پاکستان کے معروضی حالات

پاکستان کے معروضی حالات کو دیکھ کر ہر ذی شعور اور محبِ وطن پاکستانی درد و کرب کی گہری کھائیوں میں گرا جاتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ وطنِ عزیز پاکستان جو لاکھو ں انسانوں کی سخت جدو جہد اور جانی ومالی قربانیوں کے بعد دنیا کے نقشے پر ایک آزاد مملکت کے طور پر نمو دار ہوا، اکیسویں صدی میں کہاں کھڑا ہے اور کس سمت جارہا ہےاور تو اور افسرانِ بالا اور اہلِ اقتدار نے کبھی یہ زحمت نہیں کی کہ یہ جو فائلیں ہیں ان کو پہیے کیوں لگائے اور لگوائے جاتے ہیں اور جب کوئی ان پہیوں کو حرارت نہیں پہنچاتا تو اس فائل کو کہا ں دبایا جاتا ہے اور یہ فائل الماری سے باہر نکل آئے تو باوجود اس کے کہ سائل بے گناہ ہو اسے کن کن ہربوں سے فائل کے آگے بڑھنے سے پہلے پھنسا دیا جاتا ہے

پاکستان کے معروضی حالات کو دیکھ کر ہر ذی شعور اور محبِ وطن پاکستانی درد و کرب کی گہری کھائیوں میں گرا جاتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ وطنِ عزیز پاکستان جو لاکھو ں انسانوں کی سخت جدو جہد اور جانی ومالی قربانیوں کے بعد دنیا کے نقشے پر ایک آزاد مملکت کے طور پر نمو دار ہوا، اکیسویں صدی میں کہاں کھڑا ہے اور کس سمت جارہا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو پاکستان میں اب دو ہی طبقے نظر آتے ہیں ایک غریب جو روز بروز غریب تر ہوتا جارہا ہے اور دوسرا امیر جو دن بدن اپنی دولت میں اضافہ ہی کرتا جا رہا ہے ۔ اللہ جانے اس فراوانی اور کثرت کے پیچھے کیا ہے لیکن اگر کسی کے پاس اس کی محنت اور حق حلال کی دولت ہے تو اس سے کسی دوسرے کو حسد میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور اگر یہ کسی ناجائز ذریعے سے حاصل کی گئی ہے تو اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے ۔ مگر احتساب کا یہ مطلب قطعی نہیں ہونا چاہیے کہ کسی ایک فرد یا چند افراد کو اخبار کی شہ سرخیوں کا عنوان بنادیا جائے اور بقیہ بد عنوان لوگ اپنا مکروہ دھندہ جاری رکھیں ۔ گزشتہ دنوں مجھے محکمہ تعلیم کے ایک ایماندار افسر کی روداد سننے کا موقع میسر آیا ۔ میں اس خدا کے بندے کی داستان سنتا جاتا تھا اور اندر ہی اندر کڑتا جاتا تھا کہ یا اللہ ! یہ مملکتِ خداداد تو مسلمانوں نے اس لیے حاصل کی تھی کہ اہلیانِ وطن اس میں اپنے حقوق کی پاسداری کر سکیں گے اور انہیں انگریزوں کے سامنے یس سر اور تابع دار نہیں بننا پڑے گا ۔ مگر افسوس صد افسوس کے پاکستان کی بے رحم اور دین سے دور افسر شاہی نے ابھی تک اس مملکت خداداد کو اپنی لونڈی بنایا ہوا ہے ۔ ان کے دل میں کسی کے لیے نرمی نام کی کوئی چیز نہیں ۔ ہر افسر کا اپنا اپنا ریٹ مقرر ہے جو اسے ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اس کے وارے نیارے ہیں اور جو بے چارہ بس تنخواہ کو رزق سمجھتا ہے اس کے لیے ان کے پاس بات کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ۔ ایک شخص جس کے پانچ بچے ہوں اور ان میں سے ایک بچہ ذہنی مریض ہو ، اس کا تبادلہ بجائے اس کے کہ ترجیحی بنیاد پر اس کے گھر کے قریب ترین کیاجائے ، اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ جہاں ہم نے حکم دیا ہے وہاں جایا جائے ۔ دنیا کے مہذب معاشروں میں ایک اصول وضع کیا گیا ہے کہ جب کوئی سرکاری افسر تبادلے کی درخواست دیتا ہے تو اسے اس کے گھر کے قریب ترین اور اگر قریب ترین ممکن نہ ہو تو ۵۴ کلو میٹر رداس میں بہر صورت تعینات کیا جاتا ہے ۔ پاکستان کا عدالتی نظام بھی ایسا نہیں کہ جہاں کسی نیک نامی افسر کی شنوائی ہو سکے اور اگر ہو بھی جائے تو سائل کو مہینوں نہیں سالوں انصاف کے لیے در بدر ہونا پڑتا ہے ۔

اور تو اور افسرانِ بالا اور اہلِ اقتدار نے کبھی یہ زحمت نہیں کی کہ یہ جو فائلیں ہیں ان کو پہیے کیوں لگائے اور لگوائے جاتے ہیں اور جب کوئی ان پہیوں کو حرارت نہیں پہنچاتا تو اس فائل کو کہا ں دبایا جاتا ہے اور یہ فائل الماری سے باہر نکل آئے تو باوجود اس کے کہ سائل بے گناہ ہو اسے کن کن ہربوں سے فائل کے آگے بڑھنے سے پہلے پھنسا دیا جاتا ہے ۔ مثلاً مذکورہ افسر انکواری میں بے قصور پائے گئے لیکن چونکہ صاحب بہادر کے منہ سے نکلا تھا کہ اسے گھر کے قریب تعینات نہیں کرنا تو اس پر حکم عدولی کا الزام لگا کر فائل کو ایک خادمِ اعلیٰ کو بھیج دیا گیا ۔ اب کیا تھا اس خادمِ اعلیٰ نے یہ جانے بغیر کے افسر تو انکواری میں بے قصور ثابت ہوا پھر اس کی سالانہ ترقی کیوں روکی گئی ہے;238; حکم صادر فرمایا کہ ایک سال کی سزا کم ہے اسے کم از کم پانچ سال ہونا چاہیے ۔

محکمہ تعلیم پنجاب کی یہی کارگزاری نہیں بلکہ ایک شہر میں تو ایک ایسے افسر کو لگایا گیا ہے جس کا کام خواتین اساتذہ کو شام پانچ بجے تک اپنے دفتر میں بٹھائے رکھنا معمول ہے ۔ خواتین اساتذہ بے چاری پہلے ہی گھریلو پریشانیوں کے باعث ایک کرب میں مبتلا ہوتی ہیں اوپر سے ایسے چھچھورے افسر زخم پر نمک کا کام کرتے ہیں ۔ اللہ ان کو ہدایت دے اور ملک کے خادموں کو صحیح معنوں خادم بنائے ۔
پاکستان کے معروضی حالات

پاکستان کے معروضی حالات کو دیکھ کر ہر ذی شعور اور محبِ وطن پاکستانی درد و کرب کی گہری کھائیوں میں گرا جاتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ وطنِ عزیز پاکستان جو لاکھو ں انسانوں کی سخت جدو جہد اور جانی ومالی قربانیوں کے بعد دنیا کے نقشے پر ایک آزاد مملکت کے طور پر نمو دار ہوا، اکیسویں صدی میں کہاں کھڑا ہے اور کس سمت جارہا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو پاکستان میں اب دو ہی طبقے نظر آتے ہیں ایک غریب جو روز بروز غریب تر ہوتا جارہا ہے اور دوسرا امیر جو دن بدن اپنی دولت میں اضافہ ہی کرتا جا رہا ہے ۔ اللہ جانے اس فراوانی اور کثرت کے پیچھے کیا ہے لیکن اگر کسی کے پاس اس کی محنت اور حق حلال کی دولت ہے تو اس سے کسی دوسرے کو حسد میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور اگر یہ کسی ناجائز ذریعے سے حاصل کی گئی ہے تو اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے ۔ مگر احتساب کا یہ مطلب قطعی نہیں ہونا چاہیے کہ کسی ایک فرد یا چند افراد کو اخبار کی شہ سرخیوں کا عنوان بنادیا جائے اور بقیہ بد عنوان لوگ اپنا مکروہ دھندہ جاری رکھیں ۔ گزشتہ دنوں مجھے محکمہ تعلیم کے ایک ایماندار افسر کی روداد سننے کا موقع میسر آیا ۔ میں اس خدا کے بندے کی داستان سنتا جاتا تھا اور اندر ہی اندر کڑتا جاتا تھا کہ یا اللہ ! یہ مملکتِ خداداد تو مسلمانوں نے اس لیے حاصل کی تھی کہ اہلیانِ وطن اس میں اپنے حقوق کی پاسداری کر سکیں گے اور انہیں انگریزوں کے سامنے یس سر اور تابع دار نہیں بننا پڑے گا ۔ مگر افسوس صد افسوس کے پاکستان کی بے رحم اور دین سے دور افسر شاہی نے ابھی تک اس مملکت خداداد کو اپنی لونڈی بنایا ہوا ہے ۔ ان کے دل میں کسی کے لیے نرمی نام کی کوئی چیز نہیں ۔ ہر افسر کا اپنا اپنا ریٹ مقرر ہے جو اسے ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اس کے وارے نیارے ہیں اور جو بے چارہ بس تنخواہ کو رزق سمجھتا ہے اس کے لیے ان کے پاس بات کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ۔ ایک شخص جس کے پانچ بچے ہوں اور ان میں سے ایک بچہ ذہنی مریض ہو ، اس کا تبادلہ بجائے اس کے کہ ترجیحی بنیاد پر اس کے گھر کے قریب ترین کیاجائے ، اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ جہاں ہم نے حکم دیا ہے وہاں جایا جائے ۔ دنیا کے مہذب معاشروں میں ایک اصول وضع کیا گیا ہے کہ جب کوئی سرکاری افسر تبادلے کی درخواست دیتا ہے تو اسے اس کے گھر کے قریب ترین اور اگر قریب ترین ممکن نہ ہو تو ۵۴ کلو میٹر رداس میں بہر صورت تعینات کیا جاتا ہے ۔ پاکستان کا عدالتی نظام بھی ایسا نہیں کہ جہاں کسی نیک نامی افسر کی شنوائی ہو سکے اور اگر ہو بھی جائے تو سائل کو مہینوں نہیں سالوں انصاف کے لیے در بدر ہونا پڑتا ہے ۔

اور تو اور افسرانِ بالا اور اہلِ اقتدار نے کبھی یہ زحمت نہیں کی کہ یہ جو فائلیں ہیں ان کو پہیے کیوں لگائے اور لگوائے جاتے ہیں اور جب کوئی ان پہیوں کو حرارت نہیں پہنچاتا تو اس فائل کو کہا ں دبایا جاتا ہے اور یہ فائل الماری سے باہر نکل آئے تو باوجود اس کے کہ سائل بے گناہ ہو اسے کن کن ہربوں سے فائل کے آگے بڑھنے سے پہلے پھنسا دیا جاتا ہے ۔ مثلاً مذکورہ افسر انکواری میں بے قصور پائے گئے لیکن چونکہ صاحب بہادر کے منہ سے نکلا تھا کہ اسے گھر کے قریب تعینات نہیں کرنا تو اس پر حکم عدولی کا الزام لگا کر فائل کو ایک خادمِ اعلیٰ کو بھیج دیا گیا ۔ اب کیا تھا اس خادمِ اعلیٰ نے یہ جانے بغیر کے افسر تو انکواری میں بے قصور ثابت ہوا پھر اس کی سالانہ ترقی کیوں روکی گئی ہے;238; حکم صادر فرمایا کہ ایک سال کی سزا کم ہے اسے کم از کم پانچ سال ہونا چاہیے ۔

محکمہ تعلیم پنجاب کی یہی کارگزاری نہیں بلکہ ایک شہر میں تو ایک ایسے افسر کو لگایا گیا ہے جس کا کام خواتین اساتذہ کو شام پانچ بجے تک اپنے دفتر میں بٹھائے رکھنا معمول ہے ۔ خواتین اساتذہ بے چاری پہلے ہی گھریلو پریشانیوں کے باعث ایک کرب میں مبتلا ہوتی ہیں اوپر سے ایسے چھچھورے افسر زخم پر نمک کا کام کرتے ہیں ۔ اللہ ان کو ہدایت دے اور ملک کے خادموں کو صحیح معنوں خادم بنائے ۔
 

Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 198714 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More