اردو ہی قومی پہچان

تحریک نفاذ اردو کا مقصد اپنی قومی زبان کو اس کی پہچان دلانا ہے اس لیے تحریک نفاذ اردو میں شامل ہو کر اپنا قومی ملی دینی اور فرض ادا کیجیئے۔۔!

قیاس اپنی ملت کو اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ھے ترکیب میں قوم رسول ھاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نصب پہ انحصار
قوت مذہب سے ہے مستحکم جمعیت تری

غلامی، محکومی، ذلت، رسوائی اور حقارت بہت ہی جان لیوا اور تباہ کن بے، اک بے بسی سی ہے. ممکن ہے کہ اس بے بسی میں تڑپتے ہوئے کوئی چنگاری سلگ ہی پڑے اور شعلہ جوالہ بن جائے۔۔۔مگر
مگر غلامی، محکومی، حقارت ذلت و رسوائی، زلالت و پستی پر آمادہ اور قانع ہو کر مسلسل ذلیل و رسوا ہو کر زوال پذیر ھونا اور انحطاط اور شکست و ریخت پر راضی ہو جانا اور کوئی خلش تک محسوس نہ کرنا۔۔مدھوش پڑے رہنا اخلاقی گراوٹ کی انتہائی پستی میں گرتے چلے جانا بے بسی نہیں، بےچارگی نہیں، بے ایمانی، ضمیر فروشی، ایمان فروشی اور ملک فروشی ہے، جس انجام لامحالہ انسانوں معاشروں ملکوں اور قوموں کی مکمل تباہی و بربادی ہے۔۔

ایمان فروشوں کی ایک تاریخ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں لکھی گئی تھی اور سلطان ایوبی نے پہلے تیروں، تلواروں اور نیزوں سے ہچکولے سے بیدار کیا تھا۔ پھر ایمان فروشی کا گندہ فرسودہ خون اور جراثیم حجامے اور نشتر لگا لگا کر صاف کیا۔۔

پھر اسلام دشمنوں اور ملک و ملت کے غداروں سے نمٹنے کے لیئے کمربستہ ہو کر میدان عمل میں نکل کھڑا ھوا اور ملک و ملت کے غداروں اور دشمنوں کو شکست فاش سے ہمکنار کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔

اگر قوم تحریک نفاذ اردو اور چند دوسرے اداروں اور تنظیموں کی زبان و قلم کی تحریک جدوجہد ''توجہ دلاؤ نوٹس'' اور معمولی سرزنش سے بیدار نہیں یو گی تو پھر اللہ تعالی اس قوم پر کسی اور کو مسلط کر دے گا۔۔جو یا تو تیروں تلواروں اور نیزوں بھالوں اور نشتروں سے چرکے لگا کر بیدار کرے گا یا پھر سابقہ ایمان اور ضمیر فروشوں کی طرح آپ کا ایک ایک انگ کاٹ کاٹ کر پہلے بیچ دے گا پھر ایک بار پھر سودا کر کے پیا جی کے دیس سدھار جائے گا ملکہ برطانیہ نے ان کے لیے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق جدی پشتی وراثت قرار سے کر جاگیریں وقد کر رکھی ہیں ''طے شدہ حقوق و فرائض کی ادائیگی میں''جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے اسی لیئے ہمارے حکمران اشرافیہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے بعض کلیدی عہدے دار اسی لیئے اپنے ننھیال بھاگ جاتے ہیں ۔۔

ہمارے''نمک حلال''حکمران انتظامیہ، اشرافیہ اور دوسرے ادارے حق نمک بھی ادا کر رہے ہیں اور دم ہلا کر اشارے کنائے میں خیر کی خبر بھی دے رہے ہیں۔۔

شکنجے کسے جا رہے ہیں کل کلاں شائید تمہارے قلم و قرطاس پر بھی پابندیاں لگ جائیں۔۔روشنائی اور قلم و قرطاس پر لگنے والا ٹیکس بھی تم ادا نہ کر سکو۔۔

اور تم خواب خرگوش میں پرے پڑے ادھ موئے ہو ہو کر سسک سسک کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر مٹ کر تباہ و برباد ہو جاؤ.

بغداد، اندلس، بخارا، سمرقند، ترکی اورترکستان میں تمہارے ساتھ پہلے بھی یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔۔
اٹھو وگرنہ حشر نہ ھو گا پھر کبھی ۔۔

اٹھو اور تحریک نفاذ اردو میں شامل یو کر اپنا قومی ملی دینی اور اسلامی فریضہ ادا کرو۔۔
اپنے گم شدہ اور مسخ شدہ علوم و فنون، جدید تحقیقات، تاریخ تہذیب، اقدار وروایات کی بازیافت کرو اور انگریزی مغربی صیہونی صلیبی طاغوتی، دجالی اور شیطانی سامراج کی غلامی ذلت اور رسوائی کا قلادہ اپنی گردنوں سے اتار پھینکو۔۔

غلامی کی فرسودہ و بوسیدہ زنگ الود زنجیروں کی جکڑن توڑ دو۔۔مبادا کہ پھر نئی زنجیروں میں نہ جکڑ دیئے جاؤ ۔۔

اٹھو اور اس طاغوتی حکومتی شاہی دفتری نظام زبان و نصاب تہذیب و معاشرت پر ایک کاری ضرب لگاؤ اور اپنے مکمل اسلامی نظام حیات میں زندگی کی نئی راہیں تلاش کرو اور اس مغربی انگریزی اس کی بودی بوسیدہ گلی سڑی سسکتی دم توڑتی ہوئی لاش کو اٹھا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دو۔۔

اٹھا کر پھنک دو باہر گلی میں کہ
مغربی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

۔۔۔وگرنہ یاد رکھو! داستانوں میں تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی.

 

Bashir Kokab
About the Author: Bashir Kokab Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.