اس مضمون کا خلاصہ کرنے کی سعی میں نا جانے کتنے پل، کتنے
چائے کے کپ اور سگریٹ کا پورا پیکٹ صرف ہو گیا مگر لا حاصل مسئلہ کافی
گھمبیر تھا کہ اتنے کڑوے مضمون کی ابتداء کہاں سے کی جائے اور کہاں انتہا
ٹھہرے۔ کہاں سے نوکِ قلم میں وہ زہر بھرا جائے جو اس تحریر کو کسیلا بنادے،
بس اسی سوچ میں خیال اک بزرگ کی کہاوت پر جا ٹکا کہ میت پر جائو تو موت کی
اس تلخی کو ضرور یاد کرو جس سے مرحوم تو روشناس ہو چکے آپ نے ابھی ہونا ہے۔
دماغ سے اس خیال کا گزر ہونا تھا کہ نظر اس بیچاری کافی کی بوتل پر پڑی جو
بہت دیر سے مجھے گھور گھور کر اپنی جانب متوجہ کرنے کی سعیِ لا حاصل میں
مشغول تھی۔ فوراً سے بلیک کافی کا ایک مگ تیار کیا اور اپنا بستہ سجا کر جم
بیٹھے۔
معذرت کے ساتھ بات ذرا کہیں اور چل نکلی دراصل لفظ تلخی اپنے اندر نا جانے
کتنے کردہ نا کردہ گناہ، کڑواہٹیں، معاشرتی نا انصافیاں، لا حاصل خواہشات،
انا پرستیوں کی گلی سڑی لاشیں دفن کیے ہوئے ہے، یہ لاشیں زندگی کی لو پر
جلتے جلتے اس حد تک گل چکی ہیں کہ زمانے کی ہوا کا ہلکا سا تھپیڑا انہیں
اپنا خراج وصول کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ پھر خواہ یہ تلخیاں شخصی یا
معاشرتی ناانصافیاں ہوں، حقوق کی پامالی ہو یا رشتوں کی نا پائیداریاں یہ
تعفن پھر سارے ماحول کو پراگندہ کر دیتا ہے۔
ویسے کبھی کبھی ان تلخیوں پر پیار بھی آتا ہے اور ان سے لطف اندوز ہونے کا
بھی اک اپنا ہی مزہ ہے، بالکل کافی کے اس ایک سپ کی طرح جو زبان پر ایک
عجیب سی کڑواہٹ بھی چھوڑ جاتا ہے اور اک بے لگام نشہ بھی۔ اسی طرح یہ
تلخیاں بھی آہستہ آہستہ انسان کی زندگی کا اک لازمی جزو بن جاتی ہیں، یہ وہ
نشہ ہے جو نہ جینے دیتا ہے نہ سکون سے مرنے۔
اللہّٰ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، حواسِ خمسہ عطا کئے یہی
حواسِ خمسہ ان تلخیوں کے شکار بھی بنتے ہیں اور خریدار بھی اس شانِ عظیم کا
مقصد ہمیں یہ باور کروانا تھا کہ دیکھ تو اشرف المخلوقات ہے لیکن قاصر اور
میں قادر۔ قادر کے سامنے قاصر کی کیا اوقات، تو موجود میں لا موجود ہو کر
بھی تیرے اندر موجود ہوں جب چاہوں ، جو چاہوں کر گزروں تیری کیا مجال۔
تو بھائی جب ہم ٹھہرے ہی قاصر تو پھر قادر بننے کی جستجو کیا ٹھہری، ہم کیا
ہماری اوقات کیا تو پھر کیسی کڑواہٹ اور کیسا جلنا کہ عمرِ تمام ہلکی آنچ
پر دم پر پڑے رہیں اور حاصل جمع زیرو۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے
کو بہت دھیان سے ناپتے تولتے ہیں مگر جب اپنی باری آتی ہے، تو یا پیمانہ
ندارد یا انا آڑے آجاتی ہے۔ شاید اس وقت دماغ سے یہ نکل جاتا ہے کہ تو قاصر
ہے، قادر نہیں کہ جو زہر سے زہر کا تریاق کر دے۔ زہر ہمیشہ زہر ہی رہے گا
اور شہد ہمیشہ شہد، یاد رکھو یہ دنیا اس شکر کی مانند ہے جس میں بہت سے زہر
کی آمیزش ہے لیکن اس سب کا تریاق ہمارے اپنے اندر موجود ہے تو جھانکو اپنے
اندر اور پالو اس تلخی سے نجات
بقول غالب
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہءِ غم ہی سہی، نغمہءِ شادی نہ سہی
پاکستان پائندہ باد!
|