ہر انسان ایک چلتی پھرتی کتاب ہوتا ہے بس ہم پڑھنے کی
زحمت نہیں کرتے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ علم صرف کتابوں سے حاصل کیا جاتا
ہے حالانکہ زندگی گزارنے کے اصل اسباق تو ہمیں انسانوں اور ان کے رویوں اور
اپنی زندگی کے ہر گزرتے پل سے ہی ملتے ہیں
کتاب زندگی کے ورق وقت کی رفتار کے ساتھ برابر الٹ رہے ہیں,ہر آنے والی صبع
اک نیا ورق پلٹ دیتی ہے ہماری مرضی شامل ہو یا نہ ہو وہ وقت کی انگلی تھام
کر اپنا سفر جاری رکھے ہوۓ ہے, نظام قدرت ہے کہ الٹے ہوۓ ورق برابر بڑھ رہے
ہیں اور باقی ماندہ ورق برابر کم ہو رہے ہیں یہ کائنات کے خالق کا بنایا ہو
دستور ہے اور اسی نظام کے تحت ایک دن وہ بھی آنے والا ہے جب آپ اپنی کتاب
زندگی کا آخری ورق الٹ رہے ہوں گۓ ,جونہی آپکی آنکھیں بند ہوں گئ یہ خالق
کائنات کی عطا کردہ کتاب زندگی بھی بند ہو جاۓ گئ اور آپکی یہ تیس سالہ,
چالیس سالہ, پچاس سالہ, کتاب زندگی تصنیف زندگی کی صورت میں محفوظ ہو جاۓ
گئ.
بارش ہو, آندھی ہو, خوشی ہو, غمی ہو, رزق کی فراوانی ہو, یا غربت کا سایہ
ہو کتاب زندگی کی تصنیف جاری رہتی ہے
لیکن کیا ہم نے بھی سوچا ہے ,غور ؤ فکر کیا کہ ہم اپنی ورق پلٹتی زندگی میں
کیا درج کر رہے ہیں ؟
ہم کیا کیا اچھے, برۓ, زبانی, کلامی, عملی, اخلاقی, روزمرہ میں ہونے والے
اعمال ناصرف کتاب زندگی میں درج ہو رہے ہیں بلکہ ورق بھی پلٹتے جا رہے ہیں
اور ہم بے خبر ہیں ؟
ہم شعور رکھتے ہوۓ وقت کے ساتھ چلنے کی کوشش کرے یا لا شعور میں ہوں یہ
تصنیف تو مکمل ہو رہی ہے بلکہ ہم اسکی ترتیب ؤ تکمیل میں اپنی ساری قوتوں
کے ساتھ لگے ہوۓ ہیں, اس میں وہ سب کچھ لکھا جا رہا ہے جو ہم سوچتے ہیں,
بولتے ہیں, لکھتے ہیں, دیکھتے ہیں, سنتے ہیں, چاہتے ہیں, کرتے ہیں یا
کرواتے ہیں, غرض ہماری ہر اچھی برئ خواہش کتاب زندگی کی زینت بن رہی ہے .
خالق کائنات کا نظام ہے کہ اس میں کسی دوسرے کو ہرگز اختیار نہیں کہ وہ اس
میں کوئی ایک شوشہ بھی بڑھا یا گھٹا دے ,اس کتاب کا مصنف انسان خود ہی ہے
اور اس میں شامل تحریر انسان کے اپنے اعمال ہیں جن کو انسان خود اپنی کاوش
ؤ کوشش سے ترتیب دیتا ہے .
کل یہ ہی کتاب آپکے سامنے ہو گی, ہاتھ میں ہو گئ,
مالک کائنات ہم سے کہے گا کہ
اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا.
(اس سے کہا جائے گا:) اپنی کتابِ (اَعمال) پڑھ لے، آج تو اپنا حساب جانچنے
کے لئے خود ہی کافی ہے
یاد رکھو کہ کتاب زندگی کے ورق پاک رکھنے کے لیے عشقِ احمدﷺ چاہیے، حُبِّ
مدینہ چاہیے
جو انہیںﷺ دیکھا کرے وہ چشمِ بینا چاہیے
زندگی اور موت دونوں آپﷺ کے غم میں ہوں
ایسا مرنا چاہیے اور اس طرح ہی جینا چاہیے
کیونکہ کہتے ہیں کہ
تلوار کی صداقت کسی عہد میں ضعیف نہیں ہوتی وہ ہاتھ نہایت مقدس ہیں جن میں
صلح کا سفید جھنڈا لہرا رہا ہے، لیکن زندہ وہی رہ سکتا ہے جسکی مٹھی میں
خونچکاں تلوار کا قبضہ ہو.
رحمت کے ساتھ برسنے والی بارش کا پانی بھی گندی جگہ پر پڑنے کے بعد گندہ
ہو جاتا ہے۔
رحمت جتنا گند سے بچی رہے اتنی ہی پاک صاف رہتی ہے۔
پھر ہی کامیابی ہے ورنہ فیصلہ آپ پر!!
ہے تری درگاہ میں یا رب تمنائے ریاض
دفن ہونے کے لیے خاکِ مدینہ چاہیے.
زندگی بہت مختصر ہے اتنی مختصر کہ پلک جھپکتے ہی تمام ہوجاتی ہے۔ زندگی کو
گزاریں نہیں بلکہ اس کے ایک ایک پل کو جینا سیکھیں۔۔۔۔۔۔
|