جب بھی کسی قوم کی تاریخ میں، کوئی خوش کن اور مسرت رساں
یا تکلیف دہ ، اذیت رساں اور غم ناک حادثہ وقوع پذیر ہوتا ؛ تو وہ قوم اسے
بھلا نہیں پاتی؛ بل کہ اسے ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں باقی رکھنے کی کوشش
کرتی ہے۔ بعض دفعہ اس کی بقا کے لیے، اسے کسی ایسی چیز کے ساتھ منسوب کردیا
جاتا ہے کہ وہ ایک زمانہ تک باقی رہتا ہے اور کبھی اس میں دوام آجاتا ہے۔
پھر وہ واقعہ و حادثہ اس کے ضمن میں یوم جشن یا یوم حزن کے طور پر یاد کیا
جاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ مختلف شکل و صورت میں، وہ دن و تاریخ متعلق قوم کے
ساتھ لگی رہتی ہے۔ اسی طرح مسلم قوم بھی "واقعہ ہجرت" کی تاریخ سے اپنے
اسلامی سن کا آغاز و افتتاح کرکے آج تک واقعہ ہجرت کو اپنےخانہ خیال میں
بسائے ہوئی ہے، جو حقیقت میں یاد کیے جانے کے لائق بھی ہے، جو اپنے دامن
میں بے شمار تاریخی حقائق کو سمیٹے ہوئے ہے۔
ہم تاریخی اوراق کا مطالعہ کرتے ہیں تو انسانی تاریخ میں ہمیں بہت سی
ہجرتیں ملتی ہیں، مگر ان میں کچھ ایسی ہجرت تھی جو شہرت و کام یابی کی چوٹی
پر پہنچ گئی اور آج وہ تاریخ کا ایک زبردست حصہ ہے کہ لاکھ کوششوں کے
باوجود، اسے تقریبا چودہ سو سال بعد بھی تاریخ سے مٹایا نہیں جا سکا؛ جب کہ
کچھ ایسی ہجرتیں ہیں، جن کا تذکرہ تلاش بسیار سے بھی نہیں ملتا۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد- صلی اللہ علیہ وسلم- کی ہجرت کا تعلق پہلی قسم سے
ہے۔ یہ ایسی ہجرت ہے کہ اس سے دوست ہو یا دشمن ہر ایک واقف وبا خبر ہیں اور
تاریخ اسےپرونے کے لیے خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے صفحات پیش کررہی ہے؛ کیوں
کہ یہ ہجرت پر امن وطن اور عمدہ زندگی کی تلاش کے لیے نہیں تھی؛ بل کہ یہ
دین اسلام کی حفاظت و صیانت، وحدانیت کی نشر و اشاعت اور اعلاء کلمۃ اللہ
کے لیے اضطراری ہجرت تھی؛ جب کہ دوسری ہجرتیں پر امن وطن، عیش کوشی، آرام
طلبی اور عمدہ زندگی کی تلاش کی خاطر اختیاری ہجرتیں تھیں۔
خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- کے زمانے میں صحابہ کرام –رضی
اللہ عنہم– کے درمیان یہ مسئلہ بحث وتحقیق کا موضوع بنا کہ "اسلامی سن" کا
آغاز و افتتاح کب سے ہو؟ چناں چہ کسی نے رائے دی کہ حضور -صلی اللہ علیہ
وسلم - کے "یوم ولادت با سعادت" سے؛ لیکن یہ رائے مسترد کردی گئی؛ کیوں کہ
اس صورت میں "نصاری قوم" سے مشابہت ہے کہ وہ "عیسوی سن" کا افتتاح حضرت
عیسی -علیہ السلام- کی ولادت کے دن سے کرتے ہیں۔ پھر کسی عرض کیا کہ "یوم
نزول وحی الہی" سے اور کسی نے کہا "یوم فتح مکہ"، علی ہذا القیاس، یوم ظہور
اسلام، واقعہ فتح بدر، حجۃ الوداع وغیرہ جیسے مختلف مواقع اور ایام پر گفت
و شنید ہوئی۔ ان میں کسی پر صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم – کا اتفاق نہیں
ہوسکا۔ وہ واقعہ جس سے "اسلامی سن" کے افتتاح و آغاز پر اتفاق کیا گيا وہ
تھا، "واقعۂ ہجرت علی صاحبہا الصلاۃ والسلام"؛ لہذا واقعہ ہجرت سے اسلامی
سن کا آغاز و افتتاح با ہم مشورے کے بعد منظور ہوگیا۔ یہ آج تک باقی ہے اور
اسی کی طرف منسوب کرتے ہوئے ہم "اسلامی ہجری سن" کو اپنی تاریخ کا حساب
لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
بہ ظاہر واقعہ ہجرت سے یاس و ناامیدی اور بے کسی و بے چارگی کا اظہار ہوتا
ہے۔ دوسرے بہت سے ایسے واقعات تھے جس سے اسلام کی شان و شوکت اور عظمت و
رفعت معلوم ہوتی ہے، پھر بھی صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم- نے سن کا اختصاص
"واقعہ ہجرت" سے کیوں کیا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جو اول وہلے میں کسی کے
بھی ذہن میں آسکتا ہے۔ اس کا جواب علماء نے یوں لکھا ہے کہ واقعہ ہجرت کا
اگر گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا جائے؛ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسئلے کی
وہ صورت نہیں ہے، جو سوال میں مذکور ہے؛ بل کہ اس کے برعکس ہے۔ واقعہ ہجرت
کے ساتھ اسلام، پیغمبر اسلام اور صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم- کی بہت بڑی
کام یابی و کامرانی مضمر تھی۔ جب نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم- اور صحابۂ
کرام –رضی اللہ عنہم- "مکہ مکرمہ" میں سکونت پذیر تھے، تو کفار و مشرکین نے
انھیں مصائب و آلام پہونچانے میں کوئی موقع فروگزاشت نہیں کیا، ان کے کام
کو بدنام کرنے کی جد و جہد اور سعی کی، دین اسلام کو نقصان پہونچانے کے
درپے رہے، حتی کہ قبیح الوجوہ اور ناپاک مشرکین نے آں حضور –صلی اللہ علیہ
وسلم-پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ بنایا، مگر ہجرت کے بعد کفار و مشرکین کی
ہر کوشش ناکام ہوگئیں، ہر حکمت عملی بے سود ثابت ہوئی او ر انھیں ناکامی و
نامرادی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ اسلامی حکومت کی تاسیس ہوئی، مسجد نبوی کی
تعمیر ہوئی، انصار و مہاجرین میں اتحاد و اتفاق کا پرچم بلند ہوا، عدل و
مساوات اور ایثار و قربانی اور مدد و نصرت کا جذبہ پیدا ہوا، نصرت خداوندی
پر اعتماد و توکامل ہوا، ایک عظیم، صالح اور صحت مند معاشرہ کی تشکیل ہوئی
اور عروج اسلام کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اسلام پھلا پھولا اور دنیا کے چپے
چپے میں پھیل گیا۔ توحید و رسالت کا پیغام پورے عالم میں پہنچا اور رشد و
ہدایت عام ہوگئی؛ لہذا بلاقیل و قال یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہجرت نبوی نے
اپنے دامن میں بہت سے واقعات سمو رکھا ہے، اور یہ اس کا مستحق تھا کہ اسی
کے ساتھ "اسلامی سن" کا اختصاص کیا جائے؛ چناں چہ خلیفۂ ثانی حضرت عمر –رضی
اللہ عنہ- کا صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم- سے باہم مشورہ کے بعد، اس کو
منتخب کرنا، ایک حسن انتخاب ہے اور یہ بتاتا ہے کہ صحابۂ کرام–رضی اللہ
عنہم- کی دانش مندی و خردمندی آسمان کی بلندیوں تک پہنچی ہوئی تھی۔
جب اس بات پر تمام صحابۂ کرام نے اتفاق رائے کرلیا کہ سال کا افتتاح واقعۂ
ہجرت سے ہو؛ تو یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ کس مہینے کو سال کا "اول مہینہ"
قرار دیا جائے؟ اس حوالے سے تمام صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم-نے باہم مشورے
کے بعد یہ طے کیا کہ "محرّم الحرام" ہی کو سال کا پہلا مہینہ متعین کیا
جائے؛ کیوں کہ حضور -صلی اللہ علیہ وسلم –ماہ محرم میں ہی ہجرت کا ارادہ
کرچکے تھے۔ دوسری بات یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی سال کا پہلا مہینہ
"محرم الحرام" ہی تھا؛ لہذا اس کو پہلا مہینہ طے کرنے سے سابق نظام میں
کوئی خلل و پریشانی رونما نہیں ہوگی، اور نہ نئے اسلامی سال میں بھی کسی
طرح کی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر ماہ و سال کی تعیین کے بعد،
"ہجرت" کے بعد وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات کو اسی تاریخ کے ساتھ مرتّب
کیا گيا۔
آج مسلمانوں کی حالت بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے، خواہ وہ اسلامی ممالک میں
گزر بسر کررہے ہوں یا غیر اسلامی ممالک میں، مغربی ممالک کے طرز فکر و عمل
کو اپنانے میں اپنی ترقی و عمرانی سمجھتے ہیں اور اسلامی احکام و نظریات کو
تنزلی کا پیش خیمہ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔ یہود و نصاری
کی تہذیت و ثقافت کی طرف ایسے دوڑتے ہیں، جیسے بھوکے بھیڑیے نے کسی چراگاہ
میں کسی معصوم بکری کو پالیا ہو اور منٹ بھی نہیں گزرتا ہے کہ اس سے اچھی
طرح مانوس ہوجاتے ہیں اور وہ جو کچھ بھی ہوتا ہے، اسے عصر حاضر اور دور
رواں کی ترقی شمار کرتے ہیں۔حال آں کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے
اپنانے اور اختیار کرنے سے پہلے عقل و خرد کے انفتاح کے ساتھ اس پر غور و
فکر کرنا چاہیے کہ کیا یہ اسلام کے متصادم تو نہیں ہے؟ اس کا نتیجہ کیا
مرتب ہوسکتا ہے؟ مگر افسوس! آج اکثر لوگ ایسی عقل و خرد سے محروم ہیں۔
دشمنان اسلام، اہل اسلام پر اپنی تہذیب وثقافت کو، اس کے فوائد پیش کرکے،
تھوپنے اور برپا کرنے کی بے حد کوشش کررہے ہیں، اور وہ اس میں پورے طور پر
کام یاب بھی ہیں؛ جب کہ یہ چیزیں مسلمانوں کے لیے مضر اور سم قاتل ہیں، پھر
بھی اہل اسلام اس کا استقبال کرتے ہیں۔
جب نیا عیسوی سال شروع ہوتا ہے، تو نہ جانے ہم کیا کیا ناجائز و حرام عمل
کا ارتکاب کرتے ہیں، خوشی و مسرت میں جھومتےہیں، اور اسی "عیسوی کلینڈر" سے
تاریخوں کا حساب لگاتے ہیں۔ مسلمان ہونے کے باوجود بہت سارے لوگوں کو یہ
معلوم بھی نہیں ہوتا کہ نیا ہجری سن کب شروع ہوتا ہے؟ ہمیں ماہ محرم میں
کون کون سے اعمال کرنے چاہیے اور کن کن سے افعال سے اجتناب کرنا چاہیے؟
اسلامی سال کے بارہ مہینے کون کون ہیں؟ نہ ضرورت کے وقت ہم ہجری کلینڈر کا
استعمال کرتے ہیں، سوائے چند مدارس و جامعات کے کہ وہاں تاریخ کا حساب اسی
کلینڈر سے لگایا جاتا ہے۔ اگر ہمارا یہی عمل جاری رہا؛ تو وہ دن دور نہیں
کہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت سے دور ہوجائیں گے اور اپنے تاریخی واقعات و
کارنامے فراموش کر بیٹھیں گے۔
|