تحریر: ڈاکٹر ابراہیم الفقیؒ
عربی سے ترجمہ: نویدالرحمن داور (لیکچرر عربی ادب)
ماخوذ از کتاب: حَيَاة بِلَا تَوَتُّر
ویسے بن کر رہیں جس طرح آپ ہیں
چارلی چپلن نے جب فلموں کی پروڈکشن شروع کی تو پروڈیوسر نے اس سے اصرار کیا
کہ وہ اس وقت کے ایک مشہور اداکار کی نقالی کرے۔ چارلی چپلن نے نقالی کی
کوشش تو کی لیکن کامیاب وہ تب ہی ہوا جب اس نے اپنی شخصیت کی عکاسی کرنا
شروع کی۔
اس لئے ہمیں دوسروں کی نقالی سےدور رہنا چاہئے، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے آپ
کو دریافت کریں اور وہی کچھ بن کر رہیں جو ہم ہیں۔ جب آپ کےوالدین کی
ملاقات ہوئی اور انہوں نے شادی کی تھی تو 300000 ارب مواقع میں سے صرف ایک
موقع تھا کہ پیدا ہونے والے آپ ہوتے۔ دوسرے الفاظ میں آپ کے 300000 ارب بہن
بھائی تھے جو شاید آپ سے بالکل مختلف تھے۔
آپ ایک الگ تخلیق اور ایک الگ چیز ہیں، اپنے اوصاف اور صلاحیتیوں کےلحاظ سے
آپ کا ایک اپنا اسٹائل ہے۔ تخلیق آدم سے لے کر انتہائے عالم تک کوئی بھی
ایسےدو افراد نہیں آئیں گے جو جسم کی خارجی صورت میں بالکل ایک دوسرے کی
طرح ہوں، آپ کی آواز کی خوبصورتی منفرد ہے اور آپ کا اندازِ گفتگو بھی
امتیازی ہے۔
ایک آدمی کو عجیب و غریب اشیاء جمع کرنے کاشوق تھا۔ ایک دفعہ اسے ایک گدھ
کا انڈا ملا، اس نے اسے مرغی کے انڈوں میں رکھ دیا، کچھ عرصے کے بعد انڈے
ٹوٹ کر اس میں سے بچے نکل آئے۔ وہ گدھ مرغیوں میں اس طرح رہنے لگا کہ گویا
انہی میں سے ایک فرد ہو۔ کچھ مدت کے بعد اس نے آسمان میں ایک گدھ دیکھا جو
اس سے کچھ ملتی جلتی مخلوق تھا۔ جب بھی وہ گدھ ان میں سے کسی کے قریب آتا
تو مرغی کے بچے دوڑ کر چھپنے لگتے اور اسے کہتے: تم بھی چھپ جاؤ، گدھ تمہیں
نگل لے گا۔
کچھ عرصے بعد اس نے سوچا کہ: کیا تم گدھ نہیں ہو؟ مرغیاں اسے قائل کرتیں کہ
وہ بھی مرغی ہے، گدھ نہیں ہے، ایک طویل ذہنی کشمکش کے بعد اس نے فیصلہ کیا
کہ وہ گدھ بن کر رہے گا، جب کہ دوسری طرف مرغیاں اس کا حوصلہ توڑ رہی تھیں
، لیکن اس نے فیصلہ کر لیا تھا چنانچہ اس نے اپنے پر کھولے اور آسمان میں
بہت اوپر جا کر منڈلانے اور اڑنے لگا۔ اس وقت اسے ایک نہایت خوشگوار احساس
ہوا کہ وہ مرغی نہیں بلکہ گدھ ہے۔
موسیقار ارفنج برلن نے اپنے ساتھی جارج جیروشین کو جو نصیحت کی تھی وہ بھی
یہی تھی کہ:" جو تم ہو وہی بن کر رہو"۔ جب ان کے مابین پہلی ملاقات ہوئی تو
اس وقت برلین فن موسیقی میں بہت ماہر اور مشہور تھا جب کہ جارج جیروشین
ابھی ایک مبتدی اور ابھرتا ہوا کمپوزر تھا۔ وہ ہفتےبھر کی 1000 روپے اجرت
لیا کرتا تھا۔ موسیقار ارفنج برلین کو جیروشین کی فن موسیقی سے متعلق
صلاحیتوں کا ادراک تھا۔ چنانچہ اس نے اس کو بطور سیکرٹری رکھنے کا ارادہ
کیا اور طے یہ پایا کہ وہ اسے اس تنخواہ سے تین گنا زیادہ تنخواہ دے گا جو
وہ پہلے وصول کر رہا تھا۔ اس پیش کش کے ساتھ ہی اس نے اسے یہ نصیحت بھی کی
کہ:" میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ تم اس پیش کش کو قبول نہ کرو، کیونکہ اسے
قبول کرنے لینے پر تم اپنے آپ کو ایک اور ارفنج برلین بنانے لگ جاؤ گے"۔
جیروشین نے اس کی نصیحت قبول کی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا شمار
دنیا کے بڑے ترین موسیقاروں میں ہونے لگا۔
اس دنیا میں آپ کی اپنی شخصیت ہے، اس بات پر اپنے آپ پر رشک کریں اور اللہ
نے آپ کو جو قوتیں دی ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے جدو جہد کریں۔ ایمرسن
کہتا ہے: ایک دن انسان یہ جان لے گا کہ حسد جہالت ہے، کسی اور کی مشابہت
اختیار کرنا دراصل کوئی اور ذات اپنانا ہے، انسان کو چاہئے کہ وہ جس طرح کا
ہے اسے اسی طرح سے قبول کرے، اور اللہ نے اس کے لئے جو مقدر میں رکھ چھوڑا
ہے اس پر راضی رہے، یہ نعمتوں سے بھری دنیا اسے تب تک ایک دانہ بھی عطا
نہیں کرے گی جب تک وہ جدو جہد نہیں کرے گا اور جس چیز کو وہ حاصل کرنا
چاہتا ہےا س کے لئے لڑے گا نہیں۔ اس کے پاس ایسی قوت ہے جس کو اللہ نے اس
کے علاوہ کسی کو نہیں دیا، اپنی نوع کے لحاظ سے یہ ایک منفرد قوت ہے۔
زاویہ نگاہ ایجابی بنائیں:
عقل مند شخص وہ ہے جو نقصانات کو منافع میں تبدیل کر دیتا ہے اورجاہل وہ ہے
جو ایک مصیبت کو دو بنا دیتا ہے۔
• رسول اللہ ﷺ کو جب مکہ سے نکال دیا گیاتو آپ ﷺ نے مدینہ میں ایک مملکت
قائم کر دی۔
• ایک عالم کو کئی سالوں کے لئے کنویں کی تہہ میں قید میں رکھا گیا جہاں
بیٹھے اس نے علم ِفقہ میں بیس جلدیں لکھ دیں۔
معاملات کو ہمیشہ ایجابی زاویہ نگاہ سے دیکھا کریں اور جو کچھ آپ کرتے ہیں
اس سے لطف اندوز ہوا کریں۔ اپنی زندگی سے لطف اٹھائیں اور اپنے آپ کو ضائع
نہ کریں۔ آپ کی زندگی اس بات کی حق دار ہے کہ آپ ہنستے مسکراتے اپنا کام
کریں۔
یہ مہلک سوچ ہمارے ہاں کہاں سے در آئی ہےکہ: فراخ و آرام دہ، ٹھہراؤ پذیر،
پرسکون ، مشکلات و رکاوٹوں اور مصائب سے خالی زندگی خوش نصیب و کامیاب
افراد پیدا کرتی ہے؟ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جو لوگ اپنےاوپر روتے
دھوتے رہتے ہیں وہ اگر ریشم پر بھی سو نے لگیں تو تب بھی روتے دھوتے ہی
رہیں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ عظمت و کامیابی اور نصیبہ وری نے اپنی زمام ان
افراد کو دی جو مختلف ماحولوں سے تعلق رکھتے تھے، ایسے ماحول جن میں اچھی
چیزیں بھی تھیں اور بری بھی تھیں، انہی میں ایسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے پس
پشت ڈالنے کی بجائے اپندے کندھوں پر بارِ ذمہ داری لیا۔
ڈاکٹر بریل کہتا ہے کہ: "جو شخص حقیقی مومن ہے اسے کبھی کوئی نفسیاتی مرض
لاحق نہیں ہوتا"۔ جب آپ کو کوئی ایک گلاس لیموں کا رس دے تو آ پ اس میں
تھوڑی سے چینی ڈال لیں، جب کوئی تحفے میں آپ کو اژدھا دے تو آپ اس کی قیمتی
جلد لے لیں اور باقی چھوڑ دیں، جب آپ کو بچھو کاٹ لے تو ذہن میں رکھیں کہ
یہ ایک قسم کی ویکسین اور سانپوں کے زہر کے خلاف ایک مضبوط بچاؤ (Immunity)
ہے۔
برٹرنڈر رسل کہتا ہے: کوئی ایسی مشکل نہیں جس کو حل کرنا میرے لئے دشوار
ہو۔ میں ہر مشکل پر صبر و حلم اور توازن و عقل مندی کے ساتھ قابو پا لیتا
ہوں۔ تنہائی اور غورو فکر کے چند لمحات مجھے سکون و توازن اور ترکیز عطا کر
دیتے ہیں اور راہ پر گامزن رہنے کے لئے میرے اندر ایک زبردست قوت ابھار
دیتے ہیں۔
سوچ و بچار کریں اور شکر گزار ہوں:
ایک دن مجھ پر غم و پریشانی اور شدید حزن طاری تھا، میں شہر کی سڑکوں میں
سے ایک سڑک پر شکست خورہ شخص کی طرح چلا جا رہا تھا، کھویا کھویا اور خود
اعتمادی سے محروم ، قرضوں سے بوجھل ، بے چین اور اپنے مستقبل کے بارے میں
پریشان ، کہ اچانک مجھے ایک آدمی ملا جس کی دونوں ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں، وہ
لکڑی کی ایک کرسی پر بیٹھا تھا جس پر پہئے لگے ہوئے تھے اور ان کو اپنے
ہاتھوں سے چلا رہا تھا۔ میرا اس سے سامنا تب ہوا جب سڑک عبور کرنے کے بعد
وہ کرسی کے پہیوں کو اپنے ہاتھوں سے اوپر کر کے فٹ پاتھ پر چڑھانے کی کوشش
کر رہا تھا۔اس کی نظریں میری نظروں سے ملیں اور اس نے ایک کشادہ مسکراہٹ کے
ساتھ مجھے سلام کیا اور کہنے لگا: آج روشن صبح ہے اور خوبصورت دن ہے، ہم اس
میں اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے ہیں، کیا ایسا نہیں ؟
میں رک کر اسے دیکھنے لگا، اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ میں کتنا مالدار ہوں،
کیونکہ میرے پاس دونوں پنڈلیاں ہیں اور میں آزادی کے ساتھ چل پھر سکتا ہوں،
یہ دیکھ کر مجھے شرمندگی ہوئی کیونکہ میں اپنے آپ پر رو دھو رہا تھا ، میں
نے خود سے پوچھا: یہ شخص زندگی سے خوش اور مطمئن کیوں ہے، اسے خود پر
اعتماد کیوں ہے اور باوجود اس کے کہ وہ دونوں ٹانگوں سے محروم ہے وہ زندگی
کے سامنے مسکرا کیوں رہا ہے؟۔ یہ سوچ کر میرا دل بہادری اور خود اعتمادی سے
بھر گیا اور مجھے اپنی پریشانی اور تناؤ سے نجات مل گئی، میں نے اس دن کا
ہر لمحہ اس لمحے کے اندر رہتے ہوئے گزارا، میں نے اپنا ماضی اپنی پیٹھ
پیچھے پھینک دیا اور وہ مستقبل جو ابھی آیا ہی نہیں تھا اس کے دروازے میں
نے بند کر دیئے، میں نے اپنی زندگی بدل دی اور آج اتنے سال گزرنے کے بعد
میں اس دن کو یاد کر رہا ہوں جب کہ میں وہ سب کچھ پا چکا ہوں جس کے میں
خواب دیکھا کرتا تھا۔ |