ہوتا ہے شب وروزتماشا مرے آگے ......

عروس البلادممبئی میں جنوبی ممبئی کی گنجان آبادی اور تنگ گلیوں ومحلے والے علاقے ڈونگری ،بھنڈی بازار،پائیدھونی اور کالبادیوی میں دوران موسم باراں یا اس کے آس پاس پرانی خستہ حال عمارت کے منہدم ہونے کا خدشہ بنا رہتا ہے،منگل 17جولائی کو جب کیسر بائی عمارت تاش کے پتوں کی طرح بکھرگئی تو میری آنکھوں کے سامنے جنوبی ممبئی کے پوش اور دفتری علاقے فورٹ میں شہیدبھگت سنگھ روڈپر ریزروبینک آف انڈیا سے متصل 296،پالکھی والا بلڈنگ کے منہدم ہونے کا واقعہ کے مناظر فلم کی طرح گھومنے لگے ،میں اورمیرا خاندان بھی اسی طرح پرانی عمارت کے انہدام کا شکار بنا تھا،اﷲ کے کرم سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ،البتہ دودرجن سے زائد خاندان بے گھر ہوگئے اور پھربمبئی ریپیئربورڈ کے ذریعہ مرمت کے بعد ٹھیک 22 سال بعد عمارت کے وہی حصہ گرگئے جن کی مرمت مہاڈا کی نگرانی میں ٹھیکیدار سے کرائی تھی اور بڑی تعداد میں مکین جاں بحق ہوئے ،ان معاملات میں وقتی کارروائی ہوئی ضرور ،لیکن پھر وہی ڈھاک کے تین پات ،ممبئی میں یہ تماشا روزکا معمول ہے اور میونسپل کارپوریشن،مہاراشٹر آریا ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (مہاڈا) اور دیگر محکموں کے افسران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہیں۔اس سلسلہ میں مرزا غالب کا اوپر کہا گیا شعر بالکل صادق ہے ۔

جنوبی ممبئی میں واقع ڈونگری علاقہ کی کیسر بائی عمارت کے منہدم ہونے کے دوروزبعد جمعرات کی شب ممبئی کے میونسپل کمشنر پروین پردیسی نے شدید دباؤ میں مذکورہ علاقہ کے میونسپل بی وارڈکے معاون کمشنر وویک راہی کو معطل کردیا ہے ،کیونکہ حادثہ کا شکار ہونے والی عمارت کواس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا ،جوکہ علاقے کی خستہ حال اور غیرقانونی عمارتوں کے لیے مانسون سے پہلے تیار کی گئی تھی ہے اور نہ ہی اس عمارت کے مکینوں کو نوٹس دیا گیا تھا۔کمشنر پروین پردیسی نے بی وارڈ کے معاون کمشنر کو معطل کرنے کے ساتھ ہی محکمہ جاتی تحقیقات کا بھی حکم جاری کردیا ہے ،اس کی وجہ سے صحیح صورتحال سامنے آئے گی اور مستقبل میں اہم اقدام کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوگی ان علاقوں میں بے شمار خستہ حال پرانی عمارتیں ہیں لیکن ان کی مرمت اور بازآبادکاری کے سلسلہ میں بی ایم سی اور مہاڈا کے افسران چشم پوشی کرتے ہیں۔اس سے قبل بی ایم سی صدردفتر کے قریب بھی ایک فٹ اوورپل کے انہدام کے نتیجے میں افسران اور ٹھیکیدارکے خلاف بھی کارروائی جاچکی ہے۔جوکہ ایک نیک شگون کہا جاسکتا ہے ۔

ممبئی بحر عرب پر متعددچھوٹے چھوٹے جزائر یا ٹاپو کو پاٹ کر بنایا گیا،پرتگیز وں کے بعد انگریزوں نے اس کی ترقی کے لیے اہم رول اداکیا جبکہ پارسی،مسلم بوہرہ اور میمن برادری کے ساتھ گجراتیوں نے بھی کافی حصہ لیا ،یہی جنوبی اور جنوب وسطی ممبئی فرنگیوں نے بسایا ہے جس کا نقشہ سودیڑھ سوسال کی آبادی اور وسائل کی بنیاد پر بنایا گیا ،امپریل گزیٹر آف انڈیا (صوبہ بمبئی)نے ’’ ممبئی کو مشرق کا ایک خوبصورت شہر قرار دیا جوکہ قدرتی مناظر کی دلکش اور تجارتی وثقافتی اہمیت کے لحاظ سے مغرب کے کسی دوسرے بڑے سے بڑے شہر کے مقابلے میں نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ اسے شہروں کی دلہن یعنی عروس البلاد قراردیا گیا۔‘‘ذرائع ابلاغ اور خصوصی طورپر الیکٹرونک میڈیا ان عمارتوں کو غیر قانونی ،غیر قانونی قراردینے کی رٹ لگائے ہوئے تھا جوکہ جھوٹ کی بنیاد پر مبنی ہے ،یہ عمارتیں سوسال پرانی ممبئی کی ہیں اور تنگ گلیاں بھی اسے دورکی نشانی ہیں ،بیل گاڑی اور گھوڑا گاڑی کا رواج تھا ،یہی حال پرانی دہلی ،کولکتہ ،لکھنؤ ،حیدرآباد سمیت دیگر شہروں کی پرانی آبادی میں نظرآتا ہے۔

تقریباً نصف صدی سے ممبئی میں ان پرانی عمارتوں کے گرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور مہاراشٹر حکومت نے نئی منصوبہ بندی طے کرتے ہوئے پہلے بمبئی ہاوسنگ اینڈ ایرا ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (بھاڈا) کی بنیاد رکھی ،جس کے تحت ایک ریپئر بورڈ بھی تشکیل دیا گیا اور پھربھاڈا کو 1980کی دہائی میں مہاراشٹر ہاوسنگ اینڈ ایرا ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (مہاڈا) کا نام دے دیا گیا ،لیکن ان پرانی عمارتوں کی مرمت یا ازسرنوتعمیر کے بجائے ان علاقوں میں بلڈروں اور تعمیراتی مافیا کے ہتھے چڑھ کر افسران نے فلک بوس عمارتوں اورٹاور کو بنانے کی منظور دینا شروع کردیا اورپرانی عمارتوں میں جھانک کر بھی نہیں دیکھا گیا، ان معاملات میں قانون وضوابط کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ،ان چھوٹی چھوٹی عمارتوں کے مکینوں کی نہ انتظامیہ کو پروا ہے اور نہ مکان مالکان کو ۔جوکہ ری ڈیولپمنٹ کے چکر میں پڑچکے ہیں،چند ہفتے اس قسم کے واقعہ سرخی میں رہتے ہیں اور پھر ان بے گھر لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتاہے ،مہاڈا اور بی ایم سی نے ان خستہ حال عمارتوں کے مکینوں کے لیے شہر دورافتادہ مضافات میں عارضی عمارتیں (ٹرانزٹ کیمپ)تعمیر کی ہیں جوکہ اس علاقے سے 30-40کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں ،جہاں کا سفر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔اس لیے کوئی ان مقامات تک نہیں جانا چاہتا ہے ۔

گزشتہ منگل کو جوکیسر بائی عمارت منہدم ہوئی وہ اتنی تنگ گلی میں واقع تھی کہ ملبے کو ہٹانے اور اس کے نیچے دبے مکینوں کو نکالنے میں 15-20گھنٹے لگ گئے کیونکہ ان گلیوں میں ملبہ ہٹانے والی مشینوں (جی سی بی )،بلڈوزراور آلات کو لے جانا ممکن ہی نہیں تھا اور ایک اندازے کے مطابق زیادہ جانی نقصان کا ایک سبب یہی ہے۔ایک زخمی خاتون حلیمہ نے اسپتال میں علاج کے دوران انتہائی جذباتی انداز میں اس بات کا اظہار کیا کہ اس کے دوبچوں نے وقت پرمدد نہ ملنے کے نتیجے میں ایک ایک کرکے اس کی آنکھوں کے سامنے دم توڑدیا اور بے یارومددگار انہیں دم توڑتا دیکھتی رہی ۔این ڈی آرایف نے جاسوس کتوں کی مدد سے لوگوں کی جان بچانے میں پوری جان لگا دی ،لیکن تماشائیوں اور مددکرنے کے بہانے جمع افراد کی وجہ سے بچاؤاور راحتی کام میں کافی دشواری پیش آئی اور اس کے لیے این ڈی آرایف نے پولیس کو ذمہ دار قراردیا ہے جوکہ غیرتربیت یافتہ ہے اور مجمع کو قابو میں کرنے سے قاصر نظرآتی ہے۔

ممبئی میونسپل کارپوریشن اور دیگر انتظامیہ سے حاصل اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ دودہائیوں کے دوران ممبئی شہر کے مختلف علاقوں میں عمارتیں ،دیوار،جھوپڑے گرنے ،زمین دھنسے اور پہاڑی چٹانیں کھسکنے کے تقریباًدوہزار 704واقعات پیش آئے ہیں اوراس عرصہ میں 500 سے زائد افرادلقمہ اجل بن چکے ہیں ،لیکن 2013-2019کے چھ برسوں کے درمیان یہ تعداد کچھ زیادہ ہوئی ہے،یعنی 234 شہریوں کی جانیں تلف ہوئی ہیں ،لیکن ملک کے تجارتی دارالحکومت اور خوابوں کے شہر کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی ،حالانکہ میونسپل کارپوریشن برائے ممبئی عظمیٰ کا سالانہ بجٹ گوا،سکم اور کئی چھوٹی ریاستوں سے بھی زیادہ ہے ،لیکن موسم باراں میں نشیبی علاقوں میں دعوؤں کے باوجود پانی جمع ہونے ،عمارتیں منہدم ہونے ،نقل وحمل کا نظام درہم برہم ہونے اور عام شاہراہوں کی خستہ حالی عام سی بات بن گئی ہے۔بلکہ ممبئی والوں کواس کی عادت سے پڑگئی ہے۔

آخر میں ممبئی کے موجودہ حالات کے لیے کون ذمہ دارہے ،اگر نظرڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب تو 60-70کلومیٹر کے فاصلہ پر کئی نئے نئے شہروں اور کارپوریشن نے سراٹھالیا ہے ،جس کا اثر ممبئی پر پڑنا لازمی ہے ،انگریزوں نے جنوبی ،جنوب وسطی ممبئی کو بسایا تھا ،لیکن آج ممبئی کی سرحدیں تین سمتوں میں دوردورتک پھیل گئی ہیں اور موسم باراں میں جوحال ہوتا ہے ،وہ کسی سے چھپا نہیں ہے،ممبئی اور اس کے کئی دورافتادہ مضافاتی علاقوں میں بے ترتیب تعمیراتی کاموں نے اسے کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کردیا ہے ،فلک بوس عمارتوں اور جھوپڑا بستیوں کے سنگم والے اس ترقی یافتہ شہر میں کئی موقعہ ایسے آتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں زندگی گزارنا مشکل امر ہے ،لیکن کئی اسباب سے اس کی کشش کم نہیں ہوئی ہے ،یہی وجہ ہے کہ مرحوم علی سردار جعفری کا یہ شعر آج بھی اس پر صادق ہے ،
نہ جانے کیا کشش ہے بمبئی تیرے شبستاں میں
کہ ہم شام اودھ ،صبح بنارس چھوڑآئے ہیں
 

Jawed Jamal Uddin
About the Author: Jawed Jamal Uddin Read More Articles by Jawed Jamal Uddin: 53 Articles with 39967 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.