ظلم ،نا انصافی اور معاشرہ

یہ آج سے لگ بھگ پچیس تیس برس پہلے کی بات ہے ہم کالج میں نئے نئے داخل ہوئے ،کیمسٹری ملک نورزمان صاحب پڑھاتے تھے اﷲ انہیں غریق رحمت کرے کیا نفیس انسان تھے ہر وقت مسلمانوں، معاشرے اور حالات پر کڑھتے رہتے ،انہیں دنوں امریکہ میں ایک مشہور واقعہ ہوا جس کی بازگشت کیبل کی چمک دمک اور دن رات چیختے چھنگاڑتے چینلز کی عدم موجودگی کے باوجود پوری دنیا میں پوری شدو مد سے سنی گئی اور یہ واقعہ اور اس کے اثرات دنیا کے تقریبا ہر ملک میں محسوس کیے گئے،واقعہ کچھ نیا یا انوکھا نہیں تھا مگر ایک ترقی یافتہ ملک میں ایک عورت کو اس وقت سزائے موت دینا جب دنیا پھانسی اور موت کی سزا کے خلاف احتجاج کی شروعات کر رہی ہو عین اس وقت کسی ملزم اور وہ بھی ایک عورت کو موت کی سزا نے ان نام نہاد ترقی اور بنیادی انسانی حقوق کے دعویداروں کو ہلا کر رکھ دیا یہ خبر دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئی جس دن ہم کالج پہنچے اس دن پروفیسر نور زمان صاحب نے اس خبر کا حوالہ دیا اور بتایا کہ ہمارے اسلاف میں سے حضرت علی ؓ کا یہ قول ہے کہ ظلم پر مبنی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ناانصافی پر مبنی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا،ملک نورزمان صاحب نے اس پر پورا لیکچر دیا اور بتایا کہ میں آپ کو واضح بتا رہا ہوں کہ یہ سزا معاف نہیں ہو گی کیوں کہ امریکہ ترقی کر رہا ہے اور اس ترقی کہ پیچھے چھپا راز یہی مبنی بر انصاف فیصلے ہیں، سزاے موت پانے والی عورت کا نام karla Faye Tuckerتھااس کی ماں ایک کال گرل تھی یہ تین بہنیں تھیں ماں باپ کے درمیان طلاق ہوئی تو چھ سال کی عمر میں کارلا نے پہلے سگریٹ پینا شروع کیے پھر بارہویں سال ڈرگز پر چڑھی اور پھر آہستہ آہستہ یہ بھی بچے بڑوں سے اثر لیتے ہیں کے مصداق صرف 14برس کی عمر میں ہی ماں کے نقش قدم پر چل پڑی اور طوائف بن گئی،اکیس سال کی عمر میں اس کی شادی ہوئی مگر کچھ ہی عرصہ بعد اس رشتے سے اکتا کر اور ایک پینتیس سالہ شخص گیرٹ کی گرلز فرینڈ بن کر زندگی گذارنے لگی،ساتھ طوائف کا دھندا بھی جاری رکھا مگر کچھ عرصہ بعد ہی یہ اس کام سے اکتا گئی ،اس نے سوچا کچھ اور کرنا چاہیے مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم یا کوئی ہنر نام کی کوئی چیز پاس تھی نہیں سو اس نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر کاریں اور بائیکس چھیننے کا پروگرام بنایا،کچھ عرصہ یہ کام بھی کامیابی سے چلا مگر 13جون 1983کی رات تین بجے واردات کے لیے جب یہ دونوں ایک اپارٹمنٹ میں اسپورٹس موٹر سائیکل چوری کرنے گئے تو انہیں نہیں معلوم تھا کہ اس فلیٹ کا مالک اور اس کی بیوی پہلے سے اندر موجود تھے، میاں بیوی نے مزاحمت کی جس پر کارلا اور اس کے بواے فرینڈ Garriotنے دونوں مزاحمت کاروں کو ہتھوڑے کے وار سے قتل کر دیا،،واردات کے بعد یہ دونوں موقع سے فرار ہو گئے تاہم امریکن پولیس نے چند ہی روز بعد دونوں کو گرفتار کر لیا ،کیس عدالت میں گیا چند پیشیوں کے بعد ہی جج نے دونوں کو سزاے موت سنا دی،یہاں سے اصل کھیل شروع ہوا کارلا کے بواے فرینڈ کو تو سزاے موت دے دی گئی اپیل اور اعلیٰ عدالت کے چکر میں تقریباً چودہ سال ان دونوں کو جیل میں قید رہنا پڑا ،کارلا نے جیل میں بائیبل کا مطالعہ شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہترین مبلغہ بن گئی سابقہ زندگی سے توبہ کی اور نہ صرف خود کو بلکہ جیل کے ماحول کو بھی یکسر تبدیل کر دیا قیدیوں سے لیکر جیلر تک اس کی عزت کرتے ادب سے بلاتے اور اسے احتراماً کرسی پیش کرتے ،اس کی باتوں میں ایسی تاثیر تھی کہ جو اسے ملتا اسی کا ہو کر رہ جاتا،وہ ایک انقلاب کی داعی بنتی جا رہی تھی،لوگ اسے ملنے آنے لگے بات میڈیا اور اخبارات میں آئی تو لوگوں کا جیسے سمندر امڈ پڑا،ہر اخبار میں اس کی باتیں انٹرویوز اور بڑی بڑی تصاویر شائع ہونے لگیں، جب اس کے بواے فرینڈ کو سزائے موت ہوئی تو اس کے ساتھ ہی امریکہ میں save karlaکی پرجوش تحریک شروع ہو گئی ،سڑکوں پر بہت بڑے بڑے جلوس نکلنے لگے جن میں ہزاروں لاکھوں افراد شریک ہوتے،گئے موت سے پندرہ دن قبل CNN کے لیری کنگ جو 1985سے دنیا کا مقبول ترین شو کر رہے ہیں نے جیل میں کارلا سے ملاقت کی اس کا انٹرویو کیا اور اس سے پوچھا تمہیں موت سے ڈر تو لگتا ہو گا،اس نے جواب دیا بالکل بھی نہیں ،لیری نے پوچھا وہ کیوں ،کارلا نے جو جواب دیا اس نے ایک بار پھر پورے امریکہ میں ہلچل مچا دی ،جی ہاں کارلا نے پورے سکون اور اطمینان سے کہا موت سے کیسا ڈر میں مر کر اپنے رب سے ملوں گی مجھے تو اشتیاق ہے اس ملاقات کا،اس انٹرویو کے بعد ایک بار پھر پورے امریکہ بلکہ یورپ میں بھی ہلچل مچ گئی لوگوں نے ٹیکساس کے گورنر جارج بش کے گھر کے باہر احتجاجی دھرنا دے دیا ادھر تاریخ میں پہلی بار امریکہ کے سب سے بڑے پادری جیکی جیکسن نے بھی کارلا کی حمایت اور سزاے موت ختم کرنے کی اپیل کر دی،تما م تر دھونس دھمکیوں دباؤ اور اپیلوں کے باوجود گورنر بش نے جواب دیا مجھے قانون پر عملدارٓمد کے لیے گورنر بنایا گیا ہے نہ کہ قاتلوں کو معاف کرنے کے لیے وہ اگر فرشتہ بھی بن جائے تب بھی اسے سزا بھگتنی ہو گی،معاملہ امریکہ کی سپریم کورٹ میں پہنچا جہاں پر یہ اعتراض لگا کر اپیل خارج کر دی گئی کہ بھلے پوری دنیا بھی کہے کہ یہ عورت ایک مقدس ہستی ہے اور توبہ کر چکی ہے تو بھی امریکی قانون میں اسے معاف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں جس عورت نے دو انسانوں کو قتل کرتے وقت ان پر رحم نہیں کیا دنیا کا کوی قانون اس پر رحم نہیں کر سکتا،ہم نے خدا کو ان دو لاشوں کے لیے جواب دہ ہیں جنہیں کارلا نے مار ڈالا،یہاں مجھے اپنے پیارے نبی ﷺ کی وہ بات یاد آئی کہ خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا،اور یہ بھی سمجھ آئی کہ اس وقت جب آئی ٹی نام کی کوئی شے نہیں تھی کوئی خبر اخبار بھی نہیں تھا مگر لاکھوں مربع میل پر امن کیسے قائم ہو گیا تھا عمر ؓبن خطاب بائیس لاکھ مربع میل کے حکمران تھے اور چڑیا پر نہیں مارتی تھی مگر یہاں کسی کو سمجھ ہی نہیں ا ٓرہی کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے،ہمیں کالج چھوڑے مدت ہو گئی مگر 1959میں پیدا ہونے والی کارلا کو محض 37سال بعد 1998میں موت کا انجکشن لگا دیا گیا یوں پوری دنیا کے شور شرابے اور ہاہا کار کے باوجود انصاف کا بول بالا کیا گیا ، اب ذرا اپنے ہاں کی حالت بھی دیکھ لیں ،سانحہ ماڈل ٹاون ہو،کراچی سابق چیف جسٹس کی آمد پر لوگوں کا سڑکوں پر دن دیہاڑے قتل عام ،د گارمنٹس فیکٹری میں دو سو پچاس افراد کو زندہ جلا دینے کا واقعہ ،سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو،سانحہ خروٹ آباد یا سانحہ ساہیوال،ہر جگہ مظلوم انصاف کے لیے در بدر پھر رہے ہیں،کہیں کوئی شاہ رخ جتوئی نظام انصاف کو وکٹری کا نشان بنا کر اس کی اوقات دکھا رہا ہے کہیں کوئی ایان علی اور کہیں کوئی ایم پی اے بیچ سڑک کے عوام کو ان کی اوقات یاد دلا رہا ہے، احتساب ہو رہا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ کہیں ہوتا نظر نہیں آ رہا،احتساب اور انتقام میں فرق ہونا چاہیے ، احتساب کا دائرہ ذرا وسیع کر کے کے پی کے اور بلوچستان کی طرف بھی دھیان کر نا چاہیئے اس کے علاوہ اپنی صفوں میں موجود جغادریوں سے بھی باز پرس کی جانی چاہیے تبھی اعتبار قائم ہو گا، حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ؓ کا قول ہے کہ ظلم پر مبنی معاشرے قائم رہ سکتے ہیں مگر ناانصافی پر مبنی نہیں،کہا جا سکتا ہے کہ یہاں تو ظلم بھی ہے اور نا انصافی بھی اور معاشرہ بھی قائم ہے تو گذارش ہے کہ زندہ لاشیں ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے آج ہم مجموعی طور پر نظر آ رہے ہیں،مالی تو مالی اخلاقی طور پر بھی ہمارا دیوالیہ نکل چکا ہے ،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے