تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ حرام کی کمائی کھانے والے اشخاص کی
عبادات اس طرح ضائع ہو جائے گی جیسا کہ ابلیس کی افسوس صد افسوس کہ آج کے
اس پر آ شوب معاشرے میں لا تعداد اشخاص حضرت علی علیہ السلام کے اس فرامان
کو بخوبی جاننے کے باوجود اپنے ماتھے پر ایمانداری کا ٹکہ سجا کر حرام کی
کمائی کے حصول کی خا طر ایک سے بڑھ کر ایک شرمناک اور اذیت ناک داستانیں
رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں جن کے اس گھناؤنے اقدام کو دیکھ کر انسانیت کا
سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے جن کے بارے میں بس میں یہی کہوں گا
کہ یہ اپنا ضمیر بیچتے ہیں فرمان بیچتے ہیں
ارے کوئی ان کی بولی تو لگائے یہ اپنا ایمان بیچتے ہیں
میں تو یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ میں نے گزشتہ شمارے میں تحریر کیا تھا کہ
میرے ایک سفید پوش دوست جو بڑی مشکل سے آئے روز کی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور
بے روزگاری کے دور میں اپنے اہلخانہ کی پرورش کر رہا تھا نے بذریعہ ٹیلی
فون مجھے روتے ہوئے آگاہ کیا کہ میری والدہ جو دماغی امراض میں مبتلا ہو کر
اچانک گر گئی تھی جسے ہم بے ہوشی کے عالم میں ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ لیکر
پہنچے جہاں پر جھنگ کے نامی گرامی سیاست دان علمائے دین تاجرز وغیرہ اپنا
علاج کروانا اپنی توہین سمجھتے ہیں چونکہ یہ ایک خیراتی ہسپتال ہے جہاں پر
تو بس ہم جیسے غریب اشخاص جن کا خداوند کریم کے بغیر کوئی سہارا نہیں ہوتا
ہی اپنا علاج معالجہ کروانے آ جاتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی یہاں پر ڈاکٹرز و
لیڈی ڈاکٹرز ہم جیسے بے سہارا اشخاص کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے ہندو
بر ہمن قوم اچھوتوں کے ساتھ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ یہاں پر لاتعداد غریب
اشخاص ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز کی عدم توجہ اور بر وقت ادویات کے نہ ملنے کے
سبب آئے روز اپنے معصوم بچوں کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا
ملتے ہیں اگر یہ ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز غریب مریض اشخاص کو بر وقت ادویات کو
یقینی بناتے تو آ ج مذکورہ ہسپتال کے باہر بنے ہوئے لاتعداد میڈیکل سٹورز آ
باد نہ ہوتے اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہ لیبارٹری ٹیسٹ کے
محتاج مذکورہ ڈاکٹرز ہیں جو لیبارٹری ٹیسٹ کے محروم منت اپنی پریکٹس جاری
رکھے ہوئے ہیں درحقیقت تو یہ ہے کہ یہ ناسور لیبارٹری ٹیسٹ کی مد میں بھی
اپنا کمیشن وصول کرنے میں مصروف عمل ہیں اور تو اور یہ وہ معزز لٹیرے ہیں
جو حرام کی کمائی کے حصول کی خا طر سرکاری ملازمین جو از خود ریٹائر منٹ
لینا چاہتے ہیں سے بھاری رقوم وصول کر کے اُنھیں مختلف موذی امراض میں
مبتلا کر کے ناکارہ بنا دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں ناکارہ سرکاری ملازمین
اپنی اپنی سیٹوں پر اپنے جواں سالہ بچوں کو تعنیات کروا دیتے ہیں یہی کافی
نہیں یہ وہ ناسور ہیں جو اپنے فرائض و منصبی مذکورہ ہسپتال میں ادا کرنے کے
بجائے اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر ادا کرتے ہیں جہاں پر یہ ناسور پرائیویٹ
کمروں کا کرایہ ایک ہزار روپے سے لیکر تین ہزار روپے یومیہ چیکنگ فیس
ہزاروں روپے کے علاوہ اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر بنائے گئے میڈیکل سٹوروں کی
ادویات منہ مانگے داموں وصول کر کے اُن کے ورثا کو بھیک مانگنے پر مجبور کر
دیتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ یہ انسان کے روپ میں ڈریکولا ہیں جو انسانیت جس کی
بقا کے حصول کی خا طر نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنا سب
کچھ قربان کر دیا تھا کا خون چوس رہے ہیں جن کے اس گھناؤنے اقدام کو دیکھ
کر ان کا ماتحت عملہ جن کے بارے میں بس میں یہی کہوں گا
کہ بڑے میاں تو بڑے میاں
چھوٹے میاں سبحان اﷲ
یہ بھی ہلاکو خان اور چنگیز خان بن کر مذکورہ ہسپتال میں مریضوں اور اُن کے
غریب ورثا کے ساتھ ہمہ وقت ہتک آ میز سلوک روا رکھے ہوتے ہیں جس کا واضح
ثبوت یہ ہے کہ اگر آپ مذکورہ ہسپتال کے تمام وارڈز کی سسٹرز جن کے فرائض و
منصبی میں یہ شامل ہے کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں پڑے ہوئے غریب
مریضوں کی دیکھ بھال اور حسن و سلوک سے پیش آئے لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ
غریب مریضوں کے ورثا کو جو ڈاکٹروں و لیڈی ڈاکٹروں کی عدم توجہ اور بر وقت
ادویات کے نہ ملنے کے متعلق آ گاہی دے اُنھیں ایسے دیکھتی ہیں جیسے بھوکی
شیرنی اپنے شکار کو قصہ مختصر کہ میں ان تمام حالات کو بخوبی جاننے کے
باوجود بڑی بے بسی کے عالم میں اپنی ذہنی مریضہ والدہ کے ہمراہ مذکورہ
ہسپتال پہنچا تو کافی تنگ و دو کے بعد میری والدہ کو مذکورہ ہسپتال کے وارڈ
نمبر چار میں داخل کر دیا لیکن یہاں بھی وہی ہوا کہ جس کا مجھے ڈر تھا یہاں
پر میری والدہ جو سکتے کے عالم میں تھی کو بیڈ نہ ملا بالآ خر کافی منت و
سماجت کے بعد میری والدہ کو بیڈ نمبر آ ٹھ پر لٹا دیا گیا جسے میں بڑی حسرت
بھری نگاہوں سے دیکھ کر سوچتا رہا کہ اگر آج میں امیر ہوتا تو آج جس طرح
میری والدہ کے ساتھ یہ ہتک آ میز سلوک روا ہوا ہے نہ ہوتا بلکہ آج میری
والدہ کسی پرائیویٹ کلینک پر تعنیات ڈاکٹروں کی نگہداشت میں اے سی روم میں
ہوتی میں اسی سوچ میں مبتلا تھا کہ اسی دوران مجھے خیال آیا کہ خداوند کریم
جو بھی کرتا ہے وہی بہتر ہوتا ہے یہ تو اچھا ہوا کہ میری والدہ جو میری جنت
ہے ان حرام خوروں کے نر غے میں نہیں خداوند کریم یہاں جو بھی کرے گا بہتر
کرے گا یہی سوچ کر میں یہاں اپنی والدہ کا علاج کروانے میں مصروف عمل ہو کر
رہ گیا کبھی میری والدہ کو ادویات مذکورہ ہسپتال سے مل جاتی اور کبھی مجھے
ادویات مذکورہ ہسپتال کے باہر سے خرید کر لاتا تو اُس کا لیبل وہاں پر
موجود سٹاف اتار کر اپنے پاس رکھ لیتی اور وہاں پر ہسپتال کا لیبل لگا دیتی
اگر میں اس پر احتجاج کرتا تو مجھے سخت بے عزت کرنے کے ساتھ ساتھ میری
والدہ کو مذکورہ ہسپتال سے الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد منتقل کرنے کی دھمکیاں
ملتی یہ سلسلہ تقریبا پانچ یا چھ روز تک جاری رہا بالآ خر ایک دن مذکورہ
وارڈ کے انچا رج جمشید خان نے میری والدہ کو الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد
منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دیئے یہ سن کر میری آ نکھوں کے سامنے
اندھیرا چھا گیا چونکہ میرے پاس جو کچھ تھا یا پھر میں نے جو اُدھار لیا
تھا وہ تو میں نے اپنی والدہ کے علاج پر خرچ کر دیا تھا اور وہ بھی
پرائیویٹ لیبارٹری ٹیسٹوں پر اور بازار سے خریدی گئی ادویات پر میرے پاس تو
اب فیصل آ باد جانے کا کرایہ بھی نہیں تھا اپنی والدہ کا الائیڈ ہسپتال
فیصل آ باد میں علاج کیسے کرواتا جس پر مایوسی کے عالم میں مذکورہ ہسپتال
کے ایم ایس ڈاکٹر مجیب الرحمان کے پاس پہنچ کر اُسے سارے حالات سے آگاہ کیا
تو مذکورہ ایم ایس نے میری درد بھری کہانی سن کر مجھے میری والدہ کا چارٹ
لینے کیلئے بھیجا تو وہاں پر موجود سسٹرز نے مجھے چارٹ دینے سے صاف انکار
کر دیا بعد ازاں مذکورہ ایم ایس کی ذاتی کاوش کے نتیجہ میں مذکورہ سسٹرز نے
چارٹ دیا تو مذکورہ ایم ایس نے میری والدہ کو مذید وہاں رہنے کے ساتھ ساتھ
فری ادویات کے احکامات صادر کر دیئے جس پر مذکورہ وارڈ کے انچارج جمشید خان
نے اسے اپنی ذاتی انا بناتے ہوئے میری والدہ کو تین بار الائیڈ ہسپتال فیصل
آباد منتقل کرنے کے احکامات صادر کر دیئے لیکن ہر بار مذکورہ ہسپتال کے ایم
ایس ڈپٹی ایم ایس ڈاکٹر ظفر پاتوآنہ اور ڈاکٹر راؤ ارشد جو اپنے فرائض و
منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کر رہے ہیں کی مداخلت پر
کینسل کر دیئے گئے بالآ خر میں آئے روز کے اس ہتک آ میز رویے سے دلبرداشتہ
ہو کر اپنی والدہ جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے کو اپنے گھر واقع
مدو کی میں لیکر آ گیا ہوں اور آج میں آپ کی وساطت سے مذکورہ ہسپتال کے
وارڈ انچارج جمشید خان اور اُس کے تمام ہمسفر ساتھی ڈاکٹروں و لیڈی ڈاکٹروں
سے بس ایک سوال کرتا ہوں کہ وہ بس یہ بتا دیں کہ وہ اپنے پرائیویٹ کلینکوں
پر پڑے ہوئے مریضوں کو آ خری ٹائم تک دوسرے اضلاع ریفر کیوں نہیں کرتے اور
ہم جیسے غریب مریضوں کو ریفر کیوں کرتے ہو جو اکثر راستے میں ہی دم توڑ
جاتے ہیں -
|