کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟

کیاایک مرتبہ پھرکوئی شاہی فرمان جاری ہوگیاہے؟اس کی اطلاع مجھے کل ہی ملی تواپنی لاعلمی پرندامت کے سواکوئی جواب نہ تھا۔پیغام کے بعدگویالب بند،قلم بند ،زباں بند…مہیب سناٹا، خاموشی،اضطراب اوربے کلی۔ پوری رات یوں ہی گزرگئی۔ پھرسناٹے،خاموشی اوراضطراب کو توڑتی ہوئی ایک آوازبلندہوئی۔رب کی برتری،عظمت اورجلال کی آواز!خانۂ خدا کے بلند میناروں سے گونجتی ہوئی،جسے کوئی نہیں روک سکتا…ہاں کوئی بھی نہیں۔رب ذوالجلال کی کبریائی بیان کرتی ہوئی آواز،زمینی خداؤں کے منہ پرخاک مل دینے والی آواز،خودساختہ دیوتاؤں کولرزادینے والی آواز،انسانیت کیلئے نوید ِمسرت……حوصلہ اورامید کانقارہ، نقارہ خداوندی……سربلندوباوقارجلال اورجمال……سربلندباددوستانِ دیں کی نوید۔

ہم بھی عجیب ہیں۔وہ پکارتاہے:آؤتم فلاح چاہتے ہوناں۔توآؤاورہم کیاکرتے ہیں؟زمینی خداؤں کے آگے بھکاری بن کرکھڑے رہتے ہیں اوردھتکاردیے جاتے ہیں، دھتکارے ہوئے لوگ …اورجب ہرطرف سے، ہردرسے محروم ونامرادلوٹتے ہیں،تب وہ ہمیں یادآتاہے۔ہاں وہ پھربھی ہمیں گلے لگاتاہے۔پیغامِ مسرت سناتاہے،اصل کی طرف بلاتا ہے۔

بس وہی ہے اورہے کون؟ہم گداگراوربھکاری بن گئے ہیں۔ہم فقیرکہاں ہیں!فقرکی توشان ہی نرالی ہے۔ہم کہاں ایک ہی بابِ طلب تک رہتے ہیں!بے شمارولاتعداد دروں کے محتاج ہو گئے ہیں اوروہ پھربھی ہماری بے وفائی،ہماری غلطیوں،ہماری سیہ کاریوں،ہماری بداعمالیوں، منافقتوں اورہمارے کھوٹ کونظرانداز کردیتا ہے۔آؤفلاح کی طرف…بس یہی درِخالص ہے، باقی سب جھوٹ ہے،مکرہے،فریب ہے۔مکروفریب کی سہانی دنیا…بے چینی کاسرچشمہ۔ رات بھرانگاروں پرلوٹتا رہا،چشم گریہ سے وضومکمل ہواتوبے کلی کوختم کرنے کیلئے باباجی اقبال یاد آگئے:
صد نالۂ شب گیرے، صد صبح بلا خیزے
صدآہ شررریزے،یک شعردل آویزے
درعشق وہوس ناکی،دانی کی تفاوت چیست؟
آں تیشۂ فرہادے، ایں حیلۂ پرویزے
رات بھر کے سینکڑوں نالے،سینکڑوں آفت لانے والی صبحیں،سینکڑوں شعلے پھینکنے والی آہیں ایک طرف اورایک دل کولبھانے والا شعر ایک طرف۔عشق اورہوس کے درمیان جانتاہے کہ کیافرق ہے؟عشق فرہادکا تیشہ ہے اورہوس پرویزکامکروفریب۔
واصف صاحب مسکراتے ہوئے گویاہوئے”ہم سب فرعون کی زندگی اورموسیٰ کی عاقبت چاہتے ہیں۔ایساتونہیں ہوسکتا”۔ اورپھرتوتانتابندھ گیا۔یہ جوزمینی خدابن بیٹھے ہیں،اوروہ جوگزر گئے،اب تماش بینوں کیلئےسامانِ عبرت بنے ہوئے ہیں۔اس سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اندھے،بہرے،خود فریبی کا شکارفرعونِ زمانہ…یہ سمجھتے ہیں ہم ہیں پالن ہار۔بس ہم۔ عجیب سی بات ہے۔یہ لبرل،سیکولراورروشن خیالی کے دعویدار…اوروہ بھی اصل نہیں بالکل جعلی۔اصل توہربات اچھی لگتی ہے ناں۔ٹھیک ہے اختلاف اپنی جگہ،اصل توہوناں۔سراسرجعل سازی کے ماہر۔منافقت کے مجسم شاہکارخود فریب۔
پاکستان سے ایک سچی آوازکاشکوہ موصول ہواکہ کشمیرکی زینب کااشک بھرے احوال میں آپ تحریک غلبہ اسلام کے رہنما،افغان طالبان کے دست راست،ختم نبوت کے محافظ عظیم جنگجو کمانڈرعبدالجبارکی دوہفتے قبل رکھنی بلوچستان کے پہاڑوں سے بڑی بیدردی سے گرائی جانی والی شہادت کوکیوں فراموش کر بیٹھے؟یہ خونِ اتناسستا بھی نہ تھاجواس توہین آمیزاندازمیں رزق خاک کردیاجائے؟راؤانوار،چوہدری اسلم نے بھی ٹی ٹی پی ارکان کوبھی اس طرح نہیں پھینکا جیسے انہیں کاٹ کرپھینک دیاگیا۔دل زخم زخم ہے،ریاستی احترام اورریاست”ماں” کاراگ الاپنے والے اب نہ جانے کیامنجن بیچیں گے؟اس کابھی کوئی علاج اے چارہ گرہے کہ نہیں؟کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
پانچ مارچ 2019کوساہیوال جیل میں نظربندہوئے اورچارجون کوتین ماہ بعدجیل سے کوئی لے گیااورآج یہ اطلاع ان کے بھائی کوآئی ہے۔55سالہ مولاناعبدالجبار کی مظلومانہ شہادت نے لاکھوں دلوں پرقیامت ڈھادی ہے۔اس مجاہدکی شہادت حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔حکومت نے جبری گمشدہ افرادکوگھرواپس بھیجنے کاوعدہ کیاتھا، کیااب وہ اس طرح گھربھیجیں گے۔
جولائی2010ء کوبھی ایک فرمانِ شاہی جاری ہواتھاکہ”صدرِمملکت،افواج پاکستان،عدلیہ اورریاست کے قانون سازاداروں کے اراکین کے بارے میں ایساکوئی مواد یاگراف وغیرہ شائع نہیں کیاجائے گا جس سے ان کی تضحیک ہوتی ہویاان کامذاق اڑایا گیاہو”سرکاری وکیل نے جب ججوں کی یہ کہہ کرتضحیک کی کہ ججز تو پہلے سے ایک ذہن بناکرآتے ہیں جس پرجج کو تنبیہ کرنا پڑگئی کہ زبان کولگام دو۔یہ کوئی نئی بات نہیں جبکہ فاسق کمانڈوکامقرکردہ اٹارنی جنرل جسٹس(ر) ملک قیوم بھی ایسی ہی ہرزہ سرائی کرچکاتھا”پی سی او”کے تحت حلف نہ اٹھانے والے جج ہیرو نہ بنیں،ان کوعزت ہضم نہیں ہوئی۔اب کہاں ہیں (سابقہ) اٹارنی جنرل؟وہ بھی کمانڈوکی طرح ملک سے فرارہیں؟جسے میرارب عزت دے اُسے کون بے عزت کرسکتاہے! ذرادیکھیے توخلقِ خداکیاکہتی ہے۔وہ خلقِ خداجسے زمینی خداؤں نے حکم سنایاتھا،بنیادی انسانی حقوق معطل کردئیے گئے ۔خبردارکوئی نہیں بولے گا۔اب کچھ اوربھی اسی ڈگرپرچل نکلے ہیں۔مقام عبرت تویہ ہے کہ کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا!
جناب من!ہوش میں آئیے،یہ حقوق میرے رب نے دئیے ہیں۔رب کائنات نے۔آپ کون ہوتے ہیں انہیں سلب کر نے والے!میرے مالکِ حقیقی کے عطا کردہ حقوق کیسے سلب کیے جا سکتے ہیں!ہاں خودفریبی کاکیاعلاج۔یہ سمجھتے ہیں نظامِ کائنات یہ خود فریب چلا رہے ہیں۔عقل وفکرکے اندھے۔تاریخ میں انسانیت کے نام پر دھبہ قراردِئیے جاؤگے۔ہوش میں آؤ۔ تمہارے یہ اعمال تمہیں نہیں بچاسکتے۔کبھی نہیں!ایف اقتدارکودوام دینے کیلئےایساتحفہ دیناکیوں ضروری ٹھہرا؟یادرکھوکہ سر بلند رہے گا سدا میرے رب کا فرمان۔ ہاں اصل فرمان ،تمہیں شوق چڑ آیا ہے تو پوری کرلو اپنی حسرت… جانا تو ہم سب کو ایک ہی جگہ ہے۔پھر تم اپنی کرنی کر گزرو۔جوہوگا دیکھاجائے گا۔جوچاہے کرو،بس یادرکھناتم اورتمہارے آقاخالق ومالک نہیں۔ بن ہی نہیں سکتے۔کبھی نہیں۔
کہاں ہیں ہمارے انیق بھائی جوایک تسلسل سے اپنے پیام صبح کے پیغام میں علم ودانش کے موتی تقسیم کرتے ہوئے صاحبِ نہج البلاغہ کے قول پرپروگرام کااختتام کرتے ہوئے تربیت فرماتے ہیں لیکن ہم شائدبہرے ہوگئے ہیں یاپھرعمل کی توفیق چھن گئی ہے؟اسی نہج البلاغہ میں شہرِ علم کے باب میں جنابِ علی المرتضٰی نے اس امت کوکیاتنبیہ فرمائی ہے:
“لوگوں پرایک زمانہ آنے والاہے جب صدقہ کو خسارہ،رحم کرنے کواحسان اورعبادت کوایک دوسرے پربرتری اورسبقت کاذریعہ قراردیاجائے گا۔ایسے وقت میں حکومت عورتوں کے مشورے،بچوں کے اقتداراور خواجہ سراؤ ں کی تدبیرکے سہارے رہ جائے گی”۔
بس نام رہے گا اللہ کا۔
آتش نمرود ہے، ہرسمت ہے اک کربلا
زندگی اوزندگی کتنی تومشکل ہوگئی
ہرطرف ہے خاک وخوں،ہرسمت ہے د یوانگی
زیست لمحہ لمحہ اک زہر ہلاہل ہوگئی
پھول جیسے چہرے نفرت کی چتامیں جل گئے
بربریت ایسی جیسے دنیا پاگل ہوگئی
یہ درندے ہیں جنہیں چھوڑا گیاانساں پر
آدمی یا بھیڑئیے پہچان مشکل ہوگئی
سربراہان زمانہ بے حس وبے خودرہے
زیست پھرصیادکے ہاتھوں سے بسمل ہوگئی
قوم جو کسریٰ و قیصر پرکبھی فا تح ہوئی
آج وہ اغیارسے نصرت کی سا ئل ہوگئی
کب تری رحمت کوجوش آئے گاربِّ مصطفی؟
آج پھرآل محمد غم سے گھائل ہوگئی

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.