"روح والے روبوٹ"

اس کالم میں موجودہ دور کے انسان ،اسکی سماجی اور مذہبی زندگی کے چند بنیادی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے.

سورج کی چبھتی کرنوں سے صبح کا آغاز ہوتا ہے. اپنے اپنے فرقے کے مطابق وضو کے عمل کے بعد، رکوع و سجود میں ایک انجانی زبان میں کچھ کلمات کی ادائیگی کرتے ہوئے ذہن بار بار کل کے چھوڑے ہوئے کچھ کاموں اور آج کے عبور کرنے والے سمندروں کی طرف جاتا رہتا ہے. یوں رکوع و سجود ایک ورزش بن جاتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں حاضری لگوانے کےفریضے سے سبکدوش ہو چکا ہے-

زندگی کے فلسفے پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذہب تو پہلے بندے کے ساتھ ہی دنیا میں آ گیا تھا. جب طرح طرح کے خوف اور سوالوں نے لوگوں کو ستایا تو انھوں نے نیچرل اور سوپر نیچرل کے درمیان ایک پُل بنایا جو کہ "مذہب" کہلایا. مذہب نے جہاں لوگوں کے غیب سے جڑے سوالوں کے جواب دیے وہیں ان کی جانوروں جیسی زندگی کو طےشدہ اصولوں سے ایک ترتیب بخشی. عجیب خوف اور وسوسوں سے پریشان لوگوں کیلئے مذہب "ماں کی گود" ثابت ہوا. رفتہ رفتہ آبادی بڑھی، لوگ زمین کے مختلف حصوں میں پھیل گئے اور نت نئی تہذیبیں وجود میں آئیں اور یوں مذہب سادہ سا اصولوں کا مجموعہ نہ رہا. وقت کے ساتھ ساتھ مذہب مختلف اقسام میں تقسیم ہوا. موجودہ دور میں پائے جانے والے مذاہب کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر مذہب کی بنیاد انسان اور اس سے جڑے مسائل پر مبنی ہے. ہر مذہب اپنے طور پر اپنے ماننے والوں کیلئے ضابطہ حیات اور ماں کی گود ہے-

مذہب کے وہ اصول جو ہماری فلاح کیلئے قیام میں آئے تھے آج ہم نے خود انکو وبالِ جاں بنا لیا ہے. چونکہ ہم ان قواعد سے وابستہ حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہیں اس وجہ سے "نیم عالم خطرہ ایمان" جیسے مسئلے سے دوچار ہیں. اب ہمارے ہاں مذہب کو ڈر کا دھندا بنا دیا گیا ہے. تین سالہ بچے کو شرارتوں سے روکنے کیلئے بار بار اللہ کی ناراضگی اور سزا سے ڈرایا جاتا ہے. یوں بچپن میں ہی اس کے دل میں اللہ کی ایک غلط تصویر بنا دی جاتی ہے. یوں ایک ننھے ذہن میں خدا کا خوف بیٹھ جاتا ہے جوکہ محبت کے رشتے پر غالب آ جاتا ہے -

ہماری تیار ہوتی ہر نسل کی تربیت کی ابتداء خوف سے ہوتی ہے، محبت سے نہیں. محبت کی قاتل نفرت نہیں بلکہ" ڈر" ہے اور ڈر کا تعلق اضطراب کے ساتھ ہے. یہی وجہ ہے کہ ہم ہر دن ہر گھڑی مضطرب رہتے ہیں کیونکہ سکون کی کنجی تو محبت ہے. وہ محبت جس کی ہماری روحیں ایک عرصے سے متلاشی ہیں. بھوکی رہ رہ کر نہ جانے کب سے ہماری روحیں بےہوش پڑی ہیں اور جسمانی اعضاء کی حرکت، زندہ ہونے کی تعریف بن گئی ہے. دن بھر نہ جانے کون کون سے سمندر عبور کرنے کے بعد رات کو انسان جب بستر پر لیٹتا ہے تو روٹھی ہوئی نیند کو منانے کیلئے دواؤں کا سہارا لیتا ہے-

اس روبوٹوں کے چلتے کارواں میں ہمیں دو گھڑی رکنا ہو گا اور غور کرنا ہوگا کہ "آخر کیا کمی سی رہ گئی ہے؟

 

Muqadas Majeed
About the Author: Muqadas Majeed Read More Articles by Muqadas Majeed: 17 Articles with 12299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.