ناک اور کان: قومی تفریح یا ذاتی صفائی؟ "صاف ستھری ناک، خوشحال پاکستان!"
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ہمارے ہاں عوامی مقامات پر عادتوں کا ایک ایسا میوزیم لگا ہوتا ہے جس میں آپ کو ہر قسم کے نایاب اور "فطری" نمونے ملتے ہیں۔ بس اسٹاپ سے لے کر شادی ہال اور دفتر کی قطار تک، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی شخص اپنی "قدرتی کھدائی مہم" میں مصروف نظر آتا ہے۔ اور سب سے زیادہ ہلاکت خیز مہم وہ ہے جب کوئی صاحب ناک کے بالوں کو عوامی خدمت سمجھ کر چمچوں اور قینچیوں کے بغیر اپنی انگلیوں کو اوزار بنا لیتے ہیں۔
اب بھلا سوچنے کی بات ہے، آپ آرام سے بینچ پر بیٹھے ہوں، اچانک ساتھ والے صاحب ناک کے اندر سے "قدرتی خزانے" کی تلاش میں نکل پڑیں۔ ان کے تاثرات ایسے ہوتے ہیں جیسے تیل کی کھدائی میں کامیابی ہونے والی ہو۔ اور جب بالا?خر وہ کامیاب ہو جائیں تو ان کے چہرے پر وہی فخر جھلکتا ہے جو کرکٹ میں چھکا لگانے کے بعد بیٹسمین کے چہرے پر ہوتا ہے۔
یہ تو ہوگئی ناک کی مہم، اب ذرا کان کی گلیوں کا تذکرہ بھی کر لیں۔ کچھ لوگ ایسے فنکار ہوتے ہیں کہ کان میں انگلی گھما کر ایسی موسیقی ترتیب دیتے ہیں جیسے کوئی ڈھولچی اپنی ریہرسل کر رہا ہو۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہ عمل ان کو سکون اتنا دیتا ہے کہ ساتھ ساتھ گنگنانا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ ناظرین کی کیفیت اس وقت "گھبراہٹ + قہر + کراہت" کا ایک ایسا مرکب بن جاتی ہے جسے بیان کرنا مشکل ہے۔
اصل مسئلہ تب بنتا ہے جب یہی حضرات صفائی مکمل کرنے کے بعد بڑے پیار اور گرمجوشی سے ہاتھ ملانے پر ت±ل جاتے ہیں۔ اب سامنے والا بندہ کنفیوز رہ جاتا ہے کہ یہ ہاتھ دبائے یا صابن کی بوتل ڈھونڈے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب مصافحہ ایک کھیل بن جاتا ہے: "ہاتھ ملاو¿ں یا جان بچاو¿ں؟"
کمال کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ تو "ملٹی ٹاسکنگ" کے بادشاہ نکلتے ہیں۔ کبھی کبھار انگلی ناک میں ڈال کر گاڑی بھی چلاتے ہیں، اور منزل پر پہنچ کر زبردستی ہاتھ بھی ملا لیتے ہیں۔ اب بیچارہ سامنے والا سوچتا ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا یا ناک کی ورکشاپ میں؟
ہماری قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو اجتماعی ورثہ سمجھتے ہیں۔ پرسنل ہائی جین بھی شاید ہمیں لگتا ہے کہ عوامی جگہوں پر ہی بہتر طریقے سے پریکٹس کی جاسکتی ہے۔ جیسے کوئی صاحب دفتر میں بیٹھے بیٹھے مونگ پھلی توڑتے تو ٹھیک ہے، لیکن ناک یا کان کے بال توڑنے کو بھی وہی درجہ دے دینا سراسر ناانصافی ہے۔
سوچیے، میٹرو بس میں ایک سیٹ پر تین لوگ ٹھنسے بیٹھے ہیں، اور درمیان والے بھائی صاحب انگلی گھما کر کان کے میل کو "پبلک پروجیکٹ" سمجھ رہے ہیں۔ سامنے کھڑے مسافر کے دماغ میں صرف ایک ہی دعا چل رہی ہے: "یا اللہ! ٹریفک جام جلدی ختم ہو جائے، ورنہ میں خود کو ونڈو سے باہر پھینک دوں گا۔"
اب ذرا معاشرتی نفسیات پر غور کریں۔ یہ لوگ شاید سمجھتے ہیں کہ یہ ایک "معمولی" بات ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرے لوگ ان کے قریب کھڑے ہو کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ہر بار جب کوئی ناک میں انگلی ڈالتا ہے تو قریبی شخص کے ذہن میں بس یہی خیال ابھرتا ہے: "شاید انسان چاند پر پہنچ گیا ہے، لیکن یہ انگلی ابھی تک ناک ہی میں پھنس کر رہ گئی ہے۔"
مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے حضرات کو اپنی حرکت پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ اگر کوئی ٹوک بھی دے تو فوراً جواب دیتے ہیں: "بھائی! اپنی ناک ہے، اپنا کان ہے، آپ کو کیا مسئلہ ہے؟" اب بھلا کون سمجھائے کہ مسئلہ ناک یا کان کا نہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں ہینڈ شیک، چائے کے کپ، لفٹ کے بٹن اور دفتر کے کی بورڈ تک متاثر ہو رہے ہیں۔
لہٰذا گزارش ہے کہ ناک اور کان کی یہ محبت گھر کے کمرے، باتھ روم یا کم از کم بیڈروم تک محدود رکھیے۔ عوامی جگہوں پر یہ "فنِ کھدائی" نہ کیجیے۔ ورنہ ایک دن حکومت کو یہ نعرہ لگانا پڑے گا: "صاف ستھری ناک، خوشحال پاکستان!"
|