ریٹائرمنٹ اور اس کی مشکلات

(ماریہ سلیم)
زندگی ‘ تبدیلی کا دوسرا نام ہے۔ اس تبدیلی کا دارومدار قدرت کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ عمر اس تبدیلی کا پیمانہ ہے جس پر انسان کی ساخت کو ڈھالا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے تین جزو ہیں بچپن‘ جوانی اور بڑھاپہ ۔بچپن انتہائی پرسکون جزو ہے جس میں انسان پریشانیوں سے دور اپنی دھن میں مست رہتا ہے‘ جوانی زندگی کا وہ جزو ہے جس میں نفسا نفسی اور نشیب و فراز کا خلاصہ ہوتا ہے اور بڑھاپہ زندگی کا انتہائی کمزور جزو ہے جس میں پریشانیاں اور بیماریوں کی زد میں انسان اپنی زندگی کے آخری دن گزارتا ہے۔
اسلام میں بزرگوں سے حسنِ سلوک کا درس جا بجا ملتا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺنے ارشاد فرمایا :
’’میری امت میں سے نہیں جو مسلمانوں کے بڑے کی تعظیم اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور عالم کا حق نہ پہنچائے۔‘‘ (فتاوی رذویہ)
حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کیا اور بڑوں کی تعظیم نہیں کی وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی ﷺ نے فرمایا:
’’جو جوان کسی بوڑھے کی سن رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرمادیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔‘‘
بچپن میں گڈا ‘ گڑیا کے ساتھ کھیلتے ہوئے انسان جوانی کی طرف جب قدم بڑھاتا ہے تو خود کو مستحکم بنانے کے لیے وہ مختلف نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔مالی استحکام کے لیے وہ زندگی کے اس حصے میں تگ و دو کرتا ہے اور پھر ایک دن اسے سرکاری ملازمت ملتی ہے۔ بظاہر سرکاری ملازمت کے بہت سے فوائد ہے جن میں سب سے بڑا فائدہ ریٹائرمنٹ پے پینشن کی وصولی ہے۔ وہ اپنے بڑھاپے کی زندگی کو آسان کرنے کے لیے اپنی ملازمت میں آنے والی مشکلات کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی کے مراحل گزارتا ہے۔ کبھی اسے ٹرانسفر کردیا جاتا ہے‘ کبھی اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے‘ کبھی تعریفوں کے انبار لگا دیے جاتے ہیں اور کبھی اسے مایوسی بیماری کے راستے تک چھوڑ آتی ہے۔ عمرا نسٹھ برس ہوتی ہے تو وہ ریٹائر ہونے کے انتظامات شروع کردیتا ہے اور یہاں اسے اپنی ملازمت کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔ کبھی انکم ٹیکس کے دفتر کے دھکے‘ کبھی جی پی فنڈ کی قطاریں‘ کبھی بینک اکاؤنٹ کے لیے بینک کے چکر اور کبھی اندورنِ دفتر کاروائی اس ضعیف کے کندھوں پر لاڈ دیا جاتا ہے۔ عمر کی اس کمزور حصے میں اکثر لوگوں کو بیماریوں نے جکڑا ہوتاہے۔ کمزور ہڈیوں کا یہ ڈھانچہ اپنے ریٹائرمنٹ سے ملنے والے پیسوں سے گھر میں بیٹھی اسکی بن بیاہی بیٹی کی شادی کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔ تپتی دھوپ میں‘ قطاروں میں کھڑے‘ ارد گرد جو نظر گھوماتا ہے تو ہر آنکھ میں ایک امید کی کرن جھلکتی نظر آتی ہے۔ کسی کا خواب گھر بنانے کا ہوتا ہے‘ کسی کا خواب بچے کو پڑھانے کا ہوتا ہے اور کسی کا خواب کاروبار کا ہوتا ہے۔
عمر ساٹھ برس کی ہوتی ہے‘ اور وہ سینیر سیٹیزن کہلاتا ہے۔ پر اس لقب تک جو محنت اس نے کی ہوتی ہے اور جن مشکلات کا سامنہ وہ کرتا ہے وہ صرف وہ اور اس کا رب جانتا ہے۔وہ بظاہر پریشانیوں کے قفس سے رہا ہوتا ہے مگر اندر ہی اندر وہ اس پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے کہ کیا اس پینشن میں گھر کے اخراجات‘ ادویات کے اخراجات اور بچوں کے اخراجات ان چند روپیوں میں پوری ہوگی یا نہیں۔
سینیئر سیٹیزن ایک ملک کے لیے خزانے کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کے تجربے سے نئے آنے والے استفادہ حاصل کرتے ہے۔ یہ ملک و قوم کی خدمت کرکے اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ یہ وہ چراغ ہے‘ یہ وہ ستارہ ہے اور یہ وہ روشنی کا مینار ہے جو اپنی لوح سے ‘ اپنی شعاع سے اور اپنے روشنی سے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو آگاہ کرتے ہے مگر جب اس چراغ سے بتی چھین لی جائے‘ اس ستارے کو گرہن لگ جائے اور اس مینار کی روشنی چھین لی جائے تو یہ اپنے نوجوانوں کو آگاہی فراہم کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔
حکومتِ وقت کو چاہیئے کہ ہمارے معاشرے کے ان قظبی ستاروں کو ریٹائرمنٹ میں آسائشیں فراہم کرے تا کہ وہ اپنے چمک دمک برقرار رکھ سکے اور اپنے محنت و لگن سے نوجوانوں کے لیے مثال قائم کریں۔ حکومتِ وقت سے اپیل ہے کہ وہ ان کے لیے ایک باقاعدہ بیٹھک بنائے اور متعلقہ اداروں کو جلد از جلد کام ختم کرنے کا حکم کرے تاکہ ان بزرگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ‘ ان کی پینشن ان کو بروقت فراہم کی جائے اور ان کو ان کی ایمانداری اور دیانتداری کا پھل دیا جائے۔ بے شک انہیں بزرگوں کی محنت اور قربانیوں سے ہمارا پاکستان اور ہمارا سبز ہلالی پرچم دنیا کے نقشے پر لہرارہا ہے۔
 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 48 Articles with 34090 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.