وہ ایک درویش صفت شخص تھا ، سفید داڑھی سے اُس کے چہرے پر
رونق پھیلی ہوئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ میں اُس کی صحیح عمر کا اندازہ نہیں
لگا سکا۔ جیسے ہی وہ میرے آفس میں داخل ہوا ، اُس کی نورانی شخصیت میں
مقناطیسی کشش نے مجھے اپنی جانب کھینچ لیا تھا لیکن وہ جس انداز میں آفس کے
اندر داخل ہوا اور سیکنڈوں میں اپنا مدعا بیان کیا، اُس سے یہ واضح ہوگیا
تھا کہ وہ جلدی میں ہے۔ وہ اپنے بچے کی ڈی ایم سی لینے آیا تھا۔ میں نے سب
سے پہلا کام اُس کے ذمے بقایاجات اکاؤنٹنٹ سے معلوم کئے جو کہ کلئیر تھے۔
میں چند لمحے اُس سے گفتگو کرنا چاہتا تھا اسی لئے اس سے ٹھنڈا یا گرم پینے
کا پوچھا لیکن اُس نے جھٹ سے انکار کر دیا۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ اس
کی شخصیت نہایت جاذب تھی اور میں چند لمحے اُس سے گفتگو کرنا چاہتا تھالیکن
اُس نے کسی قسم کے مشروب پینے سے انکار کر دیا تھا۔ اَِب میرے پاس کوئی
رستہ نہیں تھا ، ہاں ! میں نے عارضی سرٹیفیکیٹ بنانے کے لئے اُس کے بچے کی
ڈی ایم سی کلرک کو اس غرض سے بھیجوا دی کہ یوں چند لمحات برائے گفتگو میسر
آجائیں گے۔ میرا یہ حربہ کار گر گزرا اور ہماری گفتگو شروع ہوئی۔ پتہ چلا
کہ وہ واپڈا میں ملازم ہے اور اُس کے زیر کفالت گیارہ افراد ہیں، اُس کا
فارغ وقت دعوت تبلیغ میں گزرتا ہے ۔ جہاں تک اُس کے بچوں کا تعلق ہے وہ اُن
سے بے حد نالاں تھا۔ میں نے وجہ دریافت کی تو اُس نے بتایا کہ وہ جس بچے کی
ڈی ایم سی لینے یہاں موجود ہے وہ پچھلے دو سال سے میڈیکل کالجوں میں داخلے
کے لئے کوچنگ کلاسیں دوسرے شہر میں لے رہا ہے ، خرچے پہ خرچہ لیکن وہ اَب
تک انٹری ٹیسٹ کا امتحان پاس نہیں کر سکا۔ میں نے اس سے ایف ایس سی کے حاصل
کردہ نمبر پوچھے تو وہ ہزار کے ہندسے کو چھو رہے تھے۔ وہ نہایت صاف گو شخص
بھی تھا، اُس نے ان نمبروں کا بیک گراؤنڈ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ نمبر اس کی
اپنی قابلیت سے نہیں آئے بلکہ یہ پرائیویٹ کالج کی جادوگری سے آئے ہیں۔ میں
اُس کی بات سمجھ گیا۔ اتنے میں سرٹیفیکیٹ تیار ہوگیا اور میں نے حسب روایت
کھڑے ہوکر اُس کو رخصت کیا۔
یہ کہانی صرف ایک والد کی نہیں ہے ، کم از کم ساٹھ سے اسّی فیصد والدین کی
ہے لیکن وہ یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں کہ ان کے بچوں کے حاصل کردہ
نمبروں کے پیچھے ناجائز عوامل کار فرما ہیں۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ منزل
کو پہنچنے کے لئے کئی ایک رستے ہوتے ہیں، کچھ شارٹ کٹ اور جان لیوااور کچھ
طویل اور صبر آزما، ہم نے ان رستوں میں شارٹ کٹ کو ترجیح دی اور ہم چاہتے
ہیں کہ ہر کام جلد از جلد ، جائز و ناجائز ، جیسے تیسے ہوپورا ہوجائے۔ اسی
شارٹ کٹ نے ہمیں محنت سے عاری کر دیا ہے اور منزل کے حصول کے لئے ناجائز
طریقوں کے استعما ل کو جائز تسلیم کر لیا ہے۔ہم نے خطرناک رستہ کا انتخاب
خود اپنے بچوں کے لئے کر دیا ہے جو کہ تباہی کا رستہ ہے۔ آج چند سال قبل
میں اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا تھا ، تو اُس نے کہا کہ وہ گزشتہ دنوں بیمار
رہا پھر علاج کے لئے فلاں ڈاکٹر کے پاس گیا۔ میں نے اس کو یاد دلایا کہ آپ
اپنا بیٹا بھی تو ڈاکٹر ہے ، آپ اُن سے علاج کرواتے۔ انہوں نے شرمندگی سے
جواب دیا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کیسے ڈاکٹر بنا ہے۔ والدین جانتے
ہیں کہ اُن کے بچوں میں کتنی قابلیت پائی جاتی ہے اور انہوں نے تعلیمی سفر
کیسے کیا ہے۔یہ صورت حال کئی دہائیوں سے جاری ہے اور ہر سال اس میں اضافہ
ہوتا جارہا ہے۔ جس کے سنگین نتائج ہر روز ڈاکٹروں کی غفلت ، انجینئروں کے
غلط ڈیزائنوں ، اساتذہ کی کام چوریوں اور ججوں کے غلط فیصلوں کی صورت میں
دیکھتے ہیں لیکن حقیقت کا ادراک نہیں کرتے۔ امسال گیارہ ہزار کے لگ بھگ
طالب علم انجینئرنگ کے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہوئے اور جن میں آٹھ ہزار طالب
علموں نے دو سو سے کم نمبر حاصل کئے۔ پہلی دس پوزیشنوں پر صرف چار بورڈوں
کے طالب علم آئے جب کہ خیبر پختون خوا کے باقی چار بورڈوں سے کوئی بھی طالب
علم ٹاپ ٹین میں جگہ نہ بنا سکا۔ یہی حال میڈیکل کے لئے ہونے والے انٹری
ٹیسٹ کا بھی ہوتا ہے۔ پس خدارا ! اپنے بچوں کو ناجائز طریقوں سے ڈاکٹر ،
انجینئر ، استاد ، وکیل اور جج وغیرہ نہ بنائیں کیوں کہ یہ وہ خطرناک رستہ
ہے جو ہمارے معاشرے کو ایسی دلدل میں پھنسا دے گا جہاں سے نکلنا ناممکن
ہوجائے گا۔
|