہیں رُک جاتی ہے کہ چاہت کا دائرہ انسانیت کی فلاح تک پھیلاؤ، پھر اپنی کامیابیوں کانظارہ کرو۔ اﷲ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہماری ذات کو انسانیت کی فلاح کا گہوارہ بنائے۔ امین۔

 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.