پشاور: بارش، کشتی رانی اور فوٹو سیشن کا شہر


پشاور والوں کو بارش کے دنوں میں عجیب و غریب سرپرائز ملتا ہے۔ جیسے ہی بادل برستے ہیں، سڑکیں فوراً "دریا کابل پارٹ ٹو" میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ صدر بازار، جہاں لوگ عام دنوں میں جوتے خریدنے آتے ہیں، بارش کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے کوئی شوٹنگ ہو رہی ہے: "ٹائیٹینک—پشاور ایڈیشن"۔

شہری بیچارے پانی میں پھنسے، کوئی جوتے اٹھا کر کاندھے پر رکھے، تو کوئی شلوار گھٹنوں تک چڑھائے۔ کچھ تو ایسے لگتے جیسے حج کے دوران صفا مروہ کی سعی کر رہے ہوں۔ بچے خوش، کیونکہ ان کے پاس فری میں "واٹر پارک" آگیا، جبکہ بزرگ ناراض، کہ یہ پارک جھولوں کے بغیر ہے۔

اب آتے ہیں ہمارے عوامی نمائندوں کی طرف۔ بارش شروع ہوئی تو فوراً موبائل کیمرے اور فوٹوگرافرز کے ساتھ نکلے۔ پانی میں دو قدم چل کر تصویریں بنوائیں، ایک وزیر صاحب نے تو جوتے بھی اتار کر پاو¿ں پانی میں ڈالے تاکہ لگے کہ وہ عوام کے ساتھ ہیں۔ فوٹو سیشن مکمل ہوا، فیس بک اور ٹوئٹر پر پوسٹ ہوا: "ہم عوام کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں"۔ اور اس کے پانچ منٹ بعد وہ خوشی خوشی گاڑی میں بیٹھ کر نکل گئے۔ عوام پھر بھیگتی رہی۔

ڈبلیو ایس ایس پی کا حال دیکھ لیں۔ قومی خزانے سے اربوں روپے لینے کے باوجود نکاسی آب ان کے بس کی بات نہیں۔ ان کے دفتر میں فائلیں، منصوبے اور پریزنٹیشنز تو ایسے ہیں جیسے یہ پیرس کی میونسپلٹی ہوں۔ لیکن جیسے ہی بارش برستی ہے، پشاور پیرس نہیں، وینس بن جاتا ہے—بس فرق یہ کہ یہاں گونڈولا کشتیوں کی جگہ رکشے پانی میں تیرتے ہیں۔

چیف ایگزیکٹو صاحب لاکھوں کی تنخواہ، پٹرول اور مراعات لے کر بیٹھے ہیں۔ شاید وہ سوچتے ہوں کہ "پانی نکالنے کی کیا ضرورت ہے، شہری خود ہی تیرنا سیکھ لیں گے"۔ اگلے سال اگر ڈبلیو ایس ایس پی کا کوئی اشتہار آیا تو یقیناً یہ نعرہ ہوگا:
"ہر شہری ایک تیراک—پشاور کا خواب"۔

ناجائز تجاوزات نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ندی نالوں پر دکانیں اور مساجد بنا دی گئیں۔ اب پانی سوچتا ہے کہ بھائی میں بہوں کہاں سے؟ تو وہ غصے میں آ کر بازاروں میں ہی ڈیرہ ڈال دیتا ہے۔ بعض دکان داروں کے تو شٹر کھلتے ہی پانی اندر، گاہک نہیں تو کم از کم مچھلیاں تو مل رہی ہیں۔

انتظامیہ کا حال بالکل وہی ہے جیسے کوئی طالب علم امتحان سے ایک رات پہلے سو جائے اور خواب میں پاس ہونے کے خواب دیکھے۔ شہری حیران ہو کر کہتے ہیں:
"یہ انتظامات نہیں، ہمارے ساتھ کھلا مذاق ہے"۔

لیکن مذاق بھی اتنا لمبا کہ بارش رکنے کے بعد بھی پانی نہیں جاتا۔ لوگ گھروں سے نکل کر سوچتے ہیں کہ دفتر جانا ہے یا کشتی کا بندوبست کرنا ہے۔ کچھ نے تو سچ مچ ریڑھیوں کو کشتی بنا لیا ہے۔ صدر بازار میں ایک نوجوان نے تو زور سے آواز بھی لگائی:
"چلو بھائی چلو، صدر بازار سے حیات آباد تک صرف بیس روپے فی سواری!"

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 737 Articles with 614783 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More