شام کے دھندلکے ابھی زمین پر اتر ہی رہے تھے کہ بیگم
نے سرگوشی کے انداز میں قریب آکر کہا۔ صدیق صاحب فوت ہوگئے ہیں۔یہ سنتے ہی
آنکھوں میں مرحوم کی محبت کے آنسو بہہ نکلے اور دل سے ایک آہ سے نکلی اور
پورے جسم میں سرایت کرگئی ۔کیاواقعی صدیق صاحب ہمیں چھوڑکرایک ایسی دنیا
میں جا بسے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔چندلمحوں کے لیے بیگم رکی پھر
بولی۔ جی یہی سچ ہے کہ رضوانہ بیٹی کے والدفوت ہوگئے ہیں ۔ یہ واقعہ جمعرات
مورخہ 18جولائی 2019ء کو جنرل ہسپتال کے میڈیکل وارڈ میں ہوا جہاں وہ گزشتہ
کئی ہفتوں سے زیرعلاج تھے ۔ کہایہ جاتاہے کہ ان کی شوگر بہت بڑھ گئی تھی جس
کے مضر اثرات ان کی آنکھوں اور دماغ پرمرتب ہوئے ۔ ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ
اگر کوئی غریب شخص بیمار ہوجاتاہے تو سرکاری ہسپتال ان کا مکمل علاج کرنے
کی ذمہ داری نہیں لیتے بلکہ ہر جگہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے ہسپتال کو
ریفر کرکے اپنی جان چھڑا لی جائے ۔بے وسائل لوگ اپنے مریضوں کوپرائیویٹ
ہسپتال لے جانے کی ہمت نہیں رکھتے کیونکہ پرائیویٹ ہسپتالوں کی دیواریں بھی
پیسے مانگتی ہیں ۔ بیس پچیس ہزار روپے کمانے والا شخص کے لیے یہ ممکن ہی
نہیں کہ وہ اپنا یا اپنے عزیزو اقارب کا علاج کسی پرائیویٹ ہسپتال میں
کروالے۔ شنید ہے کہ صدیق صاحب کو پہلے جنرل ہسپتال لایاگیا چند دن یہاں
رکھنے کے بعد انہیں فیملی ہسپتال منتقل کردیاگیاجب وہاں بھی آفاقہ نہ ہوا
تو بیٹے فرحان کے توسط سے انہیں سوشل سیکورٹی ہسپتال داخل کروا دیا گیا
۔چند دن وہاں رہنے کے بعد ایک بار پھر انہیں جنرل ہسپتال پہنچا دیاگیا ۔
یہ بھی بتاتاچلوں کہ صدیق صاحب رشتے میں میرے ہم زلف ہیں اس کے علاوہ ان کی
سب سے لاڈلی بیٹی "رضوانہ"میری بہو ہے جس کی شادی میرے سب سے چھوٹے بیٹے
محمد زاہد سے 2013ء میں ہوئی ۔اﷲ تعالی نے انہیں ایک بیٹی ( فریسہ زاہد)
اور ایک بیٹے (محمد عمرزاہد) سے نوازا۔بہوئیں تو میری دونوں ہی بہت سگھڑ ‘
خدمت گزار اور ملنسار ہیں لیکن رضوانہ زاہدنے خوشگوار رویے اور بہترین
خدمات کی بدولت ہمارے دل میں ایسا مقام حاصل کرلیا ہے جس کوہم کبھی فراموش
نہیں کرسکتے ۔جب وہ میکے جاتی ہے تو گھر کی ساری رونقیں بھی ساتھ لے جاتی
ہے۔ بطور خاص فریسہ زاہد اور محمد عمر کے بغیر میں اداس ہوجاتاہوں ۔ بنک سے
ریٹائرمنٹ کے بعد میں اکثر گھر پر ہی رہتا ہوں ‘ گھر میں کون زیادہ کام
کرتاہے اور کون سنی ان سنی کرکے گزر جاتا ہے یہ سب کچھ میری نظروں کے سامنے
ہوتا ہے ۔ میں نے جب بھی دیکھا ‘ رضوانہ کسی نہ کسی کام میں مصروف ہی نظر
آتی ہے۔‘ صبح سے رات سونے کے وقت تک اس کے کام ختم نہیں ہوتے ۔وہ جہاں ایک
نیک سیرت اور وفا شعار بہو ہے وہاں وہ بہترین بیوی کا کردار بھی خوب ادا
کرتی ہے ‘ بچوں کو کب کھانا کھلانا ہے اور کب پڑھانا ہے ‘ سب کچھ اسے ازبر
ہے ۔وہ محمد عمر کو بہترین انسان بنانے کاعزم رکھتی ہے ۔ محمد زاہد تو صبح
بنک جاتا ہے اور رات گئے اس کی واپسی ہوتی ہے اس دوران بچوں کی تربیت اور
نشو ونما کی ذمہ داری رضوانہ کماحقہ پوری کرتی ہے ۔مجھے یاد ہے جب رضوانہ
کی شادی میرے بیٹے محمد زاہد سے ہونا قرار پائی تھی ‘ تو رخصتی کے لمحے
صدیق صاحب کی آنکھوں میں آنسو دکھائی دیئے ۔میں نے آگے بڑھ کر انہیں حوصلہ
دیا کہ پہلے رضوانہ صرف آپ کی بیٹی تھی اب وہ میری بھی بیٹی ہے ۔جب تک میں
زندہ ہوں اسے کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا ۔ جس طرح میں اپنے عہد پر قائم
ہوں اسی طرح رضوانہ بھی بیٹی تسلیم ‘ سے بڑھ میری خدمت کرتی ہے ۔
جب سے صدیق صاحب بیمار ہوئے رضوانہ بن پانی مچھلی کی طرح بے چین اور بے
قرار رہی ‘ کبھی وہ موبائل پر رخسانہ حفیظ سے بات کرتی تو کبھی پی ٹی سی
ایل پر مقدس سبحانی سے معلومات شیئر کرتی ۔اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا
کہ کسی نہ کسی طرح اس کاوالد صحت یاب ہوجائے ۔جب میں نماز فجر مسجد میں ادا
کرکے گھر لوٹتا ہوں تو رضوانہ کو قرآن پڑھتے دیکھتا ہوں ۔کسی نے کیا خوب
کہا ہے کہ نیک سیرت بیٹیاں باپ کے دکھ بانٹ لیتی ہیں ۔صرف رضوانہ ہی نہیں
‘مقدس سبحانی بھی کسی سے پیچھے نہیں تھی ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ
رخسانہ حفیظ اپنے باپ کا سایہ بن کے قدم قدم پر ساتھ چلتی رہی ۔ مجھے یاد
ہے جب صدیق صاحب کو دل کی بیماری نے آگھیرا تو رخسانہ حفیظ ہی تھی جو صبح
سویرے کھانا لے کر سوشل سیکورٹی ہسپتال پہنچ جاتی اور شام ڈھلے اس وقت تک
ہسپتال میں قیام کرتی جب تک اس کے بھائی اپنے کام کاج سے فارغ ہوکر وہاں
آجاتے ۔ ہسپتال سے چھٹی ہونے کے بعد بھی رخسانہ والد کو لے کر اپنے گھر چلی
گئی ۔ جتنی خدمت اور دیکھ بھال ہوسکتی تھی وہ کرتی رہی ۔حتی کہ صدیق صاحب
بالکل صحت یاب ہوکر اپنے گھرچلے گئے۔جہاں رخسانہ کی تعریف بنتی ہے وہاں ان
کے شوہر حفیظ بھی لائق تحسین ہیں جس نے بھانجا ہونے کا حق ادا کردیا ۔
مجھے یادہے چند سال پہلے جب وہ ریلوے سے ریٹائر ہوئے تو ان کے اعزاز میں
پینٹ شاپ میں ایک الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میں جہاں اور
بھی عزیز و اقارب شریک ہوئے وہاں مجھے بھی شرکت کی تاکید کی گئی ۔ زندگی
میں پہلی بار جب ہم ریلوے کی پینٹ شاپ میں داخل ہوئے توعجیب و غریب دنیا
میرے سامنے تھی ۔صدیق صاحب کا وہاں والہانہ استقبال کیاگیا ۔پر تکلف چائے
اور لوزامات کی بھرمار تھی۔ ہمیں ایک اونچی سی عمارت میں لے جایا گیا جہاں
پینٹ شاپ کے فورمین اور دیگر افسران نے بھی صدیق صاحب کی خدمات کو خراج
تحسین پیش کیا ۔ جب مجھے گفتگو کرنے کا موقع ملا تو میں نے کہا بے شک صدیق
صاحب میرے ہم زلف ہیں اور انکی ایک بیٹی بھی بہو کے روپ میں میرے گھر
موجودہے لیکن میں نے صدیق صاحب کو اپنے بہترین دوستوں میں شمار کر تا ہوں
۔انہوں نے کبھی میرے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی بلکہ جب بھی میں ان کے
گھر جاتا ہوں یا وہ میرے گھر آتے ہیں تو ایک جشن کا سماں ہوتا ہے ۔عزیزو
اقارب تو اور بھی بہت ہیں لیکن صدیق صاحب ان سب میں نمایاں ہیں ۔خوش قسمتی
کی بات تو یہ ہے کہ پینتیس چالیس سالہ رفاقت میں کبھی کوئی ایسا موقع نہیں
آیا جب ہم دونوں کے مابین کسی معاملے پر اختلاف پایاگیا ہو ۔ہم اچھے دوستوں
کی طرح زندگی کی شاہراہ پر قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں ۔
کچھ دیر بعد یہ تقریب ختم ہوگئی لیکن ایک بات کا مجھے احساس ہوا کہ صدیق
صاحب اپنے سینئر اور ساتھیوں میں بھی ہر دل عزیز ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ
ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں جزوقتی ملازمت کے لیے ایک بار پھر بلا لیا گیا ۔
صدیق صاحب زندہ دل انسان تھے جن دنوں وہ سک نہر کے مکان میں رہائش پذیر تھے
ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا جن میں آفاق صاحب اور بنارس خان قابل
ذکر تھے ۔پھر جب وہ سک نہر کو خیر باد کہہ کر ریلوے کوارٹرز میں آبسے تو سب
سے پہلے انہیں اپنے بڑے بیٹے (محمد سلیمان ) کی بیماری کا سامناکرنا پڑا ۔
باپ کی حیثیت سے صدیق صاحب نے بیٹے کی صحت یابی کے لیے پانی کی طرح پیسہ
بہایا لیکن جتنا علاج کیا جاتا رہا گردوں کی بیماری اتنی ہی بڑھتی چلی گئی
۔حتی کہ معاملہ ہفتے میں دو مرتبہ ڈیلسز تک جاپہنچا ۔ بظاہر تو یہ ڈیلسز ہی
گردوں کی بیماری کا علاج ہے لیکن یہ علاج اس قدر تکلیف دہ ہے کہ انسان
آہستہ آہستہ موت کی جانب رینگتا دکھائی دیتا ہے ۔ سلیمان کی بیماری کی وجہ
سے شاہ عالم مارکیٹ میں کاروبار بھی ٹھپ ہوگیا اور بٹوے بنانے کا کاروبار
بھی ختم ہوچکا۔ پھر وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب گردے کی تبدیلی کا آپریشن شیخ
زید ہسپتال میں ہونا قرار پایا ۔ ہمارا یہ خیال تھا کہ گردہ تبدیلی کے بعد
صحت کے حوالے سے مسائل ختم ہوجائیں گے لیکن یہ جان کی بے حد تکلیف ہوئی کہ
معالجین کی ہدایت کے مطابق آپریشن کے بعد سلیمان کوتاحیات انتہائی مہنگی
ادویات کھانی پڑیں گی ۔ جو میاں شہباز شریف کے وزارت اعلی کے دور میں
سلیمان کو شیخ زید ہسپتال سے مل جاتی تھیں ۔ادویات کی وصولی اور 8کلب روڈ
سے منظوری کے تمام مراحل سلیمان کی نیک سیرت اور وفا شعار بیوی " شگفتہ "نے
انجام دیےء ۔اس بھاگ دوڑ کا مجھے اس وقت پتہ چلاجب میں اس کے ساتھ ایک بار
8کلب روڈ گیا ۔
اسی دوران قومی الیکشن کی دھوم دھام شروع ہوچکی تھی خیال تو یہی تھا کہ
مسلم لیگ ن ہی کامیابی حاصل کرے گی لیکن جب الیکشن کے نتائج سامنے آئے تو
نیا پاکستان بنانے والے عمران خان کی تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن
میں آگئی ۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ جہانگیر ترین نے اپنی تجوریوں کا منہ کھول
کر‘ اپنے جہاز کواستعمال میں لاکر پوری کردی ۔وفاق میں عمران خان وزیر اعظم
اور پنجاب میں عثمان بزدار وزیر اعلی پنجاب کے منصب پر فائزہوئے ۔انہوں نے
وزیر اعلی کا منصب سنبھالتے ہی یہ دیکھے بغیر کہ موذی بیماریوں میں مبتلا
مریض ادویات کے بغیر زندہ کیسے رہیں گے ‘ یک جنبش بندکر دی ۔ تبدیل شدہ
گردے کو ورکنگ پوزیشن میں رکھنے کے لیے تمام عمر 44ہزار روپے کی ماہانہ
ادویات کھانی ہیں ۔ایک غریب انسان اتنی مہنگی دوائیاں کیسے خرید سکتا ہے
۔شاید انہی سوچوں میں گم صدیق صاحب کو ایک دن دل کا عارضہ لاحق ہوگیا ۔ یہ
پچھلے سال کے ماہ رمضان کی بات ہے کہ سوشل سیکورٹی ہسپتال میں ان کابائی
پاس آپریشن ہوا۔میں جب ان کی مزاج پرسی کے لیے ہسپتال پہنچا تو وہ مجھے
نہایت حوصلہ مند دکھائی دیئے ۔میں نے پوچھا کوئی تکلیف تو نہیں ہورہی
۔انہوں نے انکار میں سر ہلا دیا۔ لیکن ان کے سینے پر بندھی ہوئی بڑی پٹی اس
بات کا ثبوت تھی کہ ان کا بائی پاس آپریشن ہواہے ۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر
انسان حوصلہ مند ہو تو بیماری اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتی ۔ کچھ عرصے بعد
معلوم ہوا کہ ان کو بینائی میں شدید کمی کا سامنا ہے ۔آپریشن بھی کروایا
لیکن بینائی نارمل نہ ہوئی ۔
عید الفطر کے دن برادرم انیس احمد خان نے اپنے گھر میں ہمیں کھانے پر
بلارکھا تھا ۔ عید کی نماز پڑھنے کے بعد جب میں اپنی اہلیہ کے ساتھ صابر بٹ
کے گھر پہنچا تو مجھ سے پہلے صدیق صاحب اور سکینہ بیگم وہاں صالحہ مرحومہ
کی تعزیت کے لیے موجود تھے ۔وہاں سے فراغت پا کر ہم سب انیس خان کے گھر جا
پہنچے ۔ دوپہر کا کھانا اکٹھے کھایا ۔اس وقت صدیق صاحب بالکل ہشاش بشاش
دکھائی تھے ۔لیکن عید کے چند ہفتے بعدہی ایک شام پتہ چلا کہ ان کی شوگر شوٹ
کرگئی ہے ۔بڑھتی ہوئی شوگر ان کی آنکھوں اور دماغ پر اثر انداز ہوگئی وہ
نیم بے ہوشی کے عالم مختلف ہسپتال سے ہوتے ہوئے جنرل ہسپتال پہنچے جہاں ایک
دن پہلے ان کی ایم آر آئی ہوئی تھی ۔ایم آر آئی کی رپورٹ ابھی آنا باقی تھی
کہ موت کا فرشتہ دبے پاؤں انکے قریب پہنچا اور روح ان کے جسم سے نکل کر
اپنے خالق حقیقی کی جانب پرواز کرگئی ۔یہ خبر سنتے ہی تمام عزیز و اقارب
اور دوست احباب ان کی رہائش گاہ کی جانب دوڑ پڑے ۔اس کے باوجود کہ گھٹنوں
میں درد کے علاوہ مجھے بھی رات کو کم دکھائی دیتا ہے لیکن صدیق صاحب کی
نماز جنازہ میں شرکت کے لیے میں رات ساڑھے نو بجے ان کے گھر پہنچا تو ایک
ہجوم گھر کے باہر تھا ہر شخص ایک دوسرے کو دلاسہ دے رہا تھا ۔عزیز و اقارب
کے علاوہ بے شمار محلے دار اور صدیق صاحب کے دوست ( آفاق ) بھی موجود تھے
۔گھر کے قریب ہی کشادہ جگہ پر رات ساڑھے دس بجے نماز جنازہ ادا کی گئی جس
کے صدیق صاحب کے جسد خاکی کو تدفین کے لیے درس بڑے میاں قبرستان لے جاتا
گیا ۔ صدیق صاحب توہمیں چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں جا بسے جہاں سے کوئی
واپس نہیں آتا بلکہ ہم نے ہی وہاں جانا ہے ۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالی انہیں عذاب
قبر سے بچاتے ہوئے جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آمین
صدیق صاحب اپنی شخصیاتی خوبیوں اور بہترین اخلاق کی وجہ سے ہر دلعزیز انسان
تھے جن کے بچھڑنے پر بطور شاعر یہی کہاجاسکتا ہے کہ
بچھڑا کچھ ادا سے کہ رت ہی بدل گئے
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
|