ہجومی تشدد اور ہماری ذمہ داریاں : مایوس کن فضا نہیں عزمِ جواں کی ضرورت ہے

اِس وقت مسلمانوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے- آتنک وادی گروپ کی شکل میں حملہ کرتے ہیں اور نہتے مسلمان کی جان لے لیتے ہیں- اس پر پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے؛ احتجاج کے بہت سے طریقے اختیار کیے گئے، لیکن حکومت انھیں کوئی اہمیت نہیں دے رہی ہے- ان احتجاجی مظاہروں کی بے اثری ویسی ہی ہے جیسی طلاقِ ثلاثہ بِل سے متعلق ہوئی تھی- تمام سماجی و مذہبی جماعتوں کے اثرات تقریباً ختم ہو چکے ہیں-
طریق کار:
(١) بیف/ذبیحہ کے نام سے مسلمانوں کو زد و کوب یا قتل کا سلسلہ جاری ہے- اب تک کتنی ہی زندگیاں اس تشدد کی نذر ہو گئیں-
(٢) بعض بھگوا توا رکشہ ڈرائیور یا ٹیکسی والے بھی تعصب کا مظاہرہ کر رہے ہیں جیسا کہ مولانا محمد انس کے ساتھ ہوا- جب وہ عرسِ تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ میں شرکت کے لیے عازمِ بریلی شریف تھے؛ تو راہ میں رکشہ ڈرائیور نے اپنے ساتھیوں سے سیٹنگ کی اور مولانا انس ان کے ناپاک عزائم کو بھانپ کر فوراً رکشہ سے کود گئے؛ زد و کوب، شرپسندی سے وہ سخت زخمی ہوئے؛ کودنے سے مزید چوٹیں آئیں، بعد میں خانقاہِ رضویہ کے ذریعے کمپلین بھی درج کروائی گئی-
(٣) وندے ماترم اور دیگر مشرکانہ سلوگن پر مسلمانوں کو مجبور کر کے مارا پیٹا جاتا ہے اور بعض اوقات شہید بھی کر دیا جاتا ہے؛ ہجومی عمل کے سبب قاتلوں کو بچا لیا جاتا ہے جس سے وہ حملوں میں جری و بیباک ہو چکے ہیں-
(٤) صاحبانِ اقتدار ان کے پشت پناہ ہیں- اسی لیے شدت پسندوں کے حوصلے بلند ہیں-
حکومت کا کھوکھلا دعویٰ:
سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ دے کر حکومت نے صرف مسلم اقلیت کا استحصال کیا ہے؛ تسلسل سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے- جیسے جیسے حکومت کی مسلم مخالف پالیسی سامنے آ رہی ہے؛ دہشت گردوں کے حملے بڑھتے جا رہے ہیں- جس ملک کو امن کا گہوارہ کہا جاتا تھا آج وہاں مسلمان سُکھ سے جی نہیں پا رہا ہے؛ پھر حکومت کے دعویِ ترقی کی حیثیت سوائے جھوٹ و دھوکہ کے کچھ نہیں- بلکہ یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ حکومت آتنک وادی حلقوں پر کارروائی نہ کر کے انھیں جنون کی شہ دیتی ہے- ایسے حالات میں حکومت کی خاموشی؛ سخت کارروائی سے گریز؛ مذہبی جنونیوں کو آزادی ایسے معاملات بڑے افسوس ناک ہیں؛ جس کے نتیجے میں ملک کی عالمی سطح پر بدنما شبیہ بنی ہے- ہر روز جمہوریت کا قتل ہو رہا ہے اور اقتدار کے سائے میں ملک کمزوری کی طرف تیزی سے گامزن ہے-
قانون سازی کی ضرورت:
ملک میں اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے تناظر میں فوری طور پر قانون سازی کی جانی چاہیے تھی جس میں ہجومی قتل کو دہشت گردی قرار دیا جاتا اور اس کا ملزم بنا ضمانت کے گرفتار کیا جاتا تا کہ ہجومی تشدد پر روک لگتی بلکہ ایسے ملزم کو ثابت ہونے کے بعد پھانسی کی سزا سنائی جاتی یا کم از کم عمر قید کی سزا طے کی جاتی تو ملک میں امن کے قیام کا مرحلہ طے ہوتا- ہجومی تشدد پر آمادہ تھم جاتے؛ سہم جاتے؛ لیکن حکومت کی تساہلی سے لگتا ہے کہ وہ خود اقلیتوں پر زمین تنگ کرنے کے درپے ہے-
اپنی حفاظت کی فکر کریں:
ہمیں چاہیے کہ اپنے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں-
(١) تنہا مسافرت سے گریز کریں-
(٢) جن علاقوں میں تحفظ مشکل ہو وہاں اہل خانہ کے ساتھ سفر نہ کریں؛ بلکہ ایسے مقامات پر گروپ کی شکل میں جائیں-
(٣) دہشت گردی کا سامنا ہو تو عزم و یقیں کے ساتھ اپنا تحفظ کریں اور ایسے ماحول میں دوسرے مسلم بھائی بھی اپنے بھائی کی جان کے تحفظ کے لیے آگے آئیں- تشدد کے مقابل اپنے رعب و دبدبہ کا اظہار کریں-
(٤) پولیس کا کام تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کی طرف سے بجائے آتنک وادیوں پر کارروائی کے؛ مسلمانوں کو ہی دَم اور ڈھکی چھپی دھمکی ملتی ہے تو ایسے حالات میں مسلمان کسی بھی طرح کی دھمکی میں نہ آئیں بلکہ اپنے دستوری حق کے لیے قانونی دفعات کا سہارا لیں اور دَم ڈانٹی کے مقابل مضبوطی سے قائم رہیں- اپنا وقار ملحوظ رکھیں-
(٥) پولیس کی ہر بات پر سر ہلانے/چاپلوسی کرنے کی پالیسی ترک کریں- ان حالات میں خوشامدی لوگوں سے بھی باخبر رہیں-
(٦) موقع غنیمت جانتے ہوئے وہ طلبہ جنھیں وکالت میں دل چسپی ہو؛ قومی تعمیر کے جذبات ابھار کر انھیں وکیل بنائیں اس ضمن میں گائیڈ لائن کے لیے ناسک ضلع سطح پر نوری مشن سے رہنمائی لی جا سکتی ہے-
عزم سے کام لیں:
مایوس کن فضا نقصان دہ ہے- اُمیدوں کے داعی بننے کی کوشش کریں- خوف و دہشت کے سائے میں جینا قوم کی موت ہے- کیا ہم نے نہ دیکھا کہ بعض لوگوں نے ہندوؤں سے رواداری میں ان کے مندروں اور مشرک بتوں کی صفائی کی؛ بعض مسلم لیڈروں نے گنپتی جیسے شرکیہ معاملات میں شرکت کی لیکن ان ذلیل حرکتوں سے ہندوؤں میں مسلمانوں سے متعلق نفرت کم نہیں ہوئی؛ الٹا ہماری بے چارگی ظاہر ہوئی اور شرعی احکام سے روگردانی؛ ان حالات میں اس بات کا تہیہ کر لیں کہ اپنے مذہب پر سختی سے قائم رہ کر ایسی مصالحت کو ٹھوکر مار دیں گے جس سے اہلِ شرک کی حوصلہ افزائی ہو؛ رواداری کے لیے ہمارا اخلاق ہی کافی ہے- قوم کو عزم و یقیں کے اجالوں میں جینے کے لیے مستعد ہونا چاہیے- یہی اسلاف کی تعلیم ہے؛ ١٩١٩ء کے زمانے میں بھی یہی سب ہوا تھا جس پر اعلیٰ حضرت نے قوم کو ہندوؤں کے فریب سے آگاہ کیا تھا کہ جیسے انگریز ہمارے دین کے دشمن ہیں ویسے ہی مشرکین بھی-
***

 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255550 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.