لاکھوں کا مجمع ،ہزاروں کا انبوہ
صبح وشام شہر کی مرکزی شاہراﺅں اور سڑکوں سے گزر کر اپنی منزلِ مقصود پر
پہنچتا ہے۔ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے دماغ پر ،اِس دوران سینکڑوں
اچھے برے مناظر،بیسیوں ترغیبی اشتہارات اور دسیوں متنوع دعوتوں سے مزین و
آراستہ جہازی سائز بورڈ ،بینرز اور نیون سائنز مختلف نقوش وتاثرات چھوڑ
جاتے ہیں۔موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی اعلیٰ طبقے کی بیگمات وخواتین کو” نت
نئے“اور موجودہ فیشن میں”اِن“ کپڑوں کی خریداری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔اِس
مقصد کے لیے متفرق ملکی کمپنیوں کی جانب سے کراچی،لاہور،اسلام آباد اور
پشاور سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں آویزاں کیے جانے والے تشہیری بورڈ ،ارض
پاک پر حدود اللہ کی کھلم کھلا اور اعلانیہ پامالی وبے حرمتی پر منہ بولتا
ثبوت ہیں۔ایک خالص اسلامی ونظریاتی ریاست ومملکت میں ہیجان خیز زاویوں، بے
ہودہ تصویروں اور شہوت انگیز منظروں کا یوں منظرعام پر لگ جانا، خالصتاً
غیظ ِخداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔اس تشہیری مہم کے پس منظر میں بھلا
اس کے سوا اور کون سی سوچ کار فرما ہوسکتی ہے؟کہ اسلامیانِ پاکستان کے
ایمان ودین کی تخریب واستیصال میں بھرپور حصہ لیا جائے۔رفتہ رفتہ غیر شعوری
وغیر وجدانی طور پر شرم وحیا اور حجاب وتستر جیسی پاکیزہ وارفع اسلامی
تعلیمات پر عمل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیا جائے۔
اسلام فطری دین ہے۔انسان کی پیدائش سے لے کر بعد از مرگ آنے والے حالات
ولمحات کے حوالے سے اس کی تعلیمات و راہنمائی مکمل ،جامع اور کامل ہیں۔حیا
اور شرم جیسی اعلیٰ قدریں اور خصلتیں ،اسلام نے ہی انسانیت وآدمیت کو
سکھلائیں اور سمجھائیں۔نگاہوں کو جھکانے،شرم گاہوں کی حفاظت کرنے اور بے
حیائی وبدکاری کی جگہوں کے قریب نہ جانے جیسے روشن ومنور احکامات وہدایات
دین متین ہی کا خاصہ اور حصہ ہیں۔خود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت
ذخیرہ احادیث میں صراحتاً یہ بات ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری
لڑکیوں سے زیادہ حیادار اور شرم رکھنے والے تھے۔نطق ِنبوت نے شرم ولحاظ کو
ایما ن کا جز قرار دیا۔گویا کسی علاقے،مقام اور محلے میں عریانیت وفحاشیت
کا عام اور شائع ہوجانا ،وہاں اسلام کے نام لیواﺅں میں ایمان کی کمزوری اور
ضعف کا بنیا دی اور کلیدی سبب و وسیلہ بن سکتا ہے۔
اس کے برخلاف جو مسلمان قوم ،قبیلہ اور فرد بے حجابی اور بے پردگی کے حمام
میں ننگا ہوتا ہے،شریعت مطہرہ اس کا مقام ومرتبہ اسفل سافلین بتلاتی
ہے۔ایسے لوگ جو کلمہ پڑھ کر ،اسلامی نام رکھ کر اور اسلامی تہوارو مواقع
میں شریک ہونے کے باوجود ،مسلمانوں میں بے حیائی اور بدی کا سیلاب اور بے
شرمی کا طوفان عام کرنا چاہتے ہیں ،کتاب مبین نے صاف صاف لفظوں میں ان کے
لیے دنیا وعقبیٰ میں دردناک عذاب کی مبنی برحقیقت خبر دے دی ہے۔نیز جو لوگ
بیہودگی وناپسندیدگی کے اِن امور میں بلاواسطہ یا بالواسطہ معین ومددگار یا
شریک ِکار بنتے ہیں ،اُن کی تذکیروخیرخواہی اور نصیحت کے لیے حضرت حکیم
الامت تھانوی رحمہ اللہ کا یہ ملفوظ چشم کشا بھی ہے اور بصیرت افروز بھی
:”معصیت اور گناہوں کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس کے سبب عقابِ خداوندی نازل
ہوتا ہے۔اور جن پر ہوتا ہے وہ تین قسم کے لوگ اور فرد ہیں۔ پہلا، بلاواسطہ
معصیت میں مبتلا شخص۔دوسرا،شرکت ومعاونت کرنے والا فرد؛اگرچہ وہ خود اس
برائی سے بچا ہوا ہو۔ تیسرا،کارِمعصیت میں شریک تو نہیں، مگر ملامت ونفرت
بھی نہیں ۔“(ملخصاً،ملفوظات حکیم الامت 73/2)
چنانچہ اس فتنہ پرور ماحول اور پرآشوب گھڑی میں دینی تعلیمات اور مذہبی
اخلاقیات کو زیادہ سے زیادہ اجاگر اور عام کرنے کی ضرورت وحاجت پہلے سے
کہیں بڑھ کر ہے۔دین کے لٹیروں اور قزاقوں سے ایمان کی حفاظت وسلامتی، ہر
صاحب ِایمان کا اولین دینی فریضہ اور ذمہ داری ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بے
لباسی اور بے حیائی کے اِس چھنگاڑتے سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے ہر
طبقے اور ہر سطح میں،ہر حوالے سے موثر اور نتیجہ خیز پیش بندی کی جائے۔شرم
وحیا پر مبنی رویوں کی حوصلہ افزائی،زیر تربیت افراد ورجال کی اخلاقی ذہن
سازی اور معاشرتی واخلاقی بگاڑ و فساد پیدا کرنے والے وسائل وذرائع کی مکمل
بیخ کنی اور اُن سے اظہارِ تنفرہی ،ہماری نسل نو کے معصوم ذہنوں ،نظروں اور
دلوں کو روحانی پاکیزگی اور باطنی صفائی کا سامان مہیا کرسکتی ہے۔بلا شبہ
حیا سے لبریز آنکھ اور ستھرے جذبات کا عکاس قلب، ملک کی تعمیر اور قوم کی
ترقی کا ضامن اور مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُن سوچوں اور نظریات کا بھرپور مقاطعہ اور
بائیکاٹ کریں ،جو ہماری نوخیز پَود کو ایمانی حلاوت وچاشنی اور حرارت سے
محروم کرنا چاہتے ہیں۔ایسے تمام حیا باختہ اذہان اور ایمان سوز افکار جو
ہماری جڑوں اور بنیا دوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہے ہیں،جو مسلمانوں
میں حق تعالیٰ کی سرکشی وبغاوت کا مسموم زہر پھیلا رہے ہیں،جو اہل ِایمان
کو لذت کوش اور نفس پرست بنا کر ان کی” متاع عزیز“ پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں کی
حوصلہ شکنی ،عدم پشت پناہی اور بے وقعتی کی فضا بنائی جائے۔ برائی کو برائی
سمجھنے کا احساس وشعور جب تک ہماری انفرادی واجتماعی فکروں ورویوں میں
بیدار اور کروٹ نہیں لے گا ،اُس وقت تک اِس ”باد صرصر “کی ہلاکت خیز جھکڑوں
سے بچاﺅ ناممکن ومحال ہے۔
نیکی وتقویٰ ،غیرت حمیت اور لحاظ وشرم جیسی بلند انسانی صفات وعادات کو
معاشرے میں فروغ ورواج دینے کے لیے ،ہم میں سے ہر ایک کو پہلی اینٹ خود
رکھنی ہوگی۔اصلاح ِمعاشرہ میں سب سے پہلا اور اول کردار خود ہمیں ادا کرنا
ہوگا۔پھر اپنی ذات ،اپنے خاندان اور اپنے کنبے سے شروع کی جانے والی یہ
تحریک اور مہم بہت جلد یا بدیر انشاءاللہ تعالیٰ اپنا اثر ورنگ دکھائے
گی۔کیو نکہ یہ قرآن کریم کی سچی ،ابدی اور سرمدی پیش گوئی ہے کہ ”اچھائی
برائی اور پاکی ناپاکی کبھی برابر نہیں ہوسکتے“ہمیں اور آپ کو پوری ہمت
وحوصلہ اور عزم وتوکل کے ساتھ اپنے حصے کا کام کردینا چاہیے ،کہ کل بروز
محشر ہم میں سے ہر ایک رب تعالیٰ کے حضور ،اپنے عمل ،قول اور نیت کا بذات
خود جواب دِہ اور مسول ہے۔ |