پشاور بارش کے بعد جل تھل ایک – قبضہ گروپ کے نالے بند، دکاندار پانی میں تیرنے پر مجبور!
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور والوں کے نصیب میں شاید اب ہر برسات کے ساتھ "سوئمنگ پول" کی سہولت لکھ دی گئی ہے۔ بارش کیا ہوئی، شہر تالاب اور نالیاں دریا بن گئیں۔ عام شہریوں کو تو پانی میں غوطہ لگانے کی مفت ورزش مل گئی، مگر غریب دکاندار کروڑوں کا نقصان اٹھا بیٹھے۔ سوال یہ ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ قدرتی بارش یا مصنوعی قبضہ گروپ؟
اندرون شہر ناجائز تجاوزات کی کہانی کسی فلم سے کم نہیں۔ شاہی کھٹا سمیت درجنوں ندی نالوں پر دکانیں، پلازے اور حتیٰ کہ مسجدیں تک کھڑی کر دی گئیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے ندی نالے اصل میں کاروباری پلاٹ ہی تھے، جن پر تھوڑا سا "ایمان کا تڑکا" لگا کر اللہ کے گھر اور انسانوں کی مارکیٹیں ساتھ ساتھ بنا دی گئیں۔ اب جناب، نمازیں بھی ہو رہی ہیں اور دکانوں کا کرایہ بھی جیب میں آ رہا ہے۔ واہ واہ، دین اور دنیا دونوں ہاتھ میں۔
اب آتے ہیں "ٹیوب ویل ماما" پر۔ یہ صاحب تو مزے کے کمالات لے آئے۔ سرکاری ٹیوب ویل کی جگہ دکانیں بنا ڈالیں۔ جی ہاں، جہاں سے کبھی عوام کو پینے کا پانی ملتا تھا، اب وہاں جوتوں، کپڑوں اور پکوڑوں کی رونق لگی ہوئی ہے۔ لگتا ہے ماما جی کا نعرہ یہی ہے: "پانی پینے کے لیے نہیں، بہانے کے لیے ہے۔"
بارش آتے ہی ان سب ناجائز تجاوزات نے نکاسی آب کے راستے بند کر دیے۔ نتیجہ؟ پورا پشاور ایسے ڈوبا جیسے کسی نے بڑے پیمانے پر فش فارمنگ کا منصوبہ شروع کر دیا ہو۔ دکاندار اپنی زندگی کی پونجی بچانے کے لیے سامان اوپر اٹھاتے رہے، مگر پانی نے کسی کی ایک نہ سنی۔ یوں لگا جیسے شہر نے اجتماعی طور پر "واٹر پارک" کا افتتاح کر دیا ہو۔
شہری سوال اٹھا رہے ہیں کہ قبضہ گروپ کے خلاف نعرے لگانے والے وہی تاجر مافیا کہاں غائب ہیں؟ جو سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے کروڑوں کماتے ہیں، مگر جب عوامی نقصان کی بات آتی ہے تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ شاید ان کے نزدیک عوام کی چیخ و پکار صرف پس منظر کی "بیک گراو¿نڈ میوزک" ہے، جو ان کے کاروبار کو ڈرامائی رنگ دیتی ہے۔
یہ سب کھیل برسوں سے جاری ہے۔ ہر حکومت آتی ہے، مہم چلانے کا اعلان کرتی ہے، فوٹو سیشن ہوتا ہے، چند چھابڑی والے بے چارے اٹھا لیے جاتے ہیں، پھر سب ٹھپ۔ بڑے پلازے اور قبضہ گروپ کے "ڈان" پھر اسی شان و شوکت سے حکومت کو آنکھ مار دیتے ہیں اور عوام کو اگلی بارش کا انتظار رہتا ہے۔
اصل مزے کی بات یہ ہے کہ جب شہری پانی میں ڈوب رہے تھے، کچھ "بزرگوار" سوشل میڈیا پر ویڈیوز ڈال کر کہہ رہے تھے: "یہ اللہ کا عذاب ہے۔" جناب والا! یہ عذاب نہیں، یہ آپ کے ہی "بزنس ماڈل" کا نتیجہ ہے۔ ندی نالے بیچ کر دکانیں بنانے والے اگر عذاب نہیں تو اور کیا ہیں؟
اب عوام پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہر بارش کے ساتھ ہمیں یہی کمال دیکھنا ہوگا؟ کیا پشاور کو مستقل "چھوٹا وینس" بنایا جا رہا ہے جہاں کشتیاں چلیں گی اور گنڈاسے کے بجائے کشتی رانی کے مقابلے ہوں گے؟ اگر یہی حال رہا تو اگلی بارش میں میونسپل کمیٹی کے ساتھ ساتھ "سوئمنگ کوچ" بھی بھرتی کرنا پڑیں گے۔
وقت آ گیا ہے کہ قبضہ گروپ اور ناجائز تجاوزات کے خلاف حقیقی کارروائی ہو، ورنہ ہر بارش کے ساتھ پشاور کے شہری پانی میں تیرتے رہیں گے، دکاندار روتے رہیں گے اور قبضہ مافیا مزے سے نوٹ گنتا رہے گا۔ آخر کار پشاور کو شہر کہنا چاہیے یا ایک بڑا سا "واٹر پولو اسٹیڈیم"؟ |